مسلم پرسنل لا بورڈ اور مولانا سلمان ندوی

مولانا ندیم الواجدی
اختلاف رائے ہماری معاشرتی اور اجتماعی زندگی کا لازمی حصہ ہے، وہ قومیں فکری اعتبار سے بے حس کہی جائیں گی جو اپنے افکار ونظریات میں تنوع نہ رکھتی ہوں، اختلاف رائے کے ساتھ ساتھ وسیع النظری بھی ہونی چاہئے، یہ ضروری نہیں ہے کہ جو کچھ ہم کہتے ہوں وہی صحیح ہو ارو جو ہم سوچتے ہوں و ہی درست ہو، دوسرے لوگ بھی صحیح سوچ سکتے ہیں اور صحیح کہہ سکتے ہیں، ہوسکتا ہے ہمارے اور دوسروں کے نظریات میں ٹکراؤ ہو، یہ بھی ممکن ہے ہمارے نظریات زیادہ صحیح ہوں، اور دوسروں کے غلط ہوں، لیکن کسی کی اس بنا پر تحقیر کرنا کہ اس کا نظریہ ہمارے نظریئے سے مختلف ہے یااس کا نقطۂ نظر غلط ہے؛ کسی بھی طورپر مناسب نہیں کہا جاسکتا، بابری مسجد کے سلسلے میں مولانا سلمان ندوی نے ایک تجویز رکھی ہے، بلا شبہ ان کی تجویز کسی بھی طرح صحیح نہیں کہی جاسکتی، خاص طورپر ایسے وقت میں کہ بابری مسجد کی حق ملکیت کا معاملہ عدالت میں زیر غور ہے، اور عدالت نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اس معاملے پر تیزی کے ساتھ شنوائی کرے گی، اس سے مسلمانوں کو یہ امید ہوچلی ہے کہ عدالت سے بہت جلد فیصلہ آئے گا اور کیوں کہ مسلمانوں کا دعویٰ مضبوط بنیادوں پر استوار ہے اس لیے یہ بھی امید ہے کہ آنے والا فیصلہ ان کے حق میں ہوگا، اس صورت حال میں ان کی یہ تجویز کہ کچھ شرائط کے ساتھ مسجد کی جگہ ہندؤں کے سپرد کردی جائے تاکہ وہ اس پر مندر تعمیر کرلیں کسی بھی حیثیت سے قابل قبول نہیں ہوسکتی، لیکن ایسی تجویز پیش کرنے پر ان کو مطعون کرنا اور ان کی حیثیت عرفی کو مجروح کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے، جب سے انھوں نے یہ تجویز رکھی ہے سوشل میڈیا میں ان کے خلاف نا مناسب تبصروں کا زبردست طوفان برپا ہے، وہ ایک عالم دین ہیں، مفسر قرآن بھی ہیں، صاحب قلم بھی ہیں، خطیب بھی ہیں، عالم اسلام کی ممتاز دانش گاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے صف اول کے اساتذہ میں ان کا شمار ہوتاہے، وہ ایک بڑے علمی خاندان کے چشم وچراغ بھی ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ سادات میں سے ہیں، ان پر نازیبا تبصرے کرنے والے اگر ان کی تمام صلاحیتوں اور حیثیتوں سے صرف نظر کررہے ہیں تو کریں مگر کم از کم ان کی ذات کا یہ پہلو تو نظر انداز نہ کریں کہ وہ حسنیی سید ہیں، ان کا ایک نظریہ ہے، بلا شبہ ان کا نظریہ ہندوستانی مسلمانوں کے اجتماعی نظریئے کے خلاف ہے، مگر اس طرح کا نظریہ رکھ کرخدا نخواستہ وہ دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہوگئے، ملحد اور زندیق تو نہیں بن گئے، ہیں تو مسلمان ہی اور کسی مسلمان کی اہانت کرنا اس کی نیت پر شبہ کرنا اور اس کے اخلاص پر نشانہ سادھنا کیسا ہے؟ اس سوال پروہ لوگ سوچیں جو ایسا کررہے ہیں اور وہ بھی غور وفکرکریں جو یہ تبصرے پڑھ کر ایک عالم دین کی جگ ہنسائی اور رسوائی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
