سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے!

ناظم اشرف مصباحی

اعلان نبوت کے ابتدائی سالوں پر نگاہ ڈالی جائے تو ایک عجیب و غریب منظر نظر آتا ہے۔ ایک طرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اللہ کی پرستش کی دعوت عام دے دی ہے۔ ان کی دعوت پر حضرت خدیجہ، حضرت علی اور بلال و یاسر سمیت زمانے کی نگاہ میں چند مظلوم و لاچار بوڑھے، بچے عورتیں اور غلام ایمان لاچکے ہیں، دوسری طرف سرداران قریش کے مابین کھلبلی مچی ہوئی ہے، ان کی صبح و شام بس اسی بات پر مٹینگ پر مٹنگ اور مجلس پر مجلس منعقد کرنے میں کٹ رہی ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی کاروائی کہاں تک پہنچی؟ انہیں روکا جائے یا نہ روکا جائے؟ اگر روکا جائے تو کیسے روکا جائے؟ کیا ان کے دعوی نبوت سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ یا پھر ان کا یہ دعوی نبوت ہمارے لیے ہر اعتبار سے نقصان دہ ہے؟ ہر ہر پہلو پر غور کیا جارہا تھا۔ اگر غور نہیں کیا جارہا تھا تو صرف اس پہلو پر کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جو کہہ رہے ہیں کہیں وہ سچ تو نہیں ہے؟ اس پر بھی غور کرلیا جائے، ان سے اس معاملے میں کھل کر بات کی جائے تاکہ اگر واقعی ان کی سچی ہوئی تو ہم آخرت کے عذاب سے بچ جائیں گے۔ یعنی دنیاوی زندگی، مادی منفعت، اپنی جاہ و حشمت کی حفاظت کے ارد گرد تو سب کی سوچ و فکر منڈلا رہی تھی لیکن کسی کی فکر سچائی کی تلاش یا آخرت کی زندگی کی طرف نہیں جارہی تھی۔
ادھر ابوجہل مجلس سجائے بیٹھا ہے، بکری کے دودھ کے پیالے تقسیم ہورہے ہیں اور غور و فکر کا موضوع بس یہی ہے کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس کی کاروائی کو کیسے روکا جائے۔ یہ چوراہے پر ابولہب اپنی مسند لگائے بیٹھا ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر لگام لگانے کی کاروائی پر مشورے ہورہے ہیں، ادھر ایک اور سردار اپنے حواریوں کے گرد بیٹھ کر غور کررہا ہے کہ اگر واقعی نبوت وغیرہ ملنی تھی تو مجھے ملنی چاہیے تھی، کیوں کہ مجھ سے بہتر جاہ و حشم والا مکہ میں کوئی نہیں ہے؟ ان کی فکر بس اسی میں گردش کر رہی تھی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی حیثیت ہی کیا ہے؟ ایک تو یتیم ہیں، دادا اور چچا کے سہارے پلے بڑھے ہیں، عمر میں بھی ہم سے چھوٹے ہیں، ہماری ہی نظروں کے سامنے تو پلے بڑھے ہیں، نہ ذاتی تجارت ہے، نہ دولت و ثروت ہے، نہ بکریاں ہیں، نہ ہماری طرح سردار ہیں! پھر ہم ان کو اپنا سردار کیسے تسلیم کرلیں! لیکن کسی کا ذہن اس جانب نہیں جارہا تھا کہ جس ابراہیم کو ہم آج تک مان رہے ہیں اس ابراہیم کے رب کے نزدیک ان (محمدصلی اللہ علیہ وسلم) کا کیا مقام ہے؟ جس کعبہ کی وجہ سے پوری دنیا میں ہمارا شہرہ ہے اس کعبہ کے رب کے نزدیک ان (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کا کیا مرتبہ ہے؟
اتنے میں خبر ملتی ہے کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ایمان لاچکے ہیں، مٹنگیں تیز ہوگئیں، اب تک تو صرف غلام، عورتیں اور بچے ایمان لائے تھے لیکن یہ کیا؟ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ان کے دام میں کیسے آگئے؟ یہ تو ہوش مند انسان ہیں! پھر ایک دن خبر آتی ہے کہ عثمان بھی اسلام میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ غلاموں اور کمزوروں کی ایک ٹکڑی جمع ہوچکی ہے۔ اب تو حد ہوگئی، کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ پہلے سب الگ الگ اپنی مٹنگیں کرتے تھے۔ اب ایک ساتھ مل کر مٹنگیں ہونے لگیں، کچھ کیا جائے، کیا کیا جائے، کیا نہیں کیا جائے بس اسی پر غور خوض چل رہا تھا۔ ان مٹنگوں میں ایک خاص بات یہ تھی کہ کوئی زبان سے یہ نہیں کہتا تھا میری سرداری ختم ہورہی ہے بلکہ مدا یہ اٹھا رہے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمارے معبودوں کا انکار کرتے ہیں، ان کو برا بھلا کہتے ہیں، یہ ہمارے معبودوں کی توہین ہے اور اب ہم اپنے معبودوں کی مزید گستاخی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن اندر اندر سب جانتے تھے اور تاریخ گواہ ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کبھی کسی معبود باطل پر سب و شتم نہیں کیا، بلکہ قرآن نے تو باضابطہ منع کیا ہے تاکہ وہ اللہ کو برا بھلا نہ کہنے لگیں، تو پیغمبر خدا ایسا کیسے کرسکتے تھے! لیکن ان کو تو لوگوں کو بھڑکانے کے لیے مدا چاہیے تھا جسے انہوں نے خوب زور وشور سے جاری رکھا۔ انہوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو روکنے کی ہرممکن کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ بلکہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر سنجیدہ اور ہوش مند حضرات لبیک کہتے گئے حتی کہ دنیا نے دیکھا کہ اس دعوت کی حقانیت کے سامنے عمر ابن خطاب (رضی اللہ عنہ) جیسے نوجوان نے بھی سر خم کردیا، مزید نوجوان اسلام میں داخل ہوتے گئے اور اسلام کی دعوت مین اچانک تیزی آجاگئی۔
