ڈچ عوام نے وہ سب کچھ کردیا جس کے بارے میں یورپی یونین نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا

ہالینڈ،7؍اپریل
ملت ٹائمز؍ایجنسیاں
ہالینڈ میں بدھ کو ہونے والے ایک عوامی ریفرنڈم میں ڈچ عوام نے یوکرائن کے ساتھ یورپی یونین کے آزاد تجارتی معاہدے کو مسترد کر دیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس ریفرنڈم میں ٹرن آؤٹ 32 فیصد کے قریب رہا۔ڈچ ووٹرز نے بھاری اکثریت سے کل بدھ کے روز کرائے گئے ریفرنڈم میں یورپی یونین کے ناقدین کے جذبات کو تقویت بخشی ہے۔ اِس طرح ریفرنڈم کے نتائج کو ہالینڈ میں یورپی یونین مخالف جذبات کا آئینہ دار اور حکومت کے لیے ایک دھچکے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ یورپی یونین کی ششماہی صدارت کا حامل ملک بھی اِن مہینوں میں ہالینڈ ہی ہے۔ یورپی یونین کے معاہدے کا بظاہر مطلب یہ ہے کہ اٹھائیس رکنی بلاک یوکرائن کے ساتھ قریبی اقتصادی و سیاسی تعلقات اور تعاون کو بڑھانے کا متمنی ہے۔
ریفرنڈم میں ڈالے گئے ووٹوں میں سے 99.8 فیصد کی گنتی مکمل ہونے پر بتایا گیا ہے کہ قریب 61 فیصد رائے دہندگان نے اس ڈیل کے خلاف جب کہ صرف 38 فیصد نے اس کے حق میں رائے دی۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس ریفرنڈم میں ٹرن آؤٹ 32 فیصد کے قریب رہا۔ ڈچ عوام کا ایک حلقہ اِس خدشے کا بھی اظہار کر رہا ہے کہ یہ معاہدہ حقیقت میں یوکرائن کو یونین کی رکنیت دینے کا ایک آغاز ہے۔
اِس معاہدے کی یونین کی دیگر ستائیس رکن ریاستیں توثیق کر چکی ہیں۔ ڈچ پارلیمنٹ پہلے ہی اِس معاہدے کی اہم شقوں کی بھاری اکثریت کے ساتھ توثیق کر چکا ہے۔ گزشتہ برس طے پانے والا معاہدہ رواں سال کی پہلی جنوری سے نافدالعمل ہو چکا ہے۔ گزشتہ روز کے ریفرنڈم کے نتائج پر عمل کرنا ہالینڈ کی حکومت پر لازم نہیں ہے۔ ہالینڈ کے وزیراعظم نے بھی کل بدھ کے روز اپنی عوام کو تلقین کی تھی کہ وہ ریفرنڈم میں ہاں پر مہر ثبت کر کے حکومت کی پالیسیوں کو جہاں توانائی ملے گی وہیں یورپی یونین کی بیرونی سرحدیں بھی مزید محفوظ ہوں گی، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
امریکی حکومت نے بھی ڈچ عوام سے توقع کی تھی کہ وہ یس پر ہی مہر لگائیں گے مگر نتیجہ امریکی توقعات کے بھی برعکس رہا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ہالینڈ میں مشاورتی ریفرنڈم ایکٹ کے گزشتہ برس سے نفاذ کے بعد ہونے والا یہ پہلا ریفرنڈم ہے اور اِس کے لیے یورپی یونین کے بارے شکوک و شبہات رکھنے والوں نے کامیاب انداز میں مہم چلائی اور کامیابی حاصل کی۔ انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان گیئرٹ وِلڈرز نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ہے کہ یہ ہالینڈ کی عوام کی برسلز اور دی ہیگ کی سیاسی اشرافیہ سے نجات حاصل کرنے کی جانب ایک قدم ہے۔

SHARE