جہاں تک میری رائے ہے اس پورے معاملے پر غیر جانب داری کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے، مولانا ندوی کے بیان اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے حالیہ اجتماع میں اس کے رد عمل کا اعتدال وتوازن کے ساتھ جائزہ لینے کے بعد ہی ہم اس انتشار کو جو ہماری صفوں میں برپا ہوا ہے کم کرسکتے ہیں، سب سے پہلے تو ہم مولانا ندوی کے بیان اور ان کی سرگرمیوں پر نظر ڈالتے ہیں، ۷/ فروری ۲۰۱۸ء کومولانا سلمان ندوی کا ایک انٹرویو وائرل ہوا ہے جو انھوں نے ای ٹی وی اُردو کو بھٹکل میںدیا تھا، اس انٹرویو میں انھوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کچھ شرائط کے ساتھ بابری مسجد کی اراضی ہندو فریق کو رام مندر تعمیر کرنے کے لیے دیدیں، یہ مشورہ دے کر وہ اگلے روز بنگلور پہنچنے اور شری شری روی شنکر سے ملاقات کی، اس ملاقات میں جو گفتگو مولانا ندوی نے روی شنکر سے کی اس کی تفصیلات بھی اخبارات میں آچکی ہیں، ملاقات کے دوران مولانا نے یہ فارمولہ پیش کیا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ متنازع مقام پر ہندو رام مندر بنالیں، بلکہ وہ بنا ہوا ہے مزید جس طرح چاہیں بناسکتے ہیں، یہ مسجد ویران تھی یہاں نماز نہیں ہورہی تھی، ہم مسجد اس محلے میں بنائیں گے جہاں مسلم آبادی ہے‘‘انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ایک معاہدہ نامہ تیار ہونا چاہئے جس میں وضاحت ہو کہ آئندہ کسی مسجد مدرسے اور درگاہ پر قبضہ نہیں کیا جائے گا، قصور واروں (مسجد شہید کرنے والوںکو )سزادی جائے گی۔ (۱) بابری مسجد کی اراضی کے عوض زیادہ بڑی اراضی مسلمانوں کو دی جائے جس پر وہ مسجد الاسلام اور اسلامی یونی ورسٹی قائم کریں گے‘‘ مولانا ندوی کی یہ رائے نئی نہیں ہے، اس سے پہلے بھی وہ مارچ ۲۰۱۷ء میں اس طرح کے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں، اپنی تجویز کے حق میں مولانا کہتے ہیں کہ فقہ حنبلی میں ضرورت کے پیش نظر مسجد کی جگہ تبدیل کی جاسکتی ہے اور اس سے بڑھ کر ضرورت کیا ہوگی۔ (۲) پچیس سال سے وہاں مسجد نہیں ہے بلکہ مندر ہے جس میں پوجا پاٹ ہورہی ہے، (۳) عدالت نے اگر ہمارے حق میں فیصلہ دے بھی دیا ہم وہاں مسجد نہیں بناپائیں گے، ایسی مسجد سے زیادہ مسلمان کی جان قیمتی ہے جسے ہندو مسلم اتحاد کے ذریعے محفوظ رکھا جاسکتا ہے اور ہندو مسلم اتحاد کا بہترین راستہ یہ ہے کہ مسجد کی جگہ ان کے حوالے کردی جائے‘‘۔
جہاں تک بابری مسجد کی زمین پر رام مندر کی تعمیر کا معاملہ ہے یہ نظریہ کوئی نیا نظریہ نہیں ہے، بہت سے لوگ جن میں مسلمان بھی ہیں اس طرح کے خیالات ونظریات کا اظہار کرچکے ہیں، مولانا سلمان ندوی کے دعوے کے مطابق حضرت مولانا علی میاں ندویؒ جو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر بھی تھے یہ چاہتے تھے کہ بابری مسجد کی زمین پر رام مندر بننے دیا جائے، اس طرح بابری مسجد محفوظ رہ سکتی ہے، لیکن ان کی بات کسی نے نہیں سنی، بلکہ انھیں یہ رائے رکھنے پر مطعون بھی کیا گیا، بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے شدت پسندوں نے مولانا کی اس تجویز پر غور کرنا بھی گوارہ نہیں کیا، مولانا سلمان ندوی کہتے ہیں کہ اگر حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی بات مان لی گئی ہوتی تو آج حالات دوسرے ہوتے، اس سلسلے کی تمام تفصیلات مولانا علی میاں ندویؒ کی خود نوشت سوانح ’’کاروان زندگی‘‘ کی جلد دوم میں موجود ہیں، یہ تو مولانا علی میاں ندویؒ کی رائے تھی جو بابری مسجد کو بچانے کے لیے بابری مسجد سے متصل وقف اراضی ہندؤں کو دینے کے حامی تھے، مولانا کلب صادق نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ تو خاص بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے حق میں ہیں، وہ حیدر آباد کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے لیکن انھیں تاریخوں میں انھوں نے جہاں گیر آباد، اور بارہ بنکی