جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کے خلاف مرکزی حکومت کی جانب سے عدلیہ میں حلف نامہ داخل، کورٹ میں کوئی وکیل نہ بھیجنے پر جامعہ انتظامیہ کی سخت تنقید

نئی دہلی:21؍مارچ (ملت ٹائمز) مرکزی حکومت نے دہلی ہائی کورٹ میں حلف نامہ داخل کر کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مذہبی اقلیتی کردار کی مخالفت کی ہے۔ حکومت نے نیشنل کمیشن فار مائنارٹی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس (این سی ایم ای آئی) کے اس فیصلے پر نااتفاقی ظاہر کی ہے جس میں این سی ایم ای آئی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو مذہبی اقلیتی ادارہ قرار دیا ہے۔انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس ‘ کی رپورٹ کے مطابق، مودی حکومت کی طرف سے عدالت میں داخل حلف نامہ میں عزیز باشاہ بنام جمہوریہ ہند کے معاملہ (سال 1968) کا حوالہ دیا گیا ہے۔مرکزی حکومت کی دلیل ہے کہ سپریم کورٹ عزیز باشاہ والے معاملہ میں یہ واضح کر چکا ہے کہ جو یونیورسٹی پارلیمانی قانون کے تحت وجود میں آئی ہو اسے اقلیتی ادارہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔
سال 2011 میں گزشتہ کانگریس حکومت کے دور میں اس وقت کے انسانی وسائل کے وزیر کپل سبل نے این سی ایم ای آئی کے فیصلے کی حمایت کی تھی اور عدالت میں حلف نامہ داخل کر کے جامعہ کے اقلیتی کردار کو تسلیم کیا تھا۔اس سلسلے میں جامعہ کی انتظامیہ کا رویہ بھی انتہائی تشویش کا سبب ہے۔ کیوں کہ یونیورسٹی سے جڑے اتنے اہم معاملے میں ادارہ نے اپنا کوئی وکیل عدالت نہیں بھیجا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یونیورسٹی کے تعلق سے جو حلف نامہ پچھلی حکومت نے داخل کیا تھا اس کو عدالت نے رد کر دیا اور موجودہ حکومت کو نیا حلف نامہ داخل کرنے کے لئے کہاگیا ۔آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت ،آل انڈیا ملی کونسل سمیت کئی تنظیموں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اس رویے پرانتہائی حیرت کا بھی اظہار کیا ہے ۔
واضح رہے کہ جامعہ کے اقلیتی کردار پر شروع سے مودی حکومت کی نظر ہے ۔جامعہ کے حوالہ سے مودی حکومت نے گزشتہ 5 مارچ کو حلف نامہ داخل کیا ہے جسے عدالت میں 13 مارچ کو درج کیا گیا۔ حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ بورڈ کے لئے انتخاب ہوتا ہے اور یہ لازمی نہیں کہ اس کا حصہ صرف مسلمان ہی ہوں۔ ایسے حالات میں جامعہ کو اقلیتی ادارہ قرار دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔علاوہ ازیں حلف نامہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جامعہ اقلیتی ادارہ اس لئے بھی نہیں ہے کیونکہ پارلیمانی ایکٹ کے تحت مرکزی حکومت کی طرف سے فنڈ فراہم کیا جاتا ہے۔قابل ذکر ہے کہ سال 2011 میں این سی ایم ای آئی نے کہا تھا کہ جامعہ کا قیام مسلمانوں کی جانب سے ، مسلمانوں کے مفاد میں کیا گیا ہے اور یہ ادارہ اپنی مسلم شناخت نہیں چھوڑ ے گا۔ بعد ازاں جامعہ نے ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی طالب علموں کو ریزرویشن دینے سے انکار کر دیا۔ ساتھ ہی یونیورسٹی کے ہر کورس کی نصف سیٹیں مسلم طالب علموں کے لئے مختص کر دیں۔ مسلم طلبہ کے لئے جہاں 30 فی صد نشستیں مختص کی گئیں وہیں بالترتیب مسلم خواتین اور مسلم پسماندہ طبقہ اور مسلم قبائلیوں کے لئے 10 -10 سیٹیں مختص کر دی گئیں۔
جامعہ کے اس فیصلے کے خلاف عدالت میں 5 عرضیاں داخل کی گئیں جس کے بعد عدالت نے مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا۔ اس وقت کی یو پی اے حکومت کے انسانی وسائل کی ترقی کے وزیر کپیل سیبل نے عدالت میں حلف نامہ داخل کر کے این سی ایم ای آئی کے فیصلے کی حمایت کی۔جامعہ کی تاریخ پر غور کیا جائے تو سال 1920 میں مہاتما گاندھی نے برطانوی حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے لوگوں سے تعلیمی اداروں کے بائیکاٹ کی اپیل کر دی تھی۔ اس پر مسلم قوم پرست رہنماوں نے علی گڑھ میں جامعہ کا قیام کیا۔ بعد ازاں اسے دہلی منتقل کردیا گیا اور ایک رجسٹرڈ تنظیم جامعہ ملیہ اسلامیہ سوسائٹی کے ذریعہ اسے چلایا گیا۔ سال 1962 میں جامعہ کو ڈیمڈ یونیورسٹی کا درجہ فراہم کیا گیا اور 1988 میں اسے مرکزی یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا۔ (بشکریہ قومی آواز)