نئی دہلی: 8؍فروری (ملت ٹائمز؍پریس ریلیز)
پارلیمنٹ کی عظمت اور اس کے وقار کا تقاضا یہ ہے کہ وہاں حکومت کے ذریعہ جو کام انجام دیا جاتا ہے ، جو منصوبے تیا رکئے جاتے ہیں اور جو عملی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اس پر عوام کو جائزہ لینے کاحق حاصل ہو ، حزب اقتدار کے علاوہ ممبران پارلیمنٹ سماج کے حق میں اس کے اچھے برے ہونے کا فیصلہ کرسکتے ہوں؛ انہیں تجزیہ کرنے کی اجازت حاصل ہو۔ ان خیالات کا اظہار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم نے کیا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپوزیشن کی ذمہ داری عوام کے احساسات و جذبات سے حکمران وقت کو آگاہ کرنا ہے ، کسی بھی حکومت میں اپوزیشن کی اہمیت اسی لئے ہوتی ہے کہ وہاں حزب اختلاف کے ذریعہ عوام کے مسائل کی درست ترجمانی کی جاتی ہے ۔جمہوریت اور آمریت میں یہی فرق ہے کہ جمہوریت میں ارباب اقتدار کے علاوہ کو بھی اپنی بات رکھنے کا اختیار ہوتا ہے جبکہ آمریت میں اپویشن اور حزب اختلاف کا کوئی تصور نہیں ہوتا ہے، جو فیصلہ ہوگیا وہ پتھر کی لکیر ہے ۔
یہ بات افسوسناک ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے ہندوستان کے پارلیمانی نظام میں جو کچھ ہورہاہے وہ صحت مند نہیں ہے۔ عوام کی جانب سے بھی پارلیمانی نظام پر مسلسل سوالات اٹھائے جارہے ہیں،لوگوں میں تشویش کا ماحول ہے جو بہر حال درست نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ میڈیا کے ذریعہ ان چیزوں کو نہیں دکھایا جاتا ہے ۔
ڈاکٹر محمد عالم نے مزید کہاکہ پارلیمانی نظام جملے بازی اور ڈھونس جمانے سے نہیں چلتاہے بلکہ اعتماد پیدا کرنا اور عوام کا خیال رکھنا ضروری ہوتاہے۔ اسٹیک ہولڈر اور صاحب مسئلہ سے بھی بات کرنی ضرورتی ہے۔ جس کمیونٹی کے بارے میں قانون بنایا جاتا ہے اس کے لوگوں کی رائے لینی بھی ضروری ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے مسائل بتاسکیں اور بہتر شکل میں قانون بن سکے ۔ ڈاکٹر محمد منظور عالم نے یہ بھی کہاکہ جب پارلیمنٹ میں کسی بل پر ممبران کی اچھی خاصی تعداد تشویش کا اظہار کرتی ہے تو اسے سلیکٹ کمیٹی میں بھیجا جاتا ہے تاکہ تمام اعتراضات اور تشویش کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک جامع قانون مرتب ہوسکے اور کسی کمیونٹی کو یہ احساس نہ ہوکہ ان کی آواز دبائی جارہی ہے ۔
ڈاکٹر محمد منظور عالم نے زور دیتے ہوئے کہاکہ حکومت بالخصوص وزیر اعظم صاحب کو ا س جانب توجہ دینی چاہیئے۔ طلاق بل کے سلسلے میں حکومت نے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے وہ دستوری نظام اور آئین کی روح کے خلاف ہے ۔ملک کی بھائی چارگی اور پیار و محبت کیلئے بھی یہ غیر مناسب ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ وزیر اعظم صاحب طلاق بل کو سلیکٹ کمیٹی میں بھیجیں اور جو اعتراضات کئے جارہے ہیں اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک جامع اور متواز ن قانون بنایا جائے ۔