کے جلسوں میں کھلے عام یہ بات کہی کہ وہاں ضرور مندر بنے، مندر نہ بنے تو ودیا مندر بنے، اس سے پہلے بھی کئی بار وہ یہ رائے ظاہر کرچکے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر یا مسجد کے علاوہ کوئی دوسری عمارت بنانے کی بات کرنا کوئی قابل اعتراض بات نہیںہے، ورنہ مولانا کلب صادق کے بیان پر بھی سخت موقف اختیار کیا جاتا، رہی یہ بات کہ مولانا سلمان صاحب شری شری روی شنکر سے ملے ہیں، اس سلسلے میں بھی یہ کہا جارہاہے کہ بابری مسجد کے ایشو پر شری شری روی شنکر سے ملنے والے مولانا سلمان ہی نہیں ہیں بلکہ بورڈ کے کچھ اور ممبران نے بھی ان سے خفیہ ملاقاتیں کی ہیں، جن میں سے بعض ملاقاتوں کا راز کھل بھی چکا ہے، خود روی شنکر بھی یہ مانتے ہیں کہ ان سے اس سلسلے میں کچھ اور ممبران بھی ملے ہیں، بورڈ کی میٹنگ میں ایسے لوگوں کے خلاف بھی کچھ نہیں ہوا، اس سے معلوم ہوا کہ ملاقات پر بھی بورڈ کو کوئی اعتراض نہیں ہے، ورنہ مولانا ندوی کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی بورڈ کے نشانے پر ضرور آتے۔
ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ پہلے سے طے کئے بیٹھے تھے کہ ورکنگ کمیٹی میں مولانا سلمان ندوی کے خلاف ہنگامہ آرائی کی جائے گی، ان سے باز پرس کی جائے گی، اور جب وہ اپنی بات کہنے کے لیے کھڑے ہوں گے تو ان کو بولنے نہیں دیا جائے گا، بنگلور سے حیدر آباد کے لیے روانہ ہونے سے قبل مولانا اپنی رائے کو لے کر بہت پرجوش تھے اور وہ یہ عزم رکھتے تھے کہ ورکنگ کمیٹی میں وہ اپنی تجویز پیش کریں گے، اور ممبران کو بتلائیں گے کہ شری شری روی شنکر سے ان کی کیا بات چیت ہوئی ہے، حالاں کہ بورڈ کے ایک ذمہ دار کی طرف سے کہا جاچکا تھا کہ مولانا سلمان ندوی کے خلاف کاروائی کی جائے گی جب کہ اس وقت تک بورڈ میں انھوں نے اپنا موقف پیش بھی نہیں کیا تھا، اس کے باوجود مولانا سلمان ندوی نے ورکنگ کمیٹی میں شرکت کی، اور جب وہ بولنے کھڑے ہوئے تو ان کے خلاف غیر شائستگی کا مظاہرہ کیا گیا، اکابر خاموش رہے، صرف مولانا محمود مدنی نے یہ کہا کہ مولانا ندوی کو اپنی بات رکھنے کا موقع دیا جائے جو نہیں دیا گیا، اس ناروا سلوک سے مولانا کا مایوس اور مشتعل ہونا فطری تھا، باہر نکلتے ہی مولانا ٹی وی والوں کے ہتھے چڑھ گئے جو ایسے ہی کسی موقع کے منتظر تھے، اس کے بعد جو انھوں نے کہا وہ سب نے سنا، جن لوگوں نے مولانا ندوی کے ساتھ بدتمیزی کا مظاہرہ کیا تھا مولانا نے انھیں ہی برا بھلا نہیں کہا بلکہ انھوں نے مولانا سجاد نعمانی کو بھی نشانہ بنایا، ان کی تقریروں کا حوالہ دے کر انھیں ملت اور حکومت دونوں کی نظروں میں مشکوک بنانے کی کوشش کی انھوں نے مسلم پرسنل لا بورڈ پر بھی انگلی اٹھائی جس کے ساتھ وہ پینتس برس سے وابستہ تھے، مولانا نے اس انٹرویو میں جو کچھ پرسنل لا بورڈ اور مولانا سجاد نعمانی کے متعلق کہا کسی بھی طرح اس کی تائید نہیں کی جاسکتی، مولانا کے اس نظرئے کی تائید بھی نہیں کی جاسکتی کہ بابری مسجد کی جگہ فریق مخالف کو دیدی جائے، مولانا نے فقہ حنبلی کا حوالہ دیا ہے، جسے علماء مرجوح لکھ رہے ہیں، لیکن اگر اسے راجح بھی مان لیا جائے تو اسے بابری مسجد پر منطبق نہیں کیا جاسکتا، اس طرح کی رائے کہ ضرورت کے وقت مسجد منتقل کی جاسکتی ہے فقہ حنفی میں بھی ملتی ہے دیکھئے۔ (فتاویٰ شامی:۶/ ۴۲۷)
