شام کے دل خراش حالات

مولانا ندیم الواجدی
خانہ جنگی کے شکار ملک؛ شام میں معصوم شہریوں کی ہلاکت کا سلسلہ جاری ہے، گذشتہ ہفتے سے صدر بَشار الاسد کی فوجیں روس اور ایران کی مدد سے غوطہ شرقیہ نامی علاقے پر لگاتار زمینی اور فضائی حملے کررہی ہیں، پورا علاقہ ملکی فضائیہ اور زمینی دستوں کے محاصرے میں ہے، ان حملوں میں اب تک پانچسو شہری ہلاک ہوچکے ہیں، ان میں ڈیڑھ سو کے قریب معصوم بچے بھی شامل ہیں، سوشل میڈیا پر مہلوک اور زخمی بچوں کی دل دہلا دینے والی تصویریں لگاتار وائرل ہورہی ہیں، لیکن پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، بین الاقوامی برادری شام کی ظالم اور سفاک حکومت کو ان مظالم سے باز رکھنے میں پوری طرح ناکام ہے، اگرچہ زبانی مذمت کا سلسلہ جاری ہے، مگر عملی طور پر کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا جارہا ہے، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بڑے بے بس نظر آرہے ہیں، وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ شام کے دونوں متحارب گروپ ایک ماہ کی جنگ بندی پر راضی ہوجائیں تاکہ جنگ زدہ علاقوں میں امدادی سامان پہنچایا جاسکے، زخمیوں کی مرہم پٹی ہو، اور مہلوکین کی صحیح تعداد معلوم ہوجائے۔
خبر ہے کہ سلامتی کونسل نے شام میں تیس دنوں کے لئے جنگ بندی کی تجویز اتفاقِ رائے سے منظور کرلی ہے، روس سے خدشہ تھا کہ اگر سلامتی کونسل میں اس نوعیت کی کوئی تجویز آتی ہے تو وہ اسے ویٹو کردے گا، اس خدشے کے پیش نظر کئی مرتبہ ووٹنگ ملتوی کی جاچکی تھی، یہ بھی خبر ہے کہ قرار داد کی منظوری کے باوجود فضائی بمباری کا سلسلہ جاری ہے، یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ بشار کی فوجیں جن کی پشت پر طاقت ور روس ہے کسی بھی قیمت پر جنگ بندی کے فیصلے کا احترام نہیں کریں گی اور ان کی طرف سے ’’باغیوں‘‘ اور ’’دہشت گردوں‘‘ کی سرکوبی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔
شام کئی سالوں سے خانہ جنگی کا شکار ہے، پورا ملک کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے، نصف کے قریب آبادی ترک وطن کرچکی ہے، ہزاروں افراد محفوظ مقامات تک پہنچنے کے لئے سمندروں میں سفر کرتے ہوئے غرقاب ہوچکے ہیں، تباہی اور بربادی کا یہ سلسلہ رک سکتا تھا اگر بڑی طاقتیں اپنی جنگ جو فطرت کی تسکین کے لئے اور اپنے ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانے کی خاطر اس خطے کو جنگ کے میدان میں تبدیل نہ کرتیں۔
شام جسے عربی میں سوریا اور انگلش میں Syria کہتے ہیں، مشرق وسطی کا قدیم ترین ملک ہے، براعظم ایشیا کی آخری حدود پر واقع یہ ملک عرب جمہوریہ شام کہلاتا ہے، اس کے مغرب میں لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور اسرائیل، جنوب میں اردن، مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی واقع ہے، قدیم زمانے میں شام کا اطلاق اس پورے خطے پر ہوتا تھا جس میں اب سوریا، لبنان، اردن، فلسطین اور اسرائیل واقع ہیں، خلیفۂ اول حضرت ابوبکر الصدیقؓ نے ۱۳ھ میں حضرت خالد بن ولید کو حکم دیا تھا کہ وہ عراق سے فارغ ہوکر شام کا رخ کریں اس طرح فتوحات شام کا