یہ آرمی چیف ہیں یا انتہاء پسند عناصر کے ترجمان ؟

خبر درخبر (547)
شمس تبریز قاسمی
آرمی چیف ہندوستان کے چند اہم ترین آئینی عہدوں میں سے ایک ہے ،اس عہد ہ پر فائز شخص کی ذمہ داری ملک کی حفاظت اور اس کی فکر مندی ہوتی ہے لیکن ہمارے موجودہ آرمی چیف بپن روات اپنے عہدہ کا خیال کئے بغیر تمام اخلاقی حدود کو پار کرکے بجرنگ دل اور شدت پسند ہندو عناصر کی زبان استعمال کررہے ہیں ، آسام کے مسلمانوں کے تعلق سے جو زبان انہوں نے استعمال کی ہے اور آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے تعلق سے جو کچھ انہوں نے کہاہے وہ ملک کے جمہوری اقدار اور سیکولرزم کے خلاف ہے ۔ جنرل روات کا دعوی ہے کہ یوڈی ایف بنگلہ دیشی گھسپیٹوں کی حمایت کررہی ہے ، بی جے پی سے زیادہ تیزی کے ساتھ اسے ترقی محض بنگلہ دیشی گھسپیٹیوں کی وجہ سے ملی ہے ، جنرل راوت کا یہ بھی مانناہے کہ اس کا تعلق ملک کی سکوریٹی سے ہے ، قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں ، انہوں نے پاکستان اور چین پر الزام عائد کرنے کے ساتھ بنگلہ دیش پر بھی ہندوستان کو نقصان پہونچانے کا الزام عائد کیا ہے ۔
جنرل راوت صاحب ! بنگلہ دیش کی تخلیق ہندوستان نے کی ہے ، گذشتہ سال بنگلہ دیش کے ایک سفر کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی صاحب خود اس کا صاف لفظوں میں اعتراف کرچکے ہیں ان سب کے باوجود آپ کا احساس ہے کہ چین اور پاکستان کی طرح بنگلہ دیش بھی آپ کو کمزور کرنے کی کوشش کررہا ہے تو پھر آپ کو اپنی پالیسی پر غور کرنا چاہیئے ، وزیر اعظم سے کہنا چاہیئے کہ چین اور پاکستان کی طرح بنگلہ دیش بھی آپ کا دشمن ہے ، آپ کا فخر و غرور بے معنی ہے ۔ روات صاحب کا اگر خیال ہے کہ بنگلہ دیشی گھسپٹیوں کی وجہ سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں تو انہیں اس کا حل تلاش کرنا چاہیئے ، وزرات دفاع کی میٹنگ میں یہ بات رکھنی چاہیئے ، پبلک میٹنگ میں ملک سلامتی سے متعلق باتوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتاہے نہ ہی کسی ملک کا چیف آرمی سلامتی کو لاحق خطرات کے بارے میں لائحہ عمل طے کرنے کے بجائے پبلک کانفرنس میں اس کا ذکر تاہے ۔
آسام میں این آر سی کا کام جاری ہے ،ایک کروڑ 90 لاکھ لوگوں کی فہرست آچکی ہے جبکہ ایک کروڑ 39 لاکھ لوگوں کا نام آنا باقی ہے ،مرکز کی موجودہ بی جے پی سرکار تقریباً 50 لاکھ مسلمانوں کو بنگلہ دیشی در انداز قرار دیکر ان کی جگہ بنگلہ دیش،پاکستان اور افغانستان وغیرہ سے آئے ہوئے ہندﺅوں کو شہریت دینا چاہتی ہے ، اس سلسلے میں لوک سبھا سے ایک بل بھی پاس ہوکر سلکیٹ کمیٹی میں گیا ہوا ہے ۔ اس سازش کو کامیاب بنانے کیلئے بی جے پی سرکار نے پہلے شہریت کے ثبوت کیلئے معتبر قرار دیئے گئے 16 قسم شناختی کارڈ میں سے پنچایت سرٹیفیکٹ کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن سپریم کورٹ میں اسے منہ کی کھانی پڑی ۔ اب حکومت این آر سی کی دوسری لسٹ شائع کرنے میں تاخیر سے کام لے رہی ہے تاکہ جیسے ہی راجیہ سبھا سے بل پا س ہوجائے ہندﺅوں کا نام شامل کردیا جائے اور مسلمانوں کو درانداز قرار دیکر ملک بدر کرنے کا فیصلہ کردیا جائے ، اس معاملے میں بھی سپریم کورٹ نے آسام کی ریاستی سر کو سخت پھٹکار لگاتے ہوئے 31 مئی 2018 تک این آر سی کی بقیہ فہرست ہرحال میں شائع کرنے کا حکم دے دیاہے ۔ آسام میں نیشنل رجسٹر برائے شہریت کے تعلق سے آئے گذشتہ دونوں فیصلوں سے بی جے پی کی عزائم کی تکمیل نہیں ہوپارہی ہے اس لئے اب آرمی چیف کا استعمال کرکے اسے ملکی سلامتی سے جوڑا جارہا ہے اور صاف لفظوں میں یوڈی ایف پر یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ یہ پارٹی دراندازوں کے ووٹ سے کامیاب ہوئی ہے، اسی کی یہ سب سازش ہے جبکہ سچائی ہے کہ آسام میں مولانا بدرالدین اجمل کی مقبولیت ان کے رفاہی کاموں کی وجہ سے ہے، وہ ہندو مسلم کی سیاست کے بغیر سبھوں کیلئے کام کرتے ہیں اور سبھی کے درمیان مقبول ہیں۔ ان کی پارٹی کے تین ایم پی میں سے ایک غیر مسلم ہے ، ایم ایل اے کے علاوہ پارٹی کے اہم عہدوں پر بھی کئی غیر مسلم فائز ہیں ۔دوسری طرف بی جے پی کے 281 لوک سبھا ایم پی میں سے ایک بھی مسلمان نہیں ہے ۔ اس واضح تضاد کے بعد یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ فرقہ پرست پارٹی کون ہے ،کس کے یہاں مذہب کو بنیاد بناکر ووٹ مانگا جاتا ہے ۔
بہر حال آرمی چیف کا بیان افسوسناک اور قابل تشویش ہے ، تمام سیاسی پارٹیوں ، سماجی کارکنان اور سول سوسائٹی کو اس کے خلا ف آواز اٹھاتے ہوئے وزرات دفاع سے آرمی چیف کے بارے میں نوٹس لینے کا مطالبہ کرنا چاہیئے اور جو کچھ بپن راوت نے کہاہے وہ بجرنگ دل ، آر ایس ایس ، وشو ہندو پریشد جیسی انتہاء پسند تنظیموں کے جملے ہیں ۔ اسی لئے یہ سوال گردش کررہا ہے کہ بپن روات آرمی چیف ہیں یا انتہاء پسند عناصر کے ترجمان؟
stqasmi@gmail.com