مگر بابری مسجد کی نوعیت دوسری ہے، پہلے تو اس میں رات کے اندھیرے میں بت رکھے گئے، پھر اس پر تالا ڈال دیا گیا، پھر اس کا تالا کھول کر ہندؤں کو رام للّا کا درشن کرنے اور مورتی پوجا کرنے کی اجازت دے دی گئی ،اس کے بعد اس کو شہید کرنے کی سازشیں رچی گئیں، اور بالآخر ۶/ دسمبر ۱۹۹۲ء کو اسے شہید کردیا گیا، یہ وہ مسجد نہیںہے جو ویران ہوگئی تھی، یا جس میں نماز نہیں پڑھی جارہی تھی، مسلمانوں کے پاس حق ملکیت کے سارے ثبوت موجود ہیں عدالت میں بحث چل رہی ہے، ہمیں پوری امید ہے کہ فیصلہ ہمارے حق میں آئے گا، اس موقع پر بابری مسجد سے دست برداری پچیس کڑوڑ مسلمانوں کی شکست ہی نہیںہوگی بلکہ اس سے ہم عدالت میں جیت کر سرخ رو ہونے کا موقع بھی گنوادیں گے، شاید ہی کوئی غیور اور خودار مسلمان اس کے حق میں ہوکہ بابری مسجد ہندؤں کو دیدی جائے، اسی لیے علماء امت کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ بابری مسجد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا، اس فیصلے پر مولانا ندوی کے دستخط بھی موجود ہیں، ہم یہ مانتے ہیں کہ رائے کی اس تبدیلی میں ان کے جذبۂ اخلاص کا بڑا دخل ہے، ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ اُن جیسا باوقار عالم دین جو حضرت حسینؓ جیسے حق گو اور بے باک اور نڈر شخصیت سے نسبی تعلق رکھنے والا انسان کسی لالچ یا خوف سے رائے بدلنے والا نہیں ہے، یہ ان کی رائے ہے اور وہ اس میں غلطی پر ہیں، ان کی یہ غلطی درست ہوسکتی تھی اگر ان کو توجہ کے ساتھ سنا گیا ہوتا اور ان کے دلائل کا سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا گیا ہوتا، کچھ لوگ ہیں جنھوں نے ان کو شدت کے راستے پر ڈالا ہے، بورڈ کو ان کے خلاف بھی تو کاروائی کرنی چاہئے، مسلم پرسنل لا بورڈ کے جلسۂ عام میں جس طرح اسد الدین اویسی صاحب نے ایک عالم دین کا مذاق اڑایا اس کی بھی مذمت ہونی چاہئے،جس طرح مولانا ندوی کی مذمت ہورہی ہے ،ان کی تقریر سے مسلم پرسنل لا بورڈ کا وقار مجروح ہوا ہے، مولانا ندوی نے ان کو شدت پسند کہا تھا وہ بھی انھیں مشتعل مزاج کہہ دیتے کافی تھا، انھوں نے مودی کے اشارے پر ناچنے والا، بغدادی کا ہم نوا،شیطان کا ایجنٹ تک کہہ کر ’’میزبانی‘‘ کی حد ہی کردی۔اویسی صاحب نے لاکھوں حاضرین سے اپیل کی کہ وہ سلمان ندوی صاحب کا سوشل بائیکاٹ کریں، اجلاس عام میں بورڈ کی تمام ذمہ دارشخصیتیں موجود تھیں، ان کی موجودگی میں سماجی بائیکاٹ کی اس اپیل کو کیا معنی پہنائے جائیں گے، اور کیا اس کو صحیح سمت میں ایک درست قدم کہا جائے گا؟
اس سلسلے میں سب سے متوازن اور نپی تلی رائے مولانا ارشدمدنی کی ہے، جنھوں نے یہ فرمایا ہے کہ مولانا سلمان ندوی بورڈ کے پرانے ممبر ہیں، بورڈ کے اسٹیج سے ان کی تقریریں پسندکی جاتی رہی ہیں، اگر وہ اپنی رائے واپس لے لیتے ہیں تو بورڈ میں ان کوواپس لیا جانا چاہئے، ہم مولانا ارشد مدنی کی اس رائے کی بھرپور تائید کرتے ہیں ، اور ساتھ ہی اپنی اس رائے کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ مولانا ندوی سے رابطہ کیا جائے، اُن کا غصہ ٹھنڈا کیا جائے اور انھیں بوڈ کے ساتھ آنے کے لیے راضی کیا جائے، خوش قسمتی سے اس وقت بورڈ کو مولانا ولی رحمانی جیسے جہاں دیدہ اور با بصیرت شخصیت کی قیادت میسر ہے، کئی مرحلے ایسے آئے ہیں جہاں انھوں نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیاہے، یہ موقع بھی ایسا ہی ہے، مجھے امید ہے اگر وہ چاہیں گے تو مولانا ندوی ایک بار پھر بورڈ میں شامل ہوکر ملت اسلامیہ کے ہم خیال اور ہم آواز نظر آسکتے ہیں اور یہ انتشار ختم ہوسکتا ہے۔
nadimulwajidi@gmail.com