تاریخ لکھنا مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود حق کی آواز بلند کرنے والوں سے صرف اتنا کہنا ہے کہ مخالفتوں کا پہاڑ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہوجائے اخلاص اور ایمان کے ہتھیار کے آگے متزلزل ہوہی جائیں گے۔ بات اگر عقل میں آنے والی ہے، تو ‏تسلیم کرنے والے ابو بکر و عثمان مل ہی جائیں گے۔ پھر اگر استقامت کے ساتھ اپنی بات رکھتے رہے تو ایک دن کوئی عمر آئے گا اور پھر وہ بات صرف چند لوگوں میں محصور نہیں رہے گی بلکہ چہار دانگ عالم میں ببانگ دہل اس کا چرچا ہوگا۔ انتم الاعلون ان کنتم مومنین، تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مومن رہے تو، یہاں سربلندی کا مزدہ جانفزا ایمان حقیقی کی شرط پر مشروط ہے۔
‏مجھے عرب کے مذکورہ ماحول اور آج کے موجودہ حالات میں یکسانیت صاف نظر آرہی ہے اور اگر غیر جانب دار ہوکر آپ بھی دیکھیں تو شاید آپ بھی اس مماثلت کو محسوس کریں۔
‏غور کا مقام یہ ہے کہ مشرکین مکہ بھی اپنے گمان میں خدا کو ماننے والے تھے، وہ خود کو ملحد نہیں کہتے تھے بلکہ وہ تو اپنی سرداری بچانے کے لیے اپنے خداوں کا ہی نام استعمال کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمارے خداوں کی توہین کی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کو کسی خدا کی توہین اور گستاخی سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ یعنی اپنے گمان میں وہ بھی مومن ہی تھے، بلکہ بعض کے مطابق اگر اللہ کو نبوت دینی ہوتی تو وہ خود اس کے زیادہ حق دار تھے۔ (دیکھئے:سیرت ابن ھشام)۔ سرداران مکہ اور عوام مکہ یقینا ملحد نہیں تھے بلکہ خدا پر ایمان رکھتے تھے لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ اسباب و وسائل کو اس قدر اپنی زندگی کا حصہ بناچکے تھے کہ جو افعال صرف اللہ کے لیے کرنے چاہیے تھے وہ ان وسائل کے لیے بھی روا رکھے ہوئے تھے، بلفظ دیگر وہ موحد کی بجائے مشرک تھے، خدا کا ستعمال محض دنیاوی جاہ و حشم کی حفاظت کے لیے کرتے تھے، آخرت کی فکر ان کی زندگی سے محو ہو چکی تھی۔ بالکل اسی طرح آج بھی ہم مذہب کو محض اپنی سرداری کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ آخرت کا نام تو لیتے ہیں لیکن اس کا حقیقی تصور ہمارے ذہنوں سے محو ہوچکا ہے۔
سرزمین عرب کی طرح آج بھی سب نے اپنا الگ الگ بت بنا رکھا، کسی نے کسی بڑے عالم کو بت بنا رکھا ہے، تو کوئی کسی بزرگ کے مزار کو بت بنائے بیٹھا ہے، تو کہیں کچھ لوگ کسی ادارے کو بت بنا کر بیٹھے ہیں۔
عرب کے سرداروں کی طرح آج بھی کچھ لوگ اپنی سرداری اور ٹھیکیداری کی دکان سجائے بیٹھے ہیں، اپنی سرداری ثابت کرنے یا اس کے تحفظ کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں۔ کسی کو خارج کر رہے ہیں، تو کسی کو من پسند القاب سے نواز رہے ہیں۔
فرق صرف اتنا ہے کہ عرب میں ظاہری بتوں کو استعمال کرتے تھے اور آج معنوی طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ زبان سے تو اللہ کی بلندی کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن حقیقت میں اپنی سربلندی کی فکر ہوتی ہے۔ حتی کہ دوران تقریر اگرچہ مقرر نعرہ تکبیر لگانے کی تلقین کرتا ہے لیکن حقیقت میں اپنی اور اپنی تقریر کی بڑائی مقصود ہوتی ہے۔
ایسے میں اگر کوئی حق کی آواز بلند کرے تو کیا اس وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ سامنے والے کی بات برحق تونہیں؟ یا پھر اپنی سرداری اور ٹھیکیداری کی فکر ستانے لگتی ہے؟ اور یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ یہ فلاں کے خلاف ہے، اس نے فلاں کی گستاخی کردی ہے، اس نے فلاں کی توہین کردی ہے۔ حالاں کہ در حقیقت نہ تو کسی کی توہین و گستاخی کی گئی ہوتی ہے اور نہ ان ٹھیکیداروں کو کسی کی گستاخی و توہین سے کوئی مطلب ہے، انہیں تو بس اپنی سرداری اور ٹھیکیداری سے مطلب ہے!