سلسلہ شروع ہوا جو ۱۴ھ میں اس وقت پایۂ تکمیل کو پہنچا جب حضرت عمر بن الخطابؓ خلیفۃ المسلمین بن چکے تھے، اس سے پہلے یہاں بازنطینی حکومت قائم تھی، شام کا موجودہ دار الحکومت دمشق تقریباً اسی برس تک خلفاء بنو امیہ کا دارا لخلافہ بھی رہا ہے، ویسے بھی یہ انبیاء کرام کی سرزمین ہے، اس کا چپہ چپہ پیغمبران خدا کے قدموں سے منور رہا ہے، ایک روایت کے مطابق جو حدیث کی متعدد کتابوں میں موجود ہے اور جسے فنی اصطلاح میں حدیث متواتر کہا جاتا ہے خروج دجال کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی مینار پر اتریں گے اور باب لُد پر جاکر دجال کو قتل کریں گے، یہ علاقہ پہلے متحدہ شام کا حصہ تھا اور اب اسرائیل میں ہے، اس واقعے سے پہلے حضرت امام مہدیؓ حجاز مقدس سے ہجرت کرکے دمشق میں آکر قیام کریں گے، اس کا ذکر بھی روایات میں ملتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ سرزمینِ شام اور اس کے پایۂ تخت دمشق سے اسلام اور مسلمانوں کا محبت اور عقیدت کا رشتہ ہے، مشہور محدث اور مؤرخ حافظ ابن عساکر جنھوں نے اسّی جلدوں میں دمشق کی تاریخ لکھی ہے فرماتے ہیں کہ: ایک زمانے میں دس ہزار لوگ اس شہر میں ایسے موجود تھے جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا تھا، ذخیرۂ حدیث میں بہت سی ایسی روایات موجود ہیں جن میں شام کو بابرکت زمین کہا گیا ہے، حضرت زید بن ثابتؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شام کتنی مبارک جگہ ہے، صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا وہ کیسے یارسول اللہ؟ فرمایا: میں اللہ کے فرشتوں کو دیکھتا ہوں کہ انھوں نے شام کے اوپر اپنے پر پھیلا دئے ہیں، (ترمذی، مسند احمد بن حنبل) ایک حدیث میں ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب فتنے رونما ہوں گے تو ایمان شام میں ہوگا، (طبرانی) غیر منقسم ارض شام کی فضیلت کے لئے یہ بات کافی ہے کہ اس سرزمین پرمسجد اقصی ہے جو مسلمانوں کا قبلۂ اول بھی ہے، آج کل شام کے شہر الغوطہ پر حملے ہورہے ہیں، اس شہر کے متعلق بھی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک موجود ہے، فرمایا: خونریز جنگ کے دن مسلمانوں کی پناہ گاہ غوطہ ہوگا جو اس شہر کے کنارے پر واقع ہے جسے دمشق کہا جاتا ہے یہ شام کے شہروں میں سے بہترین شہر ہے، (سنن ابی داؤد) ۔
ملک شام ۶۳۶ء سے ۱۹۲۰ء تک مسلمانوں کے زیر نگیں رہا ہے، آخر میں سلطنت عثمانیہ کے تحت رہا، شریف مکہ نے برطانیہ کی شہہ پر خلافت عثمانیہ سے بغاوت کی، اوّلا وہاں ایک کٹھ پتلی سرکار قائم ہوئی، ۱۹۲۰ء میں فرانس نے اس پر قبضہ کرلیا اور اس عظیم الشان ملک کو چھ ریاستوں میں تقسیم کردیا، دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس کی طاقت کمزور پڑ گئی اور وہ یہ محسوس کرنے لگا کہ اب وہ شام پر اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ پائے گا ان حالات میں اس نے یہ فیصلہ کیا کہ اسے ملک سے نکل جانا چاہئے، اس طرح ۱۹۴۶ء میں اس ملک کو فرانسیسی استعمار سے آزادی تو مل گئی لیکن وہاں عرصے تک کوئی مستحکم اور مضبوط حکومت قائم نہ ہوسکی، مختلف وقتوں میں کئی فوجی انقلاب آئے، کئی قومی حکومتیں بنیں، ۱۹۴۶ء سے ۱۹۵۶ء تک صرف دس برسوں میں یہاں بیس سے زیادہ حکومتیں قائم ہوئیں، چار سے زائد بار دستور بنا کر نافذ کئے گئے، اگلے چند برس بھی اسی اُتھل پتھل کی نذر ہوگئے، ۱۹۶۴ءمیں حافظ امین برسراقتدار آئے، ان کی حکومت میں اگرچہ ہر طبقے کی نمائندگی تھی مگر اصل اختیار فوج کو تھا، موجودہ صدر کے والد حافظ الاسد نے جو اس حکومت میں وزیر دفاع تھے ۱۹۷۰ء میں فوجی بغاوت کرکے حکومت پر قبضہ کرلیا، ان کے اقتدار کی کل مدت تیس سال ہے یہ شخص علوی نصیری تھا اس فرقے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے اور اس کی تاریخ یہ رہی ہے کہ اس نے دشمنانِ اسلام کے ساتھ مل کر اسلام اور مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچایا ہے، حافظ الاسد نے برسر اقتدار آنے کے بعد سنی مسلمانوں کو کنارے لگادیا، فوج اور حکومت کے تمام بڑے عہدے نصیری فرقے کے لوگوں میں تقسیم کردئے ، عملاً یہ ملک حافظ الاسد کی جاگیر بن گیا، جو بھی اس کے راستے میں آیا اس نے اسے حرف غلط کی طرح مٹا دیا، اس نے بیس ہزار علماء اہل سنت کو یا تو قتل کرا دیا یا جیلوں میں ڈلوا دیا، ۱۹۸۲ء میں سنی مسلمانوں نے شام کے شہر حماۃ میں حافظ الاسد کے ظلم وبربریت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جسے فوجی طاقت کے بل پر کچل دیا گیا، دس ہزار لوگ مارے گئے، پورا شہر کھنڈر میں تبدیل کردیا گیا، ۲۰۰۰ء میں حافظ الاسد کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا بشار الاسد حکمراں بنا، یہ بھی اپنے باپ کے نقش قدم پر ہے، شیعہ نواز، سنیوں کا مخالف، ظالم اور جابر حکمراں کی حیثیت سے وہ اپنے باپ سے بھی دو چار قدم کچھ آگے ہی ہے۔
پانچ سال قبل عالم عرب میں بہار عرب کے عنوان سے تبدیلی کی جو لہر چلی تھی اس کا اثر اس ملک میں بھی محسوس کیا گیا، فروری ۲۰۱۱ء میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، وہ چالیس سال سے زیادہ لگی ایمرجنسی اور اس کے نتیجے میں ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف احتجاج کررہے تھے، بشار الاسد کی فوجوں نے ان پُر امن مظاہرین پر توپ کے دہانے کھول دئے، اس طرح حالات بگڑے اور بگڑتے چلے گئے، پورا ملک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا، کئی تنظمیں وجود میں آئیں، جو یہ طے کئے ہوئے ہیں کہ بشار الاسد کو ہٹا کر دم لیں گی، فوج بھی منقسم ہوگئی ، پانچ سال کی اس مدت میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں، لاکھوں لوگ نقل مکانی کرکے ترکی، لبنان اور دوسرے ملکوں میں پناہ گزین کی حیثیت سے رہنے پر مجبور ہیں، آج بھی ایک کڑوڑ اسی لاکھ سے زیادہ لوگ اس جنگ زدہ ملک میں موجود ہیں، جن میں بڑی تعداد شیعہ نصیریوں کی ہے، سنی مسلمان اول تو کم رہ گئے ہیں، جو ہیں وہ بشار الاسد کے بموں، توپوں اور گولیوں کے نشانے پر ہیں، ایک وقت ایسا بھی آیا جس میں لگتا تھا کہ بشار الاسد بس اب جانے ہی والا ہے مگر ۲۰۱۲ء میں ایران کی دہشت گرد تنظیم حزب اللہ بشار الاسد کی حمایت میں آگئی اور اس نے سرحدیں عبور کرکے سنی مسلمانوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا، ستمبر ۲۰۱۳ء