مدثر احمد قاسمی
سچائی و حق گوئی کو ہرزمان و مکان اور ہر مکتبِ فکرمیں ہمیشہ سے انسانی زندگی کا ایک بلند معیار تسلیم کیا گیا ہے۔سچائی کے دامن کے تھامنے والے کو عوام الناس سچائی کا علمبرداراور کذبِ بیانی سے کام لینے والے کو لوگ جھوٹ کا سوداگر گردانتے آئے ہیں، غرضیکہ سچائی سے محبت اور جھوٹ سے نفرت انسانی فطرت میں ودیعت کردی گئی ہے۔اب اگر دنیا کے کچھ لوگ وقتی طور پر ہی سہی مگر جھوٹ کی تحسین کرتے ہیں تو یقیناً یہ ایک غیر فطری عمل ہے اور غیر فطری عمل کی پذیرائی عقل و دانش میں نقص کی غماز ہے۔ اس آئینہ میں جب ہم اپریل کی پہلی تاریخ میں ‘اپریل فول’ کا جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہونچتے ہیں کہ ایک نامعلوم بنیاد کو کچھ سر پھروں نے جھوٹ بولنے کے جشن کے طور پر اپنا رکھاہے۔دلجوئی ،باہمی محبت،دوستانہ مذاق اور تفریحِ طبع کے ان گنت جائز اور مستحسن طریقوں کے موجود رہتے ہوئے کیا یہ ضروری ہے کہ کسی خاص دن میں لوگ عالمی طور پر معتوب چیز، جھوٹ کو اپنائیں؟
انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا نے اپریل فول کی ابتداء کے حوالے سے مختلف مؤ رخین کے متضاد آرا کا ذکر کیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی واقعہ جسکو اپریل فول کی بنیاد بتا یا گیا ہے اخلاقی دائرہ میں نہیں آتا،ان میں سے ہر ایک میں تذلیل کا واضح پہلو موجود ہے۔ بطورِ نمونہ یہاں میں دو مثالوں کو ذکر کررہا ہوں، ان میں سے پہلا جو انسائیکلو پیڈیاآف برٹانیکا کے صفحہ نمبر ۴۹۶/اور جلد نمبر ۱/میں مذکور ہے وہ یہ کہ “چونکہ ۲۵/مارچ سے موسم میں تبدیلی شروع ہوجاتی ہے اس لئے کچھ لوگوں نے یہ مان لیا کہ یہ فطرت کا اپنے ماتحتوں کے ساتھ یہ ایک قسم کا مذاق ہے اور نتیجتاً ان لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ خدا(نعوذ باللہ) ان لوگوں کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں،اسی وجہ سے ان لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ(جھوٹ بول کر)ایک اپریل کو مذاق کے رسم کو شروع کیا۔
دوسرا واقعہ جو’اپریل فول’کے حوالہ سے مؤ رخین نے ذکر کیا ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ہے اور اسکے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوشرپسندرومیوں اوریہودیوں کے ذریعہ استہزااورمذاق کانشانہ بنا یاگیا تھا، موجودہ بائبل میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے (لوقا:صفحہ ۶۳۔۶۵،باب۲۲)۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے ایک عدالت سے دوسری عدالت اور دوسری عدالت سے تیسری عدالت کا چکر کٹوایاتھا۔لاریوس انسا ئیکلو پیڈیا کے مطابق اس تذلیل آمیز عمل کا مقصدحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بے چارگی کو اجا گر کرنا اور انکو ذہنی اذیت سے دوچار کرنا تھا۔
مندرجہ بالا دونوں واقعہ کو پڑھ لینے کے بعد اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ اپریل کی پہلی تاریخ کو ‘اپریل فول’منانے کے در پردہ کس طرح کے نازیبا اور ہتک آمیز مقاصد کارفرما ہیں۔کیا ایک صیحح العقیدہ انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے (نعوذ باللہ) مذاق کا تصور بھی کرسکتا ہے؟یقیناًاسکا جواب نفی میں ہے ،پھر کیوں دوسروں کے ساتھ بطورِ خاص آج کے مسلم نوجوان اس عقیدہ شکن شیطانی عمل کا حصہ بنتے ہیں؟در اصل تہذیبی اور ثقافتی جنگ کے اس دور میں مسلمانوں کے اپنے اقدار اور روایات سے دوری نے باطل تہذیب و ثقافت کو ان پر حاوی کردیا ہے اور دوسروں کے نقش قدم پر چلنے کی للک نے انہیں اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ وہ غلط اور صحیح میں تمیز کر سکیں۔
