پٹنہ : (ملت ٹائمز) ملک کے معروف عالم دین ، ندوۃ العلماء کے سینئر استاذ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن عاملہ کی آرٹ آف لیونگ کے بانی شری شری روی شنکر سے ملاقات پر ہندوستانی مسلمانوں میں سخت تشویش پائی جارہی ہے اور ملک کے مختلف حصوں سے علمائے کرام ، سماجی شخصیات اور دانشوروں کی جانب سے سخت رد عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ اسی تعلق سے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے دار العلوم الاسلامیہ رضا نگر گون پورہ کے سکریٹری و امارت شرعیہ کے نائب ناظم مولانا سہیل احمد ندوی نے کہا کہ مولانا سلمان حسینی ندوی کی اس ملاقات میں حکومت کے ساتھ کسی بڑی سودے بازی کی بو آرہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ مولانا کا یہ طرز عمل انتہائی نا مناسب ہے ، تعجب ہے کہ اتنے موقر اداروں سے وابستہ ہونے کے باوجود انہوں نے اتنی گھٹیا حرکت کیسے کی ۔ اگر ان کے ذہن میں کوئی تجویز تھی تو انکو سب سے پہلے اسے بورڈ کے ذمہ داروں کے سامنے رکھنا چاہئے تھا، جو لوگ بابری مسجدکے مقدمہ میں مسلمانوں کی جانب سے فریق ہیں ان کے سامنے پیش کر نا چاہئے تھا ،کم از کم اپنے خاص رشتے دار اور بورڈ کے صدر حضرت مولانا رابع حسنی صاحب سے ہی مشورہ کرنا چاہئے تھا ، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ان کو یہ حق کس نے دے دیا کہ وہ شر ی شر ی روی شنکر یا کسی کے ساتھ بھی مسجد کے معاملہ میں کوئی سودے بازی یا مفاہمت کی بات کریں ۔
واضح ہو کہ سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر ایک ویڈیو وایرل ہوا ہے ، جس میں مولانا سلمان حسینی صاحب آرٹ آف لیونگ کے بانی شری شری روی شنکر کے ساتھ بابری مسجد کے معاملہ پر گفتگو کر رہے ہیں ، یہ میٹنگ بنگلور میں ہوئی ہے ، اس میٹنگ میں مولانا سلمان حسینی کے ساتھ ساتھ اتر پردیش سنی وقف بورڈ کے چیر مین ظفر احمد فاروقی ، عیسیٰ منصوری لندن، مولانا واصف حسن ، سابق آئی ایس افسر ڈاکٹر انیس انصاری کے علاوہ کئی دیگر لوگ شریک ہوئے ۔اس میٹنگ میں مولانا سلمان حسینی نے کورٹ کے باہر بابری مسجد کے مقدمہ کو حل کرنے کی بات کہی اور مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ مسجد کے اس حصہ کو جس کے رام جنم بھومی ہونے کا دعویٰ ہندو کر رہے ہیں ہندوؤں کے حوالہ کر دیں ، اور اس سے ہٹ کر زمین کے دوسرے حصہ پر مسجد بنا لیں ، اس کے لیے انہوں نے فقہ حنبلی کا حوالہ دیا کہ فقہ حنبلی کے مطابق مسجد کو منتقل کرنے کی گنجائش ہے ۔
مولانا سہیل احمد ندوی نے مولانا کی اس گفتگو اور اس میٹنگ کے حوالہ سے شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ مولانا نے ملک کے بیس کروڑ مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے ، مسجد کا تعلق مسلمانوں کے ایمان و عقیدے سے ہے اور ایک مسلمان کسی بھی صورت میں مسجد سے دست بردار نہیں ہو سکتا ہے۔ مولانا سلمان حسینی صاحب نہ تو اس مقدمہ میں فریق ہیں اور نہ ہی ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمانوں کے نمائندے ہیں ۔ پھرآخر کس حیثیت سے انہوں نے مسجد کو حوالہ کردینے کی بات کہی ۔مولانا کی باتیں سن کر مجھے بہت ہی افسوس ہوا اور تعجب بھی ہوا کہ ان کہ جیسا سمجھ دار آدمی کیا اتنا بھی نہیں سمجھ سکتا کہ جب آئین میں دیے گئے تحفظات کے با وجود مسجد شہید کرد ی جاتی ہے تو کیا صرف سلمان صاحب سے معاہد ہ کر لینے بھر سے مسجدوں اور عبادت گاہوں کی حفاظت یقینی ہو جائے گی ؟ کیا مولانا سلمان صاحب خوابوں کی دنیا میں جی رہے ہیں ۔ ہندستان کے مسلمان ہمیشہ سے سپریم کورٹ کا احترام کرتے آئے ہیں اور مسلم پرسنل لا بورڈ کا واضح موقف ہے کہ اس معاملہ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ مانیں گے ،لیکن سلمان صاحب نے شری شری کے ساتھ ہوئی اپنی گفتگو میں کورٹ کی صلاحیت پر سوال کھڑا کیا اور کہا کہ کورٹ اس مقدمہ کا فیصلہ نہیں کر سکتی ہے ، یہ سراسر سپریم کورٹ کی توہین ہے ۔انہوں نے حضرت مولانا علی میاں کے نام کو بھی استعمال کیا ہے ، او ر مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ سے اپنے رشتہ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمانوں کا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ، یقینا اس سے مولانا علی میاں کی روح کو شدید تکلیف پہونچی ہوگی ، مولانا سلمان صاحب ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچےں کہ اگر علی میاں زندہ ہوتے تو کیا ان کا یہ اقدام ان کے لیے خوشی کا باعث ہوتا یا شرمندگی کا؟ مولانا کی اس پوری میٹنگ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی خفیہ ڈیل کر رہے ہیں،اور حکومت کی تعریف میں رطب اللسان ہیں ، یہاں تک کہ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی دشمن حکومت کے سربراہ کو خلیفۃ المسلمین سے تشبیہ دے دی !
چہ نسبت خاک را با عالم پاک
کجا عیسیٰ کجا دجال ناپاک
یہ تو ایسی بات ہے کہ کسی مسلمان کے لیے قابل برداشت نہیں ہے ۔اس لیے ہم بورڈ کے تمام ذمہ داروں سے اپیل کرتے ہیں کہ ان کو جلد از جلد بورڈ کی رکنیت سے الگ کیا جائے ، ساتھ ہی تمام مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ مولانا سلمان حسینی کا سماجی بائکاٹ کریں ، ندوۃ العلماء سے بھی ہمارا مطالبہ ہے کہ ان کو تمام تر تعلیمی و انتظامی سرگرمیوں سے الگ کر دیا جائے۔





