تین طلاق بل کے خلاف سہرسہ میں خواتین کا شدید احتجاج، شریعت میں کسی طرح کی مداخلت ناقابلِ برداشت، صدر جمہوریہ کے نام ایس ڈی او کو سونپا گیا میمورنڈم

سہرسہ: (ملت ٹائمز؍پریس ریلیز) سہرسہ ضلع کے سمری بختیار پور میں طلاق ثلاثہ بل کے خلاف مسلم پرسنل لا کے اپیل پر ائمہ مساجد سمری بختیار پور کے بینر تلے مسلم خواتین کا خاموش جلوس اسٹیٹ بختیار پور سے نکل کر سب ڈویژنل آفس پہنچا جس میں ہزاروں خواتین بینر ہاتھوں میں لئے ہوئی تھیں. اس سے پہلے خواتین کے ٹھاٹھیں مارتے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے عالمہ محترمہ سیدہ شگفتہ یاسمین نے کہا کہ مسلم خواتین کی یہ بیداری اور ان کا یہ کامیاب جلوس اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے ، مگر اپنی شریعت میں ذرہ برابر مداخلت نہیں کر سکتا ۔

مرکزی حکومت نے طلاق بل کے ذریعہ مسلم معاشرہ کو جس طرح تہ و بالا کرنے اورمسلم خواتین سے ان کا دین چھیننا چاہتی ہے یہ ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ باب ہے ، جسے اس ملک کے تمام انصاف پسند شہری مسلمانوں پر ظلم سمجھ رہے ہیں ۔ آج کے اس احتجاج کے ذریعہ مسلم خواتین حکومت ہند سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اپنا بل واپس لے اور ملک کے تمام باشندوں کو ان کے مذہب پر جینے کی دستوری آزادی فراہم کرے ۔اس موقع سے جلوس میں شریک تمام خواتین بیک زبان سرکار کے اس بل کے خلاف نعرے لگا رہی تھیں ، ان کے ہاتھوں میں بل کے خلاف ہزاروں تختیاں اور بینر تھے ، جس پر بل کی واپسی کا مطالبہ ، ملک کی سالمیت اور اتحاد کے نعرے کے ساتھ مسلم پرسنل لا بورڈ زندہ با د جیسے نعرے بھی تھے ۔ ساڑھے گیارہ بجے یہ اجلاس جلوس میں تبدیل ہو گیا ، جلوس سمری بختیار پور  کی تاریخ میں اس اعتبار سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے کہ سر زمین سمری بختیار پور ہی نہیں پورے سہرسہ ضلع میں  صرف مسلم خواتین کا کسی مذہبی ایشو پر اس سے پہلے اتنا بڑا احتجاج درج نہیں کیا گیا تھا ، جہاں لوگوں کی زبان پر سرکار مخالف نعرے تھے ، وہیں امارت شرعیہ کے اس بر وقت اقدام اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے اکابرین کی جرأت کے چرچے بھی ان کی زبانوں پر تھے ۔ جلوس کے اختتام پرنگر پنچایت کی چئیرمین روشن آرا،  ڈاکٹر کوکب سلطانہ، شگفتہ یاسمین، فطرت خاتون، حافظ ممتاز رحمانی، وجیہ احمد تصور، مظاہر عالم پر مشتمل ایک وفد نے  سب ڈویژن آفس میں ایس ڈی او  کے معرفت صدر جمہوریہ ہند کے نام ایک میمورنڈم  سونپا ۔میمورنڈم کا مضمون یہ تھا: ’’ ہم مسلم خواتین کا یہ شدید احسا س ہے کہ پروٹیکشن آف رائٹس ان میریج ایکٹ 2017 بڑی عجلت میں پاس کیا گیا اور اس بل کی تیاری میں کسی مسلمان عالم دین اور دانشوروں سے مشورہ نہیں لیا گیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے 22-8-2017 کے بعد ایسے بل کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ بل دراصل دستور ہند کی دفعات اور خواتین وبچوں کے مفادات کے سخت خلاف ہے ۔ ہم اپیل کرتے ہیں کہ اس بل کو فوری واپس لیاجائے اور اس پر نظر ثانی کی جائے ۔ خواتین کے حقوق اور صنف سے عدل و انصاف کیا جائے ۔