سید منصور آغا
اس سال 8 مارچ، عالمی یوم خواتین اس لئے یادگار بن گیا کہ سپریم کورٹ نے ایک نومسلمہ ڈاکٹر ہادیہ کے راہ کی وہ رکاوٹ دور کردی جو کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے پیدا ہوگئی تھی۔ چنانچہ وہ 9 مارچ کو اپنے شوہر شافعین جہاں کے گھر لوٹ آئی ہے۔ اس خبرسے یقیناً اس اخبار کے بہت سے قارئین کے دل کی کلی کھل اٹھی ہوگی۔ لیکن اس کو ذرا گہری نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عمر کے ساتھ اگرچہ نظر دھندلا جاتی ہے، اعصاب بے قابو ہونے لگتے ہیں مگر مشاہدے، تجربہ اور تجزیہ کی عمر بڑھتی ہے جس میں دنیا زیادہ صاف نظر آنے لگتی ہے۔ نظام قدرت یہ ہے ساتھ ہی ساتھ اس تجربہ سے استفادے کی مہلت کم ہوتی جاتی ہے۔ چنانچہ لازم ہے کہ اپنے تجربات ، مشاہدات، تجزیہ اور مطالعہ کے نتائج کو تحریر میں لے آیا جائے تاکہ دوسروں کے کام آسکے۔ ہمارے علمی ذخیرے کی حیثیت اور افادیت یہی ہے۔ لیکن ٹی وی اور انٹڑنیٹ نے مطالعہ سے بے رغبت کردیا اور ہم علم و دانش کے اس خزانے سے دور ہوتے جاتے ہیں جو ہمارے بزرگوں نے چٹائی پر بیٹھ کر چراغ کی روشنی میں تلک کے قلم اور دوات سے ہمارے لئے محفوظ کیا تھا۔
ہادیہ، جس کا بچپن کا نام اکھیلا ہے ، کیرالہ کے ایک ساحلی قصبہ وائکوم میں پیدا ہوئی۔ وہ ایک سابق فوجی کے ایم اشوکن اور محترمہ پونمّا کی واحد اولاد ہے۔ والد مذہبی مراسم میں یقین نہیں رکھتے۔ لیکن والدہ عام خواتین کی طرح مذہبی مراسم کی پابند ہیں۔ اس قصبہ میں خواتین کا تناسب مردوں کے مقابلے زیادہ ہے۔فی ایک ہزار مرد، خواتین کی تعداد 1055 ہے ۔ خواندگی کی عام شرح 97 فیصد اور خواتین کی 96 فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا عورتوں کی حالت بعض ترقی یافتہ ریاستوں سے بہتر ہے۔ مثلاً ہریانہ، جہاں فی ہزار لڑکوں کے مقابلہ لڑکیوں کی تعداد 914 ہے۔ اس میں اب کچھ اضافہ ہوا ہے۔ عام شرح خواند گی77 فیصد اور لڑکیوں کی 66 فیصد ہے۔ لڑکیوں کے حق میں ماحول ایسا کہ پسند سے شادی کا مطلب ہے موت کو دعوت دینا۔
ان کوائف سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اکھیلا نے جس ماحول میں پرورش پائی اس میں لڑکیوں کا گلا نہیں گھونٹا جاتا۔ بارہویں پاس کرنے کے بعد اس کو سالیم (تمل ناڈو) کے ’سِواراج ہومیوپیتھی ڈگری کالج‘ میں داخلہ مل گیا۔ یہاں دومسلم لڑکیاں فسینا اور جسینا اس کے رابطے میں آئیں۔ کالج میں لڑکیاں تو اور بھی بہت سی تھیں مگر اکھیلا کو ان کے اخلاق و کردار میں اور نماز کی پابندی میں خاص کشش نظر آئی۔ اس کے اندر فطری طورسے تجسس پیدا ہوا اور اسلام کے بارے میں پڑھنا شروع کیا۔ انٹرنیٹ پر بہت سے ویڈیو دیکھے۔ اکھیلا کو ان اجنبی لڑکیوں کے کردار میں اسلام زندہ چلتا پھرتا نظر آیا اور پھرایک دن اللہ نے اس کے دل کو ہدایت سے روشن کردیا۔ وہ خاموشی سے پنچ وقتہ نماز پڑھنے لگی۔ نظریہ بدلا تو لباس بھی بدلا۔ تین سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ 2015 میں اس نے قبول اسلام کا باقاعدہ اعلان کرنے کی ٹھانی اور ہادیہ نام پسند کیا۔