‏آج جب کوئی حق کی آواز بلند کرتا ہے تو کیا ان کی بات کو من حیث بات بھی دیکھا جاتا ہے اور اس کی حقیقت پر بھی توجہ دی جاتی ہے؟ یا اپنی جھوٹی شان و شوکت کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے؟
‏آج جب کوئی حق کی آواز بلند کرتا ہے تو ان کو مروجہ معیار جاہ حشم کے ترازو پر پرکھا جاتا ہے یا فکر آخرت کی روشنی میں بھی جانچا جاتا ہے؟
‏آج جب کوئی حق کی آواز بلند کرتا ہے تو اسے دنیاوی معیار بزرگی کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے۔ یا اس پر بھی نگاہ رکھی جاتی ہے کہ ان کا مقام و مرتبہ اللہ کے نزدیک کیا ہے؟ کہیں ان کا مرتبہ اللہ کے نزدیک بلند تو نہیں ہے؟ کہیں وہ اللہ کا مقرب و برگزیدہ بندہ تو نہیں ہے؟
‏آپ جزئیات پر ایک ایک کرکے غور کریں تو آج کا پورا نقشہ پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد عرب کے نقشے سے صاف ملتا جلتا نظر آئے گا۔
اب ایک اہم سوال یہ ہے ایسے حالات میں اگر آپ کے سامنے کوئی داعی الی اللہ آئے تو آپ اس کو کیسے پہچانیں گے؟ آپ کا کردار کیا ہوگا؟ کیا ایسے میں ابوبکر و عمر کی پیروی کریں گے یا مشرکین مکہ ساتھ ہوں گے؟
‏حضرت ابوسفیان کی طرح فتح مکہ کے بعد یقین کریں گے؟ ‏یا ابوجہل و ابولہب کی طرح عداوت میں اس قدر آگے نکل جائیں گے کہ چچا ہوکر بھی ایمان نصیب نہ ہوگا؟
‏سرداران قریش کے ان افواہوں پر کان دھریں گے کہ نعوذ باللہ یہ محمد نہیں بلکہ مذمم ہے، یہ تو مجنون ہے، یہ تو جادوگر ہے، ساحر ہے، انہوں نے سرداری کی لالچ میں ہمارے خداوں سے لڑائی مول لیا ہے۔ ‏یا پھر آپ اس گروہ کے ساتھ ہوں گے جو مختلف بہانے سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر دباؤ بنانے کی کوشش کر رہے تھے؟
‏آپ ان احمقوں کے ساتھ ہوں گے؟ جنہوں نے تبلیغ روکنے کے عوض پیغمبر خدا کو بادشاہت، سرداری، خوبصورت دوشیزہ اور زر و جواہر کی پیس کش کی تھی؟
آپ کی نگاہ صرف سرداران قریش کی ظاہری جاہ و حشمت پر ہوگی یا محمد ابن عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کریمانہ بھی دیکھیں گے؟
‏آپ کی نظر عقل کا استعمال نہ کرنے والے بھولے بھالے لوگوں کی کثرت پر ہوگی یا ابوبکر و عمر کی سابقہ زندگی کی پاک و صاف زندگی کے ساتھ ابوبکر کی صداقت، عمر کی عدالت اور عثمان کی سخاوت پر بھی ہوگی؟
آپ اخلاق سے عاری، انسانیت سے ناآشنا، ظلم و جبر روا رکھنے والے، بد عمل و بد کردار لوگوں کے ساتھ ہوں گے یا با اخلاق، انسانیت کی خدمت کرنے والے اور آخرت کی فکر کرنے والوں کے ساتھ ہوں گے؟
خلاصہ یہ کہ آپ مشرکین مکہ کی طرح آج کے سرداروں اور ٹھیکیداروں کی باتوں پر یقین کریں گے یا اپنی آنکھ، کان اور عقل کا بھی استعمال کریں گے؟

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں