ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ ندوی
ابھی چند دنوں قبل ” ٹائمس آف انڈیا “ نے ایک خبر شائع کی تھی، غالبا سال نو میں ہی 24 جنوری کی بات ہے۔ خبر مہاراشٹر کے ایک آر ٹی آئی کارکن کے حوالہ سے تھی جس نے صوبائی حکومت سے اس یہ مطالبہ کیا تھا کہ کتنے لوگوں نے 2016 کے اندر اپنا مذہب تبدیل کیا ہے اس کی تفصیل بہم پہونچائی جائے۔ جو اعداد و شمار پیش کئے گئے تھے اس کے مطابق زیادہ تر ہندو مت کے لوگوں نے اپنا دھرم چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب قبول کیا تھا۔ بیشتر نے مذہب اسلام کو ترجیح دیا جن کی تعداد 664 تھی (دو چار نمبر کا فرق ہو سکتا ہے)۔ اس سے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے ہندو احیائیت کے لئے شد و مد سے کام کرنے والی تحریکات کی تمام کوششوں کے باوجود ہندو دھرم بڑی تعداد کو مطمئن نہیں رکھ پاتا ہے اور لوگ تلاش حق میں کامیابی کے بعد اللہ کے دین کو قبول کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکتے ہیں جبکہ خطرات کی کمی نہیں ہے۔ یہ تو اس خبر کا بس ایک پہلو تھا۔
اسی خبر کا ایک دوسرا دل دوز پہلو یہ بھی تھا کہ دو سو سے زیادہ مسلمانوں نے بھی اللہ کے دین کو چھوڑ کر ہندو مت کو قبول کر لیا۔ اس ارتداد کی وجہ کیا تھی کوئی تفصیل اس خبر میں موجود نہیں تھی۔ اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، عشق و معاشقہ، فقر و فاقہ، ہندو اکثریت والے علاقوں میں کمزور مسلمانوں کا قیام و رہائش، فکر اسلامی سے مکمل لاعلمی، اسلام مخالف میڈیا کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہو جانا، جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر کیا گیا اقدام تاکہ شب و روز کی دھمکی سے بچ سکیں وغیرہ وغیرہ۔
وجہ جو بھی ہو لیکن ایک بات تو صاف ہے کہ نئی نسل ارتداد کا شکار کئی طریقوں سے ہو رہی ہے۔ صرف فتنہ قادیانیت ہی واحد فتنہ نہیں ہے۔ آج کل سوشل سائنسز اور مار کسی نظریہ حیات بھی خدا بیزاری اور فکری ارتداد کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اب سائنسی علوم میں خدا بیزاری کی قوت باقی نہیں رہ گئی ہے۔فلمی ستاروں کی چکاچوند کردینے والی زندگی اور ان زندگیوں کے پیچھے موجود کھوکھلے پن سے ناواقفیت بھی اس کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ لیکن سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ بچے جب اپنے والدین اور دیگر افراد خاندان کو اسلامی تعلیمات سے بے روک ٹوک پہلو تہی کرتے دیکھتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ اسلام بھی دیگر دیو مالائی تہذیب کی طرح کوئی طرز زندگی ہے جس پر قلب و قالب کے ساتھ گامزن ہو نا ضروری نہیں ہے۔ اللہ کی ذات اور قدرت سے واقف نہیں ہوتے۔ انبیاء کی حیثیت و حقیقت سے وہ ناواقف ہوتے ہیں، نبوی پیغام کی اہمیت سے ان کا دل و دماغ خالی ہوتا ہے۔ اللہ کے نزدیک حاضری اور آخرت کا تصور اتنا کمزور اور مدھم ہوتا ہے کہ بودے فیشن، کھوکھلے پر شور نعروں اور سطحی فلسفیانہ طرز استدلال کے سامنے بھی ان کا ایمان ان کو روک نہیں پاتا چہ جائیکہ جان و مال اور شہرت و ناموری کو قربان کرکے اپنے ایمان کی حفاظت وہ کر سکیں۔ رہی سہی کسر “انگلش میڈیم اسکول” کے جھنجھنے نے پوری کردی ہے۔ ایسے اسکولوں میں ہمارے بچے اپنی کم عمری میں جن افکار اور طرز حیات سے متاثر ہوتے ہیں وہ ان سے ایمان اور دعوت عمل کی ایک ایک رمق ان سے اس طرح نچوڑ لیتے ہیں جس طرح لوہے کی بے جان مشین گنے سے رس نکال کر ان کی سٹھی چھوڑ دیتی ہے۔ جہاں تک مدرسوں کا معاملہ ہے تو اقبال بہت پہلے وہاں سے رنجیدہ و غم ناک اٹھ آئے تھے۔ لیکن اس قحط سالی کے زمانے میں بھی مدارس اسلامیہ گرچہ ہمارے بچوں کو دنیا کی چمک دمک نہیں دے پاتے ہیں لیکن ان کے ایمان کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہیں۔ اور شاید اسی لئے رضوی جیسے زر خریدوں کے آنکھ میں کھٹکتے ہیں۔ میں مدارس میں بنیادی تبدیلیوں بڑا حامی ہوں لیکن وہ تبدیلیاں کیسی ہوں گی اس کا فیصلہ وہ کریں گے جنہوں نے اپنی پوری عمر اس میں لگادی ہے۔ اسلام دشمن عناصر کے دباؤ میں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ بہر کیف معاملہ بہت سنگین ہے۔ ہمیں اسکول، مدارس اور درون خانہ ہر جگہ اسلامی اسپرٹ کے ساتھ کام کرنا ہوگا تاکہ فتنہ ارتداد کو روکا جا سکے۔ کیونکہ جب اسلام کی عظمت و حقیقت فکر و عمل سے پیوستہ ہو جاتی ہیں تو مغرب و مشرق میں مسلمان جہاں بھی رہتا ہے اسلام کے پیغام سے سمجھوتہ نہیں کرتا۔ چین اور امریکہ و یورپ میں موجود مسلمانوں کی صعوبتیں اور ان میں ایسے حالات سے نبرد آزمائی کا موجود حوصلہ در اصل اسی تخم میں مضمر میں ہے جو مکتب و گھر کے اندر بہت کم عمر میں پڑ گئی تھی۔