نومبر 2015 میں دادا کی وفات پر وہ گھر آئی مگر وفات کے بعد کی مذہبی مراسم میں شرکت سے انکار کردیا۔ والدین کو بڑا عجیب لگا۔ لیکن ان کو جھٹکا تب لگاجب بیٹی کو نماز پڑھتے دیکھا۔ ماں تو مذہبی تھی، اس کا بیچین ہونا لازم تھا۔ اس نے بیٹی کو سمجھانا چاہا تو الٹا بیٹی نے ہی اس کے سامنے اسلام کی حقانیت پیش کردی۔ مذبذب پونما نے ذکر شوہر سے کیا اور وہ ملحد اور ادھرمی ہونے کے باوجود بھڑک اٹھے۔ نماز سے سختی سے روکا۔ اکھیلا کے لئے گھر میں وقت گزارنا دشوار ہوگیا۔ چنانچہ 2 جنوری کو وہ خاموشی سے گھر سے نکلی اور اپنی دوست لڑکیوں کے گھر مالا پورم پہنچ گئی۔ یہ گھرکسی اور کا نہیں پوپلر فرنٹ آف انڈیا کے قائد ای ابوبکر کا ہے۔
مسٹر ابوبکر کو ان حالات کا علم ہوا تو کئی دینی تعلیمی اداروں سے رابطہ کیا مگر داخلہ نہیں ملا۔ البتہ ستیہ سرنی (مرکزالہدایہ) میں ایک مختصر مدتی دینی تعلیمی و تربیتی کورس میں داخلہ مل گیا۔ ہاسٹل میں جگہ نہیں ملی تو اسی ادارہ کی ایما پر وہ اے ایس زینب (A.S.Zainaba) کے گھر قیام کا بندوبست ہوگیا۔ وہ پی ایف آئی کے خواتین ونگ کی سربراہ ہیں۔
گھر سے چلے جانے کے چار دن بعد 6جنوری 2016 کو اس کے والد نے مسٹر ابوبکر اور ان کی دونوں بیٹیوں کے خلاف پولیس میں کیس درج کرادیا اور ہائی کورٹ میں حبس بیجا کی عرضی لگائی۔ کئی سماعتوں کے بعد جب عدالت کو یہ اطمینان ہوگیا کہ اس کے ساتھ کوئی جبر نہیں ہوا۔ وہ اپنی خوشی سے گھر چھوڑ کر گئی اور اب زینب کے گھر رہ رہی ہے تو عدالت نے اس پر کوئی سختی نہیں کی اور کیس خارج کردیا۔
اگست 2016 میں اشوکن نے دوبارہ ہائی کورٹ میں عرضی گزاری اور اندیشہ ظاہر کیا کہ اس کی بیٹی کو آئی ایس آئی میں بھرتی کے لئے شام بھیجا جاسکتا ہے۔اس نے مرکزالہدایہ اور زینب پر جبری تبدیلی مذہب کا الزام لگایا۔ چنانچہ ستمبر میں عدالت نے ہادیہ کو ہاسٹل میں رہنے کا حکم دیا،جس کی اس نے تعمیل کی۔19دسمبر 2016 کو وہ عدالت میں حاضر ہوئی اور بتایا کہ اس کے پاس پاسپورٹ ہی نہیں۔ بیرون ملک جانے کا سوال نہیں۔ ہاسٹل میں رہنے کا حکم زیادتی ہے۔ عدالت کا رخ اس کے ساتھ بڑا ہمدردانہ تھا۔ اسے پھر زینب کے ساتھ رہنے کی اجازت دیدی۔ لیکن پوچھا کہ اس کا خرچ کیسے چلتا ہے تو بتایا 20 ہزار روپیہ ماہانہ وظیفہ ملتا ہے۔ چنانچہ عدالت نے کہاکہ اسے اپنا میڈیکل انٹرنس شپ پورا کرلینا چاہئے تاکہ مطب کرسکے۔ ہادیہ راضی ہوگئی۔ عدالت نے اشوکن سے کہا کہ وہ 21دسمبر کو اس کے جملہ سرٹی فکیٹ وغیرہ لیکر آئیں، تاکہ اس کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہوسکے۔
