کیا اب حکومت کے لئے صرف یہ بیان دینا باقی رہ گیا ہے کہ ہندوستان کی سر زمین کو مسلمانوں کی ضرورت نہیں؟

٢٠١٩ کے بڑے کھیل کے پیش نظر مسلمانوں کی ہلاکت پر مرکز اور ریاستی حکومت کی مہر لگ گئی
مشرّف عالم ذوقی
مغربی اتر پردیش کے ضلع کاس گنج میں جو حادثہ ہوا ، اسے نظر انداز کرنا ہماری ایک بڑی بھول ہوگی، میں مسلسل اس بات کو دہراتا رہا ہوں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم محبِ وطن مسلمانوں کے عظیم کارناموں اور قربانیوں کو ایک دنیا کے سامنے رکھیں .کیونکہ فسطائی طاقتیں اب ہماری تاریخ اور تھذیب کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہیں، یوم جمہوریہ کی تقریب کو لے کر ایک خواب کاس گنج کے مسلمانوں نے دیکھا ، فیس بک پر تقریبات کے حوالے سے وطن پرست مسلمانوں نے ٢٦ جنوری سے پہلے ایک مہم چلائی کہ ملک پر جان نثار کرنے والے مسلمانوں کو اس لئے یاد کیا جائے کہ ان کی کہانیاں تاریخ کی قبر میں دفن کر دی گئی ہیں۔ یوم جمہوریہ کی تقریب کے موقع پر ہندو دہشت گرد تنظیموں کا حملہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصّہ ہے کہ مسلمانوں کی مثالی وطن پرستی کو خبر بننے سے روکا جائے، ترنگا ریلی کی جگہ غدار وطن بھگوا ترنگا لہراتے رہے، مسلمانوں کی وطن پرستی پر سوالیہ نشان لگانے والوں کو اب یہ بھی گوارا نہیں کہ مسلمان آزادی یا یومِ جمہوریہ کی تقریب میں حصّہ لے کر ان کے مشن کو ناکام بنائیں۔
منصوبے کی خونی کہانی شہید عبد الحمید تراہے پر لکھی گئی، وہی عبد الحمید جو 1965 کے بھارت اور پاک جنگ کے دوران ملک کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ اور انھیں ہندوستانی فوج کے اعلیٰ ترین اعزاز پرم ویر چکر بعد از مرگ دیا گیا۔ شہادت سے پہلے پرم ویر عبدالحمید نے اس وقت ” گن ماؤنٹیڈ جیپ ” سے ” پٹن ٹینک ” کو تباہ کر دیا تھا جو اس وقت ناقابل تصور سمجھا جاتا تھا۔ آنے والے وقت میں شہید عبد الحمید تراہے جیسی نشانیاں بھی ہندوستانی سر زمین سے مٹا دی جائیں گی، پھرآر ایس ایس کے ویروں کی تلاش شروع ہوگی، انگریزوں کے مخبر اور حمایتی ویر ساورکر جیسوں کی کہانیاں مکر و فریب اور جھوٹ کی سیاہی سے لکھی جاہیں گی۔
یہاں کچھ بھی ایسا نہیں ہے ،جسے بہت زیادہ سمجھنے یا غور کرنے کی ضرورت ہو .پہلے پدماوت کی اسکرپٹ فائنل ہوئی، سوشل ویب سائٹ پر بابر کی اولاد کے بعد مسلمان خلجی کی اولاد بھی کہے جانے لگے، یہ ایک خوفناک سیاسی ٹیم کی دور اندیشی تھی ، جس نے بڑے فلم میکر بھنسالی سے وہ کارنامہ بھی آخر کار کرا ہی لیا جس کی ٢٠١٩ کے انتخاب کو ضرورت ہے، پدماوت مسلم کردار کشی کا بد ترین نمونہ ہے، لیکن اب مرکزی حکومت پر یہ مصرعہ صادق آتا ہے ؏
وہی قتل بھی کرے ہے ، وہی لے ثواب الٹا
پوری اسکرپٹ مسلمانوں کے خلاف تھی لیکن نشانہ بنے مسلمان مرکزی وزیر گری راج سنگھ کا گستاخانہ بیان بھی آ گیا کہ ہمت ہے تو حضرت محمد صاحب پر فلم بنا کر دیکھو ، پدماوت آر ایس ایس کے نقطۂ نظر کو فروغ دینے والی فلم تھی، اس کے اثرات نے اکثریتی فرقہ کے دل میں اس شدت کو اور گہرا کر دیا کہ اب ہندوستان پوری طرح ہندو راشٹر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
پدماوت کے بعد کاس گنج میں ہونے والے حادثے نے رہی سہی کسر پوری کر دی، سازش ہندو بریگیڈیر کی رہی، بھگوا جلوس انہوں نے نکالا، نعرے انہوں نے لگایا ہے اور نعرے بھی ایسے جو ہندو دہشت پسندی کی کھل کر گواہی دے رہے تھے ، ” مسلمانوں کے دو ہی استھان پاکستان یا قبرستان “ غور کریں تو پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ ملک کے تیس کروڑ مسلمانوں کو قبرستان بھیجنے کی ہری جھنڈی دے دی گئی، کاس گنج کے پردے میں اصل بیان یہ تھا کہ اب مسلمانوں کے لئے اس ملک کے تمام راستے تنگ کیے جا چکے ہیں، تین دن تک فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے ، اب بھی ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کی دشمن پولیس اور انتظامیہ کو امن کا ماحول قایم کرنے کا فریضہ سونپا گیا ہے، ہاشم پورا ، ملیانہ، گجرات ، ایودھیا اور ملک کے مختلف حصّے میں ہونے والے فسادات میں پولیس اور انتظامیہ کے بد ترین مسلم مخالف کردار کا منظر نامہ ابھی بھی ذہن و دماغ سے حذف نہیں ہوا ہے۔
