احمد شھزاد قاسمی
مختلف فرقوں کے دیس میں سب کو مطمئن کر نے کے لئے جمہوریت اور سیکولرازم کا ڈھونگ رچا جاتا ہے اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ مذہب سے حکو مت کو کوئی واسطہ نہ ہوگا نہ کوئی مذہب حکومت میں دخیل ہوگا اور نہ حکومت کسی مذہب میں مداخلت کرے گی۔
15اگست 1947 کو جب اقتدار انگریزوں سے منتقل ہوکر ہندوستانیوں کی طرف آیا تو پاکستان کہلانے والے حصہ کا اقتدار وہاں کے اکثریتی فرقہ کے ہاتھ میں آیا اور ہندوستان کی زمامِ اقتدار یہاں کے اکثریتی فرقہ کے ہاتھ میں آئی ، بر سرِ اقتدار جماعت نے یہاں کی حکومت اکثریتی فرقہ کی طرف منسوب کرنے کی بجائے سیکولر رکھنا پسند کیا، لیکن حکومت کی یک گونہ امتیازی پالیسی اور اس کے عُمّال کے غیر منصفانہ رویہ نے بہت جلد یہ ثابت کردیا تھا کہ جمہوریت میں عملاً اقتدار اکثریت کے ہاتھ میں ہی ہوتا ہے اور سیکولر کے نام پر اکثریت کی ہی ریتی رواجوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔
تقسیم کے پیدا کردہ حالات، مسلسل مسلم کش فسادات، مسلمانوں کی اقتصادیات کو کچلنے کی ذہنیت اور متفرق واقعات نے مسلمانانِ ہند کے سامنے یہ بات سورج کی طرح روشن کر کے رکھ دی تھی کہ انہیں اپنے ہر مسئلہ کا حل اپنی فہم و دانش اور اپنی قوتِ بازو سے کر نا ہوگا، سیکولر اسٹیٹ میں اقلیت اور مظلوم طبقات کے لئے سب سے زیادہ سہارا ملک کے دستور کی نامذہبیت کا ہوتا ہے لیکن مسلمانانِ ہند کے سلسلے میں دستور کی نامذہبیت بھی ایک فریب ثابت ہوئی۔ آزادی کے ابتدائی سالوں میں ہی مسلم اقلیت کے ساتھ جو تعصبانہ رویہ اور غیر منصفانہ طرزِ عمل کیا گیا اس سے یہ بات بہت حد تک واضح ہو گئی تھی کہ ہم عملاً ایک ہندو اسٹیٹ میں جی رہے ہیں۔
آج کے دور میں جب سخت گیر ہندو تنظیموں کے ادنی کارکنان سے لے کر اعلی قیادت تک ہندو راشٹر کے لئے اتاؤلے ہوئے جارہے ہیں اور وہ ہر موقع پر یہاں تک کہ سرکری تقریبات کے آغاز و اختتام کو بھی ہندو ریتی رواج کے مطابق کرنا ضروری سمجھتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ ہندو تہذیب کے احیا کی یہ کوشش سنگھ کے پھلنے اور پھولنے کے بعد ہوئی ہے بلکہ کانگریس نے آزادی کے ابتدائی سالوں میں ہی ہندو تہذیب کو زندہ کر نے کے لئے سیکولرازم کا جنازہ نکال دیا تھا ہندو تہذیب کس طرح ہندوستانی تہذیب کے نام پر سرکاری تہذیب بن گئی تھی اس کا اندازہ “صدق جدید لکھنؤ ” کی ایک رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے ” صدق جدید لکھنؤ ” نے اپنی یکم مارچ 1957کی اشاعت میں لکھا ہے کہ ” یومِ جمہوریہ کی پر مسرت تقریب پر .… راشٹر پتی بھون کا ہر گوشہ اپنے اندر کشش کا سامان رکھتا تھا مگر خصوصیت کے ساتھ بڑے بڑے تیرتے ہوئے مصنوعی کنول کے پھول اور اس کے اندر سے برقی قمقمہ کی پھوٹتی ہوئی کرن اور خود بخود ان پھولوں کا کھلنا اور سمٹنا سب سے زیادہ جاذبِ نظر تھا مگر … ایک بات بری طرح محسوس ہوئی وہ یہ کہ جب یہ کنول کے مصنوعی پھول کھلتے تھے تو اس میں لکشمی دیوی کی مورتی نمودار ہوتی تھی ، حالانکہ اسی پھول سے آزاد ہندوستان کا نقشہ تاج محل کا نقشہ یا مہاتما گاندھی کی مورتی بھی آسانی سے نمودار ہو سکتی تھی” ۔
ہندو احیا پرستی کا یہ رجحان سرکری دائرہ سے باہر پبلک کاموں میں بھی دیکھنے میں آتاہے آئے دن بڑی بڑی ذمہ دار شخصیتیں خالص ہندوانہ رسوم و رواج کا مظاہرہ کرتی رہتی ہیں اور اس طریقہ سے ہندو تہذیب و تمدن کی احیائی کوششوں کو سرکاری اثرات سے مدد پہونچاتی رہتی ہیں، سنگھ اور اس کی معاون تنظیموں کے پھلنے پھولنے کے بعد اس طرزِ فکر کی لعنت میں مزید اضافہ ہوگیا 2014 کے بعد سے ہندو احیا پرستوں اور فرقہ پرست عناصر کا اثر و غلبہ ہر شعبۂ حیات میں بڑھتا جا رہا ہے۔ خفیہ ایجنسیاں، عدلیہ، پولیس، فوج، میڈیا، انتخابی کمیشن، کون سا ایسا شعبہ اور ادارہ ہے جس پر آر ایس ایس کی فکر اور فرقہ پرستی کا اثر نہیں ہے
یہاں اپنی جائز جگہوں پر مساجد کی تعمیر پر روک لگادی جاتی ہے، لیکن مندروں کی تعمیر ناجائز اور سرکاری اراضی حتی کہ پولیس چوکی میں بھی دھڑلے سے ہو رہی ہے، مسلمان اپنے گھر میں چھپا کر بھی گائے کی قربانی نہیں کر سکتا اس لئے کہ ہندو کے مذہبی احساسات اس کے روا دار نہیں ہے لیکن مسلمان اگر ہولی کے دنوں میں اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے تو اسے اپنی تمام تر ناگواریوں کے باوجود ہولی کی تمام گندگیاں اپنے اوپر اچھلوا لینی چاہئیے ورنہ خون میں نہانے کے لئے تیار رہنا چاہئیے، سرکاری ذرائع ابلاغ ریڈیو ٹی وی وغیرہ پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ایک فرقہ کا غلبہ ہے وزیر اعظم نریندر مودی کی تاج پوشی کے بعد اشوک سنگھل کا یہ کہنا کہ پہلی بار آٹھ سو سال کے بعد خود دار ہندوؤں کی حکومت بنی ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی پرتھوی راج چوہان کے بعد پہلے غیور اور خود دار ہندو وزیر اعظم ہیں۔ اشوک سنگھل کے اس جارحانہ بیان سے یہ بات صاف ہو گئی تھی کہ ہندو صرف وہ مانے اور کہے جائیں گے جو سنگھ اور وشو ہندو پریشد کی آئیڈیا لوجی سے وابستہ ہیں۔
نریندر مودی سرکار کی تشکیل کے بعد سے مسلسل ایسے کام کئے جارہے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سرکار مودی کی، ایجنڈا اور پروگرام سنگھ کے مقاصد کے مطابق چلائے جارہے ہیں ( سنگھ کی منزل ہندو راشٹر کا قیام ہے ) ۔ ملک میں تحریری طور سے نہیں تو کم از کم عملاً دو قسم کے قانون نافذ ہیں ایک مسلمان نام والے افراد کے لئے اور دوسرا ملک کی اکثریت کے لئے اس کے باوجود ہندوستان آئینی طور سے ایک سیکولر ملک ہے ہندو راشٹر نہیں آزادی کے بعد سے مسلم اقلیت کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اور سرکاری طور پہ ہندو تہذیب کے احیا کی جو مثالیں ہمارے سامنے ہیں، اسے دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ ہم ایک ہندو اسٹیٹ میں جی رہے ہیں اگر ایسا نہیں ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ سنگھ کے ہندو راشٹر میں اس سے مختلف کیا ہو گا؟۔