لیکن دو ہی دن بعد جب ہادیہ 21 دسمبر کو عدالت میں آئی تو اس کے وکیل نے ایک غلطی کردی۔ ہادیہ کے ساتھ ایک اجنبی شخص کو لے آیا اور عدالت کو بتایا کہ یہ شافعین جہاں ہے جس سے 19 دسمبر کو زینب کے مکان پر ہادیہ کا نکاح ہوگیا ہے۔ یہ اطلاع عدالت کو شاق گزری اور پوچھا 19دسمبر کو عدالت کو اس ارادے سے مطلع کیوں نہیں کیا تھا؟ چنانچہ اشوکن کے اس الزام کو تقویت پہنچی کہ اکھیلا ہادیہ کو بیرون ملک بھیجنے کی سازش ہو رہی ہے۔ چنانچہ عدالت نے بہت سے سوال کئے۔ پولیس سے زینب اور شافعین کے بارے میں رپورٹ طلب کی جن سے اشوکن کے موقف کو تقویت ملی اور آخر مئی 2017 میں نکاح کو فراڈ قرار دیتے ہوئے کالعدم کردیا اور لڑکی کو اس کے والد کے حوالے کردیا۔
اس کیس میں یہ موڑ نہ آتا اگرہادیہ کے نکاح میں عجلت نہ کی جاتی یا اس کا وکیل عین آخری موقع پر شافعین کو عدالت میں نہ لاکھڑا کردیتا۔ شروع سے آخر تک پوپلر فرنٹ کے ذمہ داران ہادیہ کی پشت پر رہے۔ حکمت عملی کی یہ چوک بظاہر ان سے ہی ہوئی۔ تاہم کسی کی نیت پر شک کرنا یا عدالت کے لئے مذہبی تعصب کا زاویہ جوڑنا سخت زیادتی ہے۔ ایک بار اکھیلا جماعت اسلامی کے دفتر بھی گئی تھی۔ اس کو مشورہ دیا گیا کہ والدین سے رابطہ میں رہے۔ دینی کتب کا مطالعہ کرتی رہے۔ خود نماز کی پابندی کرے لیکن اعلان میں جلد بازی نہ کرے۔ مگر جب جوش زیادہ ہوتا ہے تو ہوش مندی کی باتیں کم سمجھ میں آتی ہیں۔ جماعت کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ جب کوئی نوجوان اسلام کی طرف راغب ہوتا ہے تو اس کو ایسے اقدام سے روکتی ہے جس سے خاندان سے اس کا رابطہ کٹ جائے۔ تجربہ شاہد ہے کہ یہ تدبیر پورے خاندان کو دعوت اسلام دینے میں کارگر ثابت ہوئی ہے۔
نکاح منسوخ ہونے کے بعد چھ ماہ تک ہادیہ نے اپنے ہی گھر میں ایسی زندگی گزاری جیسے قیدِ تنہائی۔ نہ کسی سے ملاقات کی اجازت، نہ فون پر بات کرنے کی۔ گھرپر پولیس کا پہرہ۔ اندر فوجی باپ کی سخت نگاہ۔ لیکن اس عذاب سے گزر کر ہادیہ مضبوط ہوئی۔ ڈگمگائی نہیں۔ نومبر 2017 میں جب شافعین کی عرضی پر معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا تو اشوکن کے وکیل کی اس شکایت پر کہ غیرمسلم لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرانے کی ایک سازشی مہم چلائی جا رہی ہے اور اکھیلا اسی کی شکار ہوئی ہے، جس کی بنا پر ہائی کورٹ نے نکاح کو منسوخ کیا، سپریم کورٹ نے این ائی اے کو اس شکایت کی جانچ کا حکم دے دیا۔ لیکن پہلے ہی دن سے اس کایہ موقف رہا کہ کسی بھی حوالے سے بالغ جوڑے کی اپنی پسند کی شادی پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ جب سپریم کورٹ کی ہدایت پر ہادیہ کو 27 نومبر2017 کو خانہ قید سے نکال کر پولیس کی نگرانی میں سپریم کورٹ لایا گیا تو جس طرح اطمینان کے ساتھ اس 24 سالہ لڑکی نے کہاکہ میں نے اپنی سمجھ سے مذہب تبدیل کیا ہے۔ میں اس قید سے آزادی چاہتی ہوں اور اپنے شوہر شافعین کے پاس جانا چاہتی ہوں۔ میرے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کی گئی۔ شادی میں لوجہاد کا زاویہ جوڑنا غلط ہے ، تب عدالت نے اشوکن کے وکیل سے پھر پوچھا کہ کیا ایک بالغ لڑکی کی اپنی مرضی سے کی ہوئی شادی پر سوال کیا جا سکتا ہے۔ اور ہادیہ کو اس کے گھر کے بجائے کالج بھیج دیا۔
شافعین کے خلاف جانچ میں اب تک یہ الزام سامنے آیا ہے کہ وہ ایس ڈی پی آئی کے ایک وہاٹس ایپ گروپ ’تھانل ‘ کا ممبر رہا ہے۔ اس گروپ کے ایک ممبر بلاقی کو این ای آئی نے ایس آئی ایس سے رابطہ کے شک پر پکڑا تھا، مگر پھر پاک صاف چھوڑ دیا۔ اور یہ کہ اس کے خلاف ایک پولیس کیس بھی ہے۔ لیکن یہ کوئی جرم تونہیں ہوا۔ وہاٹس گروپ میں بغیر اجازت اور اطلاع کسی کا نام شامل کیا جاسکتا ہے۔ گروپ میں اگر کوئی گناہ گار ممبر ہے تواس کا بارکسی دوسرے ممبر پر کیسے ڈالا جاسکتا ہے۔ 8 اپریل کو سپریم کورٹ نے این اے آئی کی جانچ کو تو جاری رہنے دیا لیکن نکاح کو کالعدم کرنے کے ہائی کورٹ کے حکم کو خارج کردیا اور ہادیہ کو شوہر کے پاس جانے کی اجازت دےدی۔ یہ یقیناً ایک بالغ لڑکی کے تبدیلی مذہب اور پسند سے شادی کے حق پر مہر ہے۔اب اس کے والد نے بھی کہہ دیا ہے کہ بیٹی کسی بھی مذہب کی پیروی کرے ، ہم اپنی اکلوتی اولاد کو کھونا نہیں چاہتے۔امید ہے کہ مسلمہ ہادیہ والدین کے حقوق کی پامالی سے ہر ممکن گریز کرے گی۔ اسلام نے غیرمسلم والدین کے احترام اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے۔
ہمارے لئے سبق
شادی کے لئے بالغ لڑکی کی منشا اور اجازت کو سب سے پہلے اسلام نے لازم قرار دیا۔ حقوق نسواں کے باب میں یہ ایک انقلابی قدم ہے۔ اسی لئے نکاح میں پہلے لڑکی سے اجازت لی جاتی ہے جس کو ایجاب کہتے ہیں۔ مرد کا قبول کرنا اس کے بعد ہی ہو تا ہے۔ ہندستان کے آئین و قانون نے بالغ لڑکی کے اس اسلامی حق کو عورت کا بنیادی حق تسلیم کیا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اکثر اوقات لڑکی کا رشتہ اس کی منشا جانے بغیر طے کردیا جاتا ہے۔ لڑکی منع کرتی ہے تو جبر ہوتا ہے اور نکاح کے وقت بس ایجاب کی رسم پوری کرلی جاتی ہے۔ لیکن یہ تدبیر اسلام کے روح کے صریحاً خلاف ہے۔ نکاح ایک مذہبی فریضہ اور بابرکت سنت ہے اور اس کومقررہ طریقے سے ہی ادا کیا جانا چاہئے۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ تالیف قلب بڑے بڑے اجتماعات اور لمبی لمبی تقریروں سے نہیں ہوتا۔ ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ دل انسان کا اسلامی کردار و اخلاق سے ہی بدلتا ہے۔ تمام مسلمانوں ، خاص طور سے جن صاحبان کو دعوت و تبلیغ کی خدا نے توفیق دی ہے ، سختی کے ساتھ اپنی زبان اور کردار کی حفاظت کرنی چاہئے۔
تیسری بات ذرا تلخ ہے۔ سوچئے اگر لڑکی مسلم گھرانے کی ہوتی اور لڑکا غیرمسلم تب آپ کو کیسا لگتا؟ اگر دین و ایمان عزیر ہے تو لڑکیوں کی اسلامی ماحول میں تعلیم اور تربیت کو اپنے اوپر لازم کیجئے۔ اگر والدین بے نمازی اور دینی تقاضوں سے بے پروا ہوں اور چڑھتی جوانی میں ان کی اولاد بے راہ ہوجائے تو یہ دوش ان کا نہیں، ہمارا ہے۔ اس کی فکر کیجئے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں)