اسلام اور مسلمانوں کا یہ امتیازی وصف ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے بھیجے گئے ہر نبی اور رسول کو عزت و تکریم کے اعلیٰ معیار پر رکھتے ہیں پھر کیسے کوئی مسلمان ‘اپریل فول’ منا کر حضرت عیسی علیہ السلام کے تذلیل کا حصہ بن سکتا ہے(العیاذ باللہ)؟افسوس کی بات یہ ہے کہ آج حضرت عیسی علیہ السلام کے ماننے والے عیسائی ہی اس مخرب اخلاق اور توہینِ نبی والے عمل کے سب سے بڑے محرک نظر آتے ہیں۔ آج کے تعلیم یافتہ دور میں یہ کہنا کہ یہ عیسائی اپریل فول کے اصل محرک سے ناواقف ہیں یقیناًمضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ اس توہین آمیز عمل میں شرکت کے بعد کوئی عیسائی کیسے حضرت عیسی علیہ السلام سے محبت کے دعوے میں سچا ہوسکتا ہے اور جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے تو وہ اس عمل میں دانستہ شریک ہوکر حضرت عیسی علیہ السلام کی تذلیل نہیں کرسکتے کیونکہ تمام انبیاء سے محبت ایمان کا حصہ ہے اور اگر کوئی مسلمان نادانستہ طور پر اس عمل میں شریک ہو تا ہے توحقیقت کے سامنے آجانے کے بعد اسے فوری طور پر توبہ کرلینا چاہئے۔
‘اپریل فول’ محض پست اخلاقی کا ایک مظہر ہی نہیں بلکہ مجموعہ شر ہے۔ اس کو منانے والے جہاں کذب بیانی کے مرتکب ہوتے ہیں وہیں دھوکہ دہی کو اپنا کر دغابازوں کی فہرست میں شامل ہوجاتے ہیں اور’اپریل فول’ منانے والے اپنے دوست و احباب کو تکلیف پہونچانے کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ اس جشن کا بھی حصہ بنتے ہیں جسکی بنیادایک پیغمبرِ خدا کی تذلیل ہے۔ بالفاظِ دیگر’اپریل فول’کذب بیانی،دغابازی،دل آزاری اور توہینِ نبی کا مجموعہ ہے۔اس چشم کشا حقیقت کے بعد ہم اس نتیجے پت پہونچتے ہیں کہ حقیقی بیوقوف وہ لوگ ہیں جواحمقانہ طور پر ‘اپریل فول’ مناتے ہیں حالانکہ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ اس عمل میں کیوں شریک ہورہے ہیں؟
جہاں تک ایک سچے مسلمان کا سوال ہے تو وہ کسی خاص عمل کومحض اس وجہ سے نہیں کرتا ہے کہ کافی تعداد میں دوسرے لوگ اس کام کو کرتے ہیں۔ایک سچا مسلمان غور و فکر کے بعد ہی کوئی کام کرتا ہے اور کسی ایسے کام میں اپنے وقت کو برباد نہیں کرتا جس میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہو اور نہ ہی آخرت کا ۔حدیثِ مبارکہ میں اسی بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ ایک آدمی کے اسلام کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ لایعنی چیزوں سے بچے۔اس کے بر خلاف یہ جہالت کی علامت ہے کہ محض دیکھا دیکھی لوگ اس کام کو کرنا شروع کردیں جسکو دوسرے کرتے ہیں،چہ جائے کہ وہ کام صحیح بھی ہے یا نہیں۔بلاشبہ ایسے لوگ ہر نئی اور غلط چیز کو اپنانے میں اندھی تقلید کا مظاہرہ کرتے ہیں۔’اپریل فول’ کے حوالہ سے مندرجہ بالا توضیح کے بعدہمارے لئے یہ فیصلہ کرنا آسان ہوگیاکہ اس غیر اخلاقی رسم کو اپنانا اور ترجیحی طور منانا تو دور کی بات بلکہ اس کے لئے ہمارے مہذب سماج کی ڈکشنری میں بھی کوئی جگہ ہی نہیں بنتی ہے ۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگارمعروف تجزیہ نگار اور ایسٹرن کریسنٹ ممبئی میں سب ایڈیٹر ہیں)