مولانا ندیم الواجدی
گذشتہ چند دنوں سے میڈیا میں شیعہ وقف بورڈ اترپردیش کے چیئرمین وسیم رضوی کا ایک بیان زیر بحث ہے، وسیم رضوی نے صدر جمہوریہ، وزیر اعظم اور تمام صوبوں کے وزراء اعلا کو ایک خط لکھا ہے، انھوں نے اپنے اس خط میں الزام عائد کیا ہے کہ مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے، ان میں ڈاکٹر وانجینئر پیدا نہیں ہوتے بل کہ دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں، وسیم رضوی شیعہ ہیں، اور خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کے بیان کی مخالفت میں سنی ہی نہیں بل کہ شیعہ علماء اور ان کی تنظمیں بھی سامنے آگئی ہیں، بل کہ مولانا کلب جواد نے تو ان کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا ہے، انھوں نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر حکومت نے ان کا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا تو وہ اس کے خلاف تحریک چلانے پر مجبور ہوں گے، وسیم رضوی سماج وادی حکومت کے دوران شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین بنائے گئے، حالاں کہ وہ کوئی صاف ستھری شبیہ نہیں رکھتے، حدیہ ہے کہ اپنی کمیونٹی میں بھی ان کو کوئی عزت ووقار حاصل نہیں ہے، شیعہ حضرات ان کو وقف بورڈ کا چیئرمین بنانے کے خلاف بھی تھے، مگر اس کے باوجود ان کو یہ ذمہ داری دیدی گئی کیوں کہ وہ سماج وادی حکومت کے بھاری بھرکم وزیر؛ اعظم خاں کے نہایت قریبی سمجھے جاتے تھے، سماج وادی پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان لوگوں کے لئے جو کسی نہ کسی عہدے پر ہیں یہ ضروری ہے کہ وہ یوگی حکومت کی خوشنودی حاصل کریں، وسیم رضوی کے بیان کو اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے، سب سے پہلے انھوں نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دے کر کہ وہ بابری مسجد سے دست بردار ہوجائیں اور رام مندر بننے دیں، میڈیا میں کافی نام کمایا تھا اور اپنے موجودہ آقاؤں کی واہ واہ سمیٹی تھی، اور اب ان کا یہ دوسرا بیان آیا ہے، خوشی کی بات یہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی مہاراشٹر اکائی کے صدر مولانا احسن مستقیمی نے وسیم رضوی کو قانونی نوٹس بھیج کر بیس کڑوڑ روپے ہرجانے کا مطالبہ کیا ہے، کیوں کہ ان کے اس بیان سے مسلمانوں خصوصاً علماء ، طلبہ اور ذمہ داران مدارس کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور ان کو دلی تکلیف پہنچی ہے، ہمارے خیال میں جمعیۃ علماء کا یہ بہت مناسب قدم ہے ،ایسے لوگوں کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کرنا ہی مناسب حل ہے، اگر جمعیۃ علماء نے نوٹس بھیجنے ہی پر اکتفا نہ کیا بل کہ وسیم رضوی کی طرف سے بیان واپس نہ لینے اور مسلمانوں سے معافی نہ مانگنے کی صورت میں اس سلسلے کو آگے بڑھایا تو اس کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔
مدارس کے خلاف دہشت گردی کا یہ الزام کوئی نیا الزام نہیں ہے سب سے پہلے یہ الزام امریکہ کی طرف سے عائد کیا گیا کیوں کہ ووہ افغانستان اور پاکستان میں طالبان کے بڑھتے ہوئے اثرات سے خوف زدہ تھا، طالبان کیوں کہ مدارس کی پیداوار ہیں اور اتفاق سے انھوں نے پاکستان کے ان مدرسوں میں پڑھا ہے جو دیوبندی مسلک سے وابستہ سمجھے جاتے ہیں اس لئے قدرتی طور پر امریکی حکومت نے دیوبندی مدرسوں کو اپنے نشانے پر لے لیا اور ان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ شروع کردیا، ہندوستان کے فرقہ پرستوں کو بھی موقع ملا کہ وہ بھی امریکہ کی ہاں میں ہاں ملائیں اور ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہزاروں مدرسوں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ شروع کردیں، گذشتہ پندرہ بیس برسوں میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب کسی فرقہ پرست تنظیم کے کسی چھوٹے بڑے لیڈر نے مدارس کے خلاف ہرزہ سرائی نہ کی ہو، کبھی ان اداروں کو قومی دھارے سے منحرف بتلایا جاتا ہے، کبھی ان کو دہشت گردوں کا اڈہ قرار دیا جاتا ہے، کبھی ان کو رجعت پسندی اور بنیاد پرستی کا طعنہ دیا جاتا ہے، کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے مدرسے غیرملکی سرمائے سے چل رہے ہیں، کبھی ان پر ملک دشمنی کے سنگین الزامات لگائے جاتے ہیں اور انہیں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث بتلایا جاتا ہے، سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی کے دور حکومت میں انٹلی جنس بیورو نے وزارت داخلہ کو ایک من گھڑت رپورٹ پیش کی تھی، جس میں ملک بھر کے مدارس، ان میں پڑھانے والے اساتذہ اور پڑھنے والے طلبہ کی تعداد بیان کی گئی ہے اور بتلایا گیا ہے کہ ان کے ذرائع آمدنی کیا ہیں، رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک کی گیارہ ریاستوں میں انتیس ہزار اٹہتر مدارس ہیں، ان میں کل سولہ ہزار نو سو پنتالیس اساتذہ اور سترہ لاکھ پندرہ ہزار چھبیس طلبہ زیر تعلیم ہیں، انٹلی جنس بیور ونے اپنی رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ ان مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے، وشو ہندو پریشد کے لیڈر پروین توگڑیا تو مدرسوں کے خلاف مسلسل زہر اگلتے رہتے ہیں، انھوں نے دار العلوم دیوبند کا نام لئے بغیر اس کی طرف صاف صاف اشارہ کرتے ہوئے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ آج تمام دنیا میں اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کے لئے سازش کرنے کا اور دہشت گردی کا ہیڈ کوارٹر دہلی سے دو سو کلو میٹر دور سہارن پور ضلع کے دیوبند میں واقع ہے، ملک میں ایک لاکھ مدرسوں کے ذریعے جہادی پیدا کرکے کافروں کو قتل کرنے کی تعلیم دی جارہی ہے۔ (راشٹریہ سہارا دہلی ۱۸/ اپریل ۲۰۰۲ء)۔
اس پورے معاملے کا دل چسپ پہلو یہ ہے کہ آج تک کوئی الزام عدالت میں یا عدالت سے باہر ثابت نہیں کیا جاسکا، نہ کسی مدرسے سے کوئی دہشت گرد گرفتار کیا گیا، نہ کسی مدرسے کا کوئی استاذ، طالب علم یا ملازم کسی وطن مخالف سرگرمی میں مصروف پایا گیا، نہ کسی مدرسے میں بم بنانے کی فیکٹری پکڑی گئی، سب جانتے ہیں کہ یہ مدارس اعلا اخلاقی قدروں کی تعلیم دیتے ہیں، یہاں دہشت گرد نہیں بل کہ انسان بنائے جاتے ہیں، جو لوگ رات دن مدرسوں کے خلاف بکواس کرتے ہیں، وہ خود بھی اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں، مگر انہیں مدارس سے دشمنی نہیں، ان کی دشمنی اسلام سے ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان مدرسوں سے سچے اور پکے مسلمان نکل رہے ہیں، اسلام ان مدرسوں کے ذریعے ہی شہر در شہر،گاؤں در گاؤں پھیل رہا ہے، یہ مسجدیں ان ہی مدرسوں سے آباد ہیں، اگر یہ مدرسے بند نہ کئے گئے تو ہندوستان کے تمام مسلمان مذہب کے رنگ میں رنگ جائیں گے، اور فرقہ پرستوں کو یہ گوارا نہیں ہے کہ اس ملک میں اسلام پھیلے، مسلمان اپنے مذہب میں پختہ ہوں، انہیں صرف نام کے مسلمانوں کی ضرورت ہے، جن کی پیشانی پر قشقہ اور سر پر چوٹی ہو، انہیں ایسے مسلمانوں سے سخت نفرت ہے جن کے پیشانیوں پر نور ایمان جگمگاتا ہو۔