میں روس نے مداخلت شروع کی، اب صورت حال یہ ہے کہ بشار الاسد ایران اور روس کے ساتھ مل کر سنی آبادی کو نیست ونابود کرنا چاہتا ہے، دوسری طرف کچھ مسلم ممالک ہیں جو امریکہ کی قیادت میں سنیوں کا کمزور دفاع کررہے ہیں، بہ ظاہر شام کی سرزمین پر امریکہ اور روس دونوں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں اس ملک کو تباہ وبرباد کرنے کے درپے ہیں، بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں روس اور ایران کامیابی کے ہدف تک پہنچنے والے ہیں، جب کہ امریکہ، سعودی عرب اور ترکی اپنے مقصد کے حصول میں ناکام ہیں، اس صورت حال پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ شام کی اس جنگ میں روس اور امریکہ حریف نہیں حلیف ہیں، جن کا واحد مقصد بشار الاسد کے اقتدار کو مستحکم کرنا اور سنی مسلمانوں کا اس خطے سے صفایا کرنا ہے، دونوں نے داعش اور دولت اسلامیہ کا ہوا کھڑا کررکھا ہے جن کا کوئی زمینی وجود نہیں ہے، امریکہ اور روس دونوں فضائی حملے کررہے ہیں، بل کہ روس کے متعلق تو یہ بھی اطلاعات ہیں کہ روس نے ان حملوں میں کیمائی ہتھیار بھی استعمال کئے ہیں، شام کی سرزمین ان دونوں عالمی طاقتوں کے لئے میدان جنگ بنی ہوئی ہے، نقصان ملک کا ہورہا ہے ملک کے معصوم عوام ہلاک ہورہے ہیں، ان کے مکانات، اسکول، ہسپتال، عبادت گاہیں مسمار ہورہی ہیں، گذشتہ ایک ہفتے میں روس کے بمبار طیاروں نے ایک سو بیس فضائی حملے کئے، اور غوطہ شہر کو تباہ کرکے رکھ دیا، ابھی تک پانچسو تک ہلاکتوں کی خبریں ہیں جن میں سے ڈیڑھ سو معصوم بچے بھی ہیں، فی الحال جنگ بندی کا ڈراما رچا گیا ہے، اب امدادی ٹیمیں علاقے میں جائیں گی، مہلوکین اور زخمیوں کی صحیح تعداد اسی وقت معلوم ہوگی۔
یہاں سوال یہ ہے کہ بشار الاسد کو کب تک چھوٹ ملتی رہے گی، کیا روس اس وقت تک حملے کرتا رہے گا جب تک بشار الاسد کا ایک بھی مخالف سنی مسلمان ملک میں موجود ہے، کیا ایران کو سو خون معاف ہیں، امریکہ جو سپر پاور بنا پھرتا ہے روسی حملے روکنے میں ابھی تک ناکام کیوں ہے، کیا اس ناکامی سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ بشار الاسد کے اقتدار کی بقا اسرائیل کے حق میں ہے، اسی لئے امریکہ نہیں چاہتا کہ بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ ہو، جنگ کی حقیقی صورت حال یہ بتلاتی ہے کہ دونوں بڑی طاقتوں کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ سرزمینِ شام میں نصیریوں کا اقتدار سلامت رہے، سنی مسلمان یا تو ملک سے باہر نکل جائیں، یا ہلاک ہوجائیں یا کان دبا کر رہیں، اسی میں ان کی بھلائی ہے، یہ صورت حال ترکی، سعودی عرب، یمن، قطر سب کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے، شام سے نمٹ کر ان کا رخ ان ملکوں کی طرف ہوگا جو ایران کی آنکھوں میں خار کی طرح کھٹکتے ہیں، جن سے اسرائیل کے وجود کو خطرہ ہے، ایران ان بڑی طاقتوں کے ساتھ مل کر ایک ایسے عظیم شیعہ ملک کا خواب دیکھ رہا ہے جس کی سرحدیں ایران سے سعودی عرب تک پھیلی ہوئی ہوں، اور اس میں کہیں کوئی سنی مسلمان موجود نہ ہو۔
nadimulwajidi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں