ملک کی صحت کیلئے میڈیا کو جمہوریت کا غسل دیا جائے

معاذ مدثر قاسمی، مرکزالمعارف، ممبئی
جمہوریت کا ڈھانچہ چار بنیادی چیزوں پر قائم ہے: عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ اور صحافت۔ ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اگر ان میں سے کوئی ایک بھی متزلزل ہوتا ہے تو جمہو ریت اپنی اصل شکل پر باقی نہی رہ سکتی، اس کی افادیت سے لوگ یکسر محروم ہوجائیں گے، اگر اس ڈگمگاتے ستون کی تجدید کاری اور مضبوط کرنے کی سعی نہی کی گئی تو پھر جمہوریت کے اندر سے آمریت جنم لیگی، نتیجۃ عوام کی خواہشات کا خون ہوگا۔
صحافت جس کی ایک قسم آج کی میڈیا ہے، اسے اگر کہا جائے کہ دنیا کی طاقتور شئ ہے تو بیجا نہ ہوگا کیونکہ لوگوں کے اذہان انکی قوت گرفت میں ہے، ذہن اور سونچ کو بدلنے کا جادو ان کے پاس ہے، اگر یہ چاہیں تو ایک خطرناک مجرم کو عوام کی نظر میں معصوم بنا دیں، اور معصوم کو مجرم ۔
جمہوریت میں میڈیا کی اہمیت اس معنی کرکے کہ یہ عوام اور حکومت کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے، حکومت کی خامیوں کو آئنہ دکھانا اس کا کام ہے، عوام کے مسائل، پریشانیاں اور ان کی بات حکومت وقت کے سامنے پیش کرنا اس کا فریضہ ہے، عوام کو انصاف دلانا اس کا فرض منصبی ہے۔اسکا کام ہے انصاف کی آواز بلند کرنا اور مظلومین کی حمایت کرکے اس کو اس کا حق دلانا، اسی طرح حکومت کے کام کاج سے لوگوں کو آگاہ کرنا۔ پارلیمینٹ میں پاس کیے گئے اچھے برے فیصلے اور قوانین سے عوام کو واقف کرانا یہ ذمہ داری ہے میڈیا کی۔
یہی وجہ ہیکہ ہر زمانے میں صحافت اور میڈیا کی ایک خاص اہمیت رہی ہے، صرف جمہوری مما لک ہی میں نہی بلکہ غیر جمہوری اور سللطانی ممالک میں بھی اسکی اہمیت مانی گئی ہے، اس کے اندر ایک حکومت گرا کر دوسری حکومت کو کرسی اقتدار پہنچا نے کی طاقت ہے۔
غیر جمہوری ممالک میں آزادی صحافت کی ضمانت نہی لی جاسکتی، سعودی عرب جیسے ممالک میں صحافت آزاد نہی ہے، کئی غیر جمہوری ممالک میں یہ بارہا دیکھا گیا ہیکہ حکومت کی خامیوں کو اجاگر کرنے کی پاداش میں حکومت کی طرف سے صحافت اور میڈیا پر آمرانہ شکنجہ کسا گیا۔
مگر جمہوری ممالک میں اس کی آزادی ناگزیر ہے، حکومت کے اثرو رسوخ سے اسکا پاک ہونا انتہائی لازمی ہے، اور جمہوری ممالک میں اسی آزادی اور ایمانداری کی ضمانت لینا بے حد ضروری ہے ورنہ جمہویت بے معنی ہوکر رہ جائے گی، کیونکہ یہ جمہوریت کیلئے ریڑھ ہڈی ہے۔ اگر میڈیا حکومت کی بولی بولنے لگے، ایمانداری اور صداقت کا ساتھ چھوڑ دے، جھوٹا پروپیگینڈا کرنے لگے، حکومت کے نظریات کو عوام پر تھوپنے کی کوشش کرنے لگے تو پھر سمجھ جا ئیے کہ جمہوریت کے ساتھ صحافت کا بھی گلا گھونٹا جارہا ہے۔
آج اگر ہم ہندوستان کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آجا ئیگی کہ جمہوریت کے اس ستون کودیمک لگ گیا ہے، جو روز بروزاسے کھوکھلا کرتا جارہا ہے۔ اوپر ذکر کی گئ ساری بیماریاں تقریبا اس کو لگ چکی ہے۔ حکومت کا اثر و رسوخ اس پر دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے، حکو مت کو آئنہ دکھا نے کے بجائے آج کی میڈیا کے ذریعہ حکومت ہی کی زبان بولی جارہی ہے۔ جس طرح سے ایک خاص نظریے کو لیکر یہ حکومت آئی ہے اسی نظریے کی تشہیر کی جارہی ہے، حکومت سے سوال کرنے کے بجائے اپوزیشن سے ہی سوال کیا جارہا ہے، کسی بھید بھاؤ کے بغیر عوام کی بات کرنے کے بجائے حکومت پر براجمان ہندوتوا نظریے کے حامل لوگوں کی زبان استعمال کی جارہی ہے، حکومتی ٹولہ جس طرح نفرتوں کی بیج بو رہا ہے اسی طرحکی آج کا میڈیا کر رہا ہے، ہر طرف ہندو مسلم کے درمیان نفرتوں کی بات کی جارہی ہے جو محض ہندوتوا کا ایجینڈا ہے، سچ کے بجائے جھوٹ اور نفرتوں کو عام کیا جارہا ہے۔
گزشتہ چھبیس جنوری کے موقع پر کاش گنج کے واقعے کو لے لیجیے کہ کس طرح اس واقعہ کو ہندو مسلم کا رنگ میڈیا کے ذریعہ دے دیا گیا۔ مسلمان خاموشی سے یوم جمہوریہ منارہے تھے اور اے وی بی پی اور وی ایچ پی کے کچھ متشدد نوجوان بھگوا جھنڈا لہرا تے ہوے وندے ماترم اور جے شری رام کے نعرے لگاکر ماحول کو خراب کیا، سونچی سمجھی سازش کے تحت فساد برپا کیا گیا جسمیں ایک چندن نامی نوجوان لڑکے کی موت ہوگئی۔ زی نیوز کا اینکر روہت سردانا نے جھوٹ کا سہارا لیکر نفرت کی بیج بونے کی ناپاک کوشش کی اور اس واقعہ کو کچھ اس طرح کو ریج کیا” کیا ہندوستان میں ترنگا لہرانا اپرادھ ہے کیا؟ کشمیر میں نہیں کیرل میں نہیں، یوپی میں بھی نہیں پھہرا سکتے؟ تو کیا پاکستان میں پھہرائیں گے؟”
جرم کسی اور کا اور مجرم بنا کر کسی اور کو پیش کردیا گیا۔ یقیناً اس طرح کے میڈیا ملک کیلیے دیمک کا کم کرہے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ نو نومبر کو مسلم پرسنل لا کے واقعہ کو لیکر میڈیا نے امن اور بھائی چارگی کی بات کرنے مولانا سجاد نعمانی صاحب کو فسادی مولانا سے تعبیر کرکے انتہائی مذمو حرکت کی، انکے بیان کی ویڈیو کلپ کی بلا کسی تحقیق کے ، سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کر دیا اور انکو نفرت کا داعی بنادیا ، جبکہ مولانا کا وضاحتی بیان کچھ اور ہی حقیقت بیان کرتاہے ، جہاںآر ایس ایس کے تعلقات کی بات انہوں نے کی وہ محض انسانیت کے ناطے دیر رات ایک ہاسپٹل میں کسی غیر مسلم لڑکی کو ایمرجنسی خون دینے گئے تھے، لڑکی کے والد نے متاثر ہوکر اپنے آرایس ایسی ہونے کا اعتراف کیا اور اور آر ایس ایس کی سرگرمیوں سے واقف کرایا ، اسی طرح آرایس ایس کے ہتھیار کی تقسیم کے تعلق سے جو بات مولانا نے کی اسای اندازہ موہن بھاگوت کے بیان سے صحیح طور پر لگایا جاسکتا ہے کہ “ہمیں تیاری کیلئے کچھ ہی دن چاہیے “۔
دلچسپ بات یہ ہیکہ جس طرح موجودہ حکومت کے پاس الیکشن جیتنے کیلیئے محض مسلمان ،پاکستان، گائے اور بابری مسجد جیسا مدعا ہے، ملک کی ترقی، غربت کے خلاف لڑائی سے انہیں کوئی سرو کار نہیں ہے، اسی طرح آج کی میڈیا بھی موجودہ حکومت کی راہ اپناتے ہوے اس طرح کے مسئلے کو زیادہ سے زیادہ حساس بناکر پیش کرتی ہے ، تاکہ ان کا ٹی آر پی اور ویورس کی تعداد زیادہ سے زیادہ بڑھے۔ مگر یاد رہے کہ انکا ذاتی مفاد اور حکومت کا ان پر بڑھتا اثر و رسوخ جمہوریت کی بقا پر سوالیہ نشان لگاتا ہے ۔ اگر میڈیا کا یہی حال رہا تو پھر جمہوریت جو سب کیلئے عزیز ہے اور جو ہر ایک کو آزادی کے ساتھ جینے کا یکساں حق دیتا ہے اس کی بقا کی ضمانت نہیں لی جا سکتی۔