مدرسوں کے خلاف مسلسل پروپیگنڈے سے عاجز آکر دار العلوم دیوبند نے فروری ۲۰۰۸ءمیں دہشت گردی کے خلاف ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد کی تھی، جس میں ہر رنگ اور ہر شکل کی دہشت گردی کی کھل کر مذمت کی گئی تھی، اور یہ اعلان کیا گیا تھا کہ جن لوگوں کو مدرسوں کے تعلق سے کوئی شک وشبہ ہے وہ مدرسوں میں آئیں، اور اپنی آنکھوں سے مدرسوں کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کریں، مدرسے کھلی کتاب کی طرح ہیں جسے ہر شخص پڑھ سکتا ہے، اتنا ہی نہیں دار العلوم دیوبند نے مئی ۲۰۰۸ءمیں دہشت گردی کے خلاف ایک فتوی بھی جاری کیاتھا، جس کی میڈیا کے ذریعے بڑے پیمانے پر تشہیر ہوئی، جمعیۃ علماء ہند نے پورے ملک میں اس فتوی کو بنیاد بنا کر بیس سے زیادہ بڑی کانفرنسیں منعقد کیں، ان تمام کوششوں کے باوجود فرقہ پرستوں کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی، اور اب اس میں وسیم رضوی اور عارف محمد خاں جیسے لوگوں کے نام بھی جڑ گئے ہیں، یہ افسوس کی بات ہے کہ خود مسلمان اپنے اداروں پر انگلی اٹھائیں، اور غیروں کو بولنے کا موقع دیں، وسیم رضوی کے متعلق تو ہم عرض کرچکے ہیں، عارف محمد خاں راجیوگاندھی کے دور میں وزیر رہے ہیں، انھوں نے شاہ بانو کیس میں راجیو گاندھی کے موقف پر احتجاج کرتے ہوئے وزارت سے استعفی دے دیا تھا، حال ہی میں انہوں نے مفتی یاسر ندیم الواجدی کی مشہور سرجیکل اسٹرائیک کی بائیسویں قسط میں ایک مذاکرے میں حصہ لیا ہے، وہ اگرچہ وسیم رضوی کی بات سے اتفاق نہیں کرتے، مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دار العلوم سمیت تمام مدرسوں میں جو نصاب پڑھایا جارہا ہے وہ دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے، طلبہ کو جہاد کی تعلیم دی جارہی ہے، مشرکین وکفار کو قتل کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے پہلے سے ایک نظریہ قائم کررکھا ہے اور وہ مدرسوں کی تمام تعلیمی سرگرمیوں کو اور اس میں پڑھائے جانے والے نصاب کو اسی نظریئے سے دیکھتے ہیں، ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ آنکھوں سے تعصب کی عینک اتار کر کچھ دن کے لئے دار العلوم جیسے مدرسوں کے ماحول میں آئیں اور وہاں رہ کر دیکھیں کہ طلبہ کو کیا پڑھایا جارہا ہے بل کہ خود بھی پڑھیں، علماء سے ملیں، بات چیت کریں، ہوسکتا ہے ان کے اشکالات دور ہوجائیں، اگرچہ اس کی توقع کم ہی ہے کہ وہ مدرسوں میں آئیں گے، اور وہاں کچھ وقت گزاریں گے، در اصل یہ وہ لوگ ہیں جو حقیر ترین سیاسی مفادات کے لئے اپنے مذہب اور اپنے ایمان کا سودا کرتے ہیں، وسیم رضوی تو خیر اپنی کرسی بچانے کی فکر میں اس حد تک گئے ہیں، عارف محمد خاں بھی کچھ کم نہیں ہیں، طلاق ثلاثہ پر حکومت کے بل سے خوش ہوکر وہ وزیر اعظم کو مبارکباد دینے دہلی پہنچ گئے، ہوسکتا ہے بیس کڑوڑ مسلمانوں کے جذبات واحساسات کے خلاف جاکر اور امن وسلامتی کے گہواروں- مدارس اسلامیہ -کے خلاف دل کی بھڑاس نکال کر و ہ بھی کوئی جاہ ومنصب اور کچھ عزت وشہرت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔
nadimulwajidi@gmail.com