اس حادثے کے بعد میڈیا دہشت گردوں نے مسلم مخالفت میں اپنی اپنی دکانیں کھول لیں، آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی ملک میں اخبار اور ٹی وی کی خوفناک دنیا سے علیحدہ کیے جا چکے ہیں۔ اخبار بم برساتے ہیں ، نیوز چینلز سیدھے میزائیل داغ کر مسلمانوں کو موت کا نشانہ بناتے ہیں، میڈیا حکومت کی حمایتی پہلے بھی رہی ہے۔ لیکن اب میڈیا کی اشتعال انگیزی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ملک کا نوے فیصد میڈیا ہندو راشٹر کی بحالی کے لئے مسلمانوں کا قتل عام چاہتا ہے۔ آسٹریلیا میں جب ایک اخبار نے کچھ برس قبل مسلمانوں کے خلاف لکھا تو وہاں کے تمام اخبار مسلمانوں کی حمایت میں آ گئے، امریکہ میں یہی منظر نامہ ہے ، لیکن ہندوستانی منظر نامہ یہ ہے کہ آج ہونے والے تمام فسادات اور اشتعال انگیزیوں کے پیچھے اکیلا میڈیا ہے جو ہندو سیناؤں کو مسلسل ، مسلمانوں کو برباد کرنے کی ٹریننگ دے رہا ہے۔ سب کچھ کھلے عام ہو رہا ہے ، کیوں ہو رہا ہے ؟ کس کے اشارے پر ہو رہا ہے ؟ یہ ملک کہاں جا رہا ہے ؟ کیا تیس کروڑ مسلمانوں کی ہلاکت آسان ہے ؟ آسان ہے تبھی تو آر ایس ایس لیڈر راکیش سنہا نیوز ٢٤ چینل پر یہاں تک کہ گئے کہ پندرہ سیکنڈ میں مسلمان ختم کئے جا سکتے ہیں؛ کیسے ؟ وہ یہ بتانا بھول گئے۔ شمالی کوریا کا سر براہ جانتا ہے کہ اس نے امریکا کے خلاف ہائیڈروجن بم استعمال کیا تو اس کا ملک بھی ختم ہوگا، تیس کروڑ آبادی کو ختم کرنے کی پالیسی کے بارے میں حکومت یا آر ایس ایس کو بتانا چاہیے۔ غور کیجئے کہ یہ بیان اس وقت کیوں آیا جب ٢٠١٩ کے انتخاب کو کچھ زیادہ مہینے نہیں رہ گئے ، پدماوت کے بعد کاس گنج اور آر ایس ایس لیڈر کے بیان نے سارا منظر نامہ صاف کر دیا ہے … ایک ہم ہیں جو بند کمرے میں ادب ، شاعری پڑھتے ہوئے عیش و عشرت کی زندگی میں مصروف ہیں .. اس تیزی سے بڑھتی ہی آگ سے انجان جو ہمارے گھروں کا رخ کر چکی ہے۔
کانگریس یا دیگر سیاسی پارٹیوں سے یہ امید اٹھا لیجئے کہ وہ کھل کر مسلمانوں کی حمایت میں سامنے ائٓیں گی، لیکن اس وقت ملک کے صفحہ پر مسلمانوں کے خون سے جو کہانی لکھی جا رہی ہے، اسے روکنا ہوگا، اشتعال انگیز بیانات اور روز روز ہونے والی ہلاکت کے قصّوں کو ختم کرنا ہوگا .لیکن کیا یہ آسان ہے ؟ — آپ ڈریں گے تو حکومت ڈرائیں گی ۔ آپ جس دن ڈرنا چھوڑ دیں گے، اس دن سے حکومت ڈرنے لگیگی — نفسیات کا یہ معمولی نکتہ ہے کہ ہر ہٹلر اندر سے کمزور ہوتا ہے، وہ مجمع میں دھاڑتا ہے، سچ بولنے والے ایک معمولی سے آدمی سے بھی وہ ڈر جاتا ہے۔ اگر فرقہ وارانہ فسادات بی جے پی کے انتخابات میں کامیاب ہونے کی واحد کلید ہے تو پھر کاس گنج کے حادثے کے بعد اگلے ایپیسوڈ کا انتظار کیجئے۔
میڈیا ، ٹی وی چنیلس اور حکومت نے مسلمانوں کو دوسرے بلکہ تیسرے درجے کی مخلوق گرداننا شروع کر دیا ہے۔ ایک ایسی مخلوق جسے بس اس سر زمین سے باہر نکالنا باقی رہ گیا ہے۔ آنکھیں بدل گئی ہیں، کچھ دن اسی طرح گزرے تو مسلمان اس ملک میں نمائش کی چیز بن کر رہ جائیں گے دیکھو ، وہ جا رہا ہے مسلمان ..
یہ ہونے جا رہا ہے، سوالات کے رخ خطرناک طور پر مسلمانوں کے لئے مایوسی کی فضا تیار کر رہے ہیں … یہی حال رہا تو ہندوستان کا ہر شہر کاس گنج بن جائے گا، مسلم جماعتیں خاموش رہیں گی … ہندوستان کی مقدّس سر زمین نفرت کی متحمل نہیں ہو سکتی … اور آر ایس ایس اپنے نظریہ میں تبدیلی لائے ، یہ ممکن نہیں …
حل نہیں ہے، زندہ رہنے کے اسباب آپ کو تلاش کرنے ہوں گے۔