محمد ضیاء الاسلام
رفع ونزول عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام دلائل قطعیہ سے صاف طور پر ثابت ہے جس پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے او راس بات کا قائل مدعی مسیحیت مرزاغلام احمد قادیانی بھی ہے جیسا کہ اس کی تحریروں سے صاف واضح ہے مگر جب مرزا نے میدان نبوت میں قسمت آزمائی کا ارادہ کیا تو اس نے طرح طرح کی تاویلات فاسدہ اور باطلہ کے ذریعے قرآن و حدیث سے ثابت شدہ دلائل قطعیہ سے انحراف شروع کردیا۔ ہم یہاں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع و نزل کے تعلق سے مرزا کی ان تحریرات کو پیش کرتے ہیں جو خود مرزا کے خلاف دلیل ہوں گی۔مرزا قادیانی کا اقرار اور پھر اس سے انحراف خود اسی کی تحریروں میں ملاحظہ فرمایئے :
آیت کریمہ : ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق (توبہ آیت ۳۳) سے حضرت عےسیٰ علےہ السلام کے نزول دنیا پر استدلال کرتے ہوئے رقم طراز ہے ۔
”یہ آیت جسمانی اور سیایت ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبہ کا ملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔“ (براہےن احمدیہ ، خزائن، جلد: ۱۔ ص: ۳۹۵)
یہ آیت اگر چہ رفع ونزول عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق نہیں لیکن مرزا قادیانی نے چونکہ اس کو اسی ضمن میں پیش کیا ہے ا س لیے ہم نے اس پر الزام قائم کرنے کے لیے لکھا ہے ۔چنانچہ مرزا کے اقرار کو مانیں تو اس سے صاف معلوم ہوگیا کہ یہ آیت رفع ونزول کی دلیل ہے کیونکہ نزول اسی وقت ہوگا جب کہ پہلے سے رفع ثابت ہوچکا ہو۔
اسی طرح مرزا قادیانی دوسری جگہ ” عسیٰ ربکم ان یرحمکم ، وان عدتم عدنا (بنی اسرائیل، آیت:۸) کے تحت رقم طراز ہے ۔یہ آیت بھی گرچہ ہمارے نزدیک چنداں اس مسئلے میں مفید نہیں مگر چونکہ مخالف کا اقرار مستقل دلےل ہوتی ہے خواہ وہ کسی بھی ضمن میں ہو اورمرزا نے اسے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نزول پر استدلال کیا ہے لہٰذا مرزا کی استدلالی تحریرملاحظہ کیجیے :
”جب خدا تعالیٰ مجر میں کے لئے شدّت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا او ر حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دینا پر اتریں گے او رتمام راہوں اور سڑکوں کو خس وخاساک سے صاف کردیں گے“۔ (براہین احمدیہ خزائن: جلد: ۱/۱۰۶- ۲۰۶)
مرزائیوں کی بوکھلاہٹ! عبارت مذکورہ سے مرزائیوں کی بوکھلاہٹ ایک فطری امر ہے آخر کار تھک ہار کر کہتے ہیں یہ باتیں مرزاقادیانی نے محض رسمی طور پر لکھی ہیں مگر یہ سب تاویلات بے سود ہوں گے۔ کیونکہ بقول مرزاقادیانی ، براہین احمدیہ نامی کتاب، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہاتھوں میں پہنچ چکی ہے۔ اور مرزا نے آپ صلی اللہ علےہ وسلم کو اس کا نام قطبی بتایا ہے کہ وہ کتاب قطب ستارہ کی طرح مستحکم اورغیر متزلزل ہے۔ اس لئے اس میں جو بات بھی مرزا نے لکھی ہوگی وہ مستحکم ہوگی اور کوئی بھی تاویل چلنے والی نہیں ہے۔
اسی طرح مرزا نے رفع ونزول کا عقیدہ اس کتاب میں لکھا ہے جو بغرضِ اصلاح وتجدید دین لکھی تھی جب کہ مرزا قادیانی اس وقت بزعم خود مجدد اورمامور من اللہ اور ملہم بن چکا تھا اور مجدد کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے ’:
’وہ مشکل وقت میں روح القدس سے سکھلائے جاتے ہیں“ (فتح اسلام حاشیہ خزائن جلد ۳/۷) اور اسے علم لدنیہ اور آیات سماویہ عطا کی جاتی ہیں۔ (ازالہ اوہام، خزائن جلد ۳/۹۷۱)
جب اس کتاب کی یہ خوبی ہے اور مرزاقادیانی اس قدر عظیم منصب پر فائز ہے تو اس میں رسمی عقیدہ اور غلط بات لکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا ہے۔
مرزائی اعترفات کے علاوہ بھی آپ غور کریںگے تو بہت سے دلائل قرآن مجید سے آپ کو ملیں گے ۔ ان میں چند ایک پیش خدمت ہیں۔
پہلی دلیل : آیت: ومکروا ومکراللّٰہ واللّٰہ خیرا الماکرین (ال عمران ۴۵) یہودبے بہبود نے قتل کی سازش رچائی جس کو اللہ تعالیٰ نے مکروا کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی تدبیر کو ان کی تدبیر سے بہتر قرار دیا۔ چنانچہ منافق دھوکہ باز یہودا جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حواریوں میں تھا آپؑ کو پکڑوانے کے لئے مکان میں داخل ہوا، اللہ تعالیٰ اسے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی شکل میں تبدیل کردیا اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اپنی کمال قدرت سے آسمان پر اٹھالیا، یہی وہ تفسیر ہے جو تمام قابل اعتبار مفسرین نے کی ہے ۔ اس کے خلاف کوئی تفسیر پیش نہیں کی جاسکتی ہے۔
دوسری دلیل! اذقال اللّٰہ یعیسیٰ إنی متوفیک (الایة آل عمران ۵۵)
آیت مذکورہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام سے چار وعدے فرمائیں ہیں جو یہودیوں کی من گھڑت افسانوں کو بالکل باطل کردیتی ہیں (۱) اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ میں تجھے وفات دوں گا یعنی یہودی ابھی اپنے ناپاک منصوبے میں کامیاب نہیں ہوں گے ان کے ناپاک ہاتھوں سے تجھے موت نہیں آئے گی (۲) اس وقت تجھے اپنی طرف اٹھا لوں گا، (۳) کفار یعنی یہود سے تجھے پاک کروں گا (۴) تیرے متبعین کوتیرے دشمنوں پر قیامت تک غالب رکھوں گا، یہ چار وعدے اس وقت کئے گئے جب یہود آپؑ کو قتل کرنے کا مکمل منصوبہ بنا چکے تھے۔ یہاں رافعک ال ¸ّ سے تمام مفسرین ومجددین نے رفع جسمانی مراد لیا ہے، ۰۰۳۱ھ میں کوئی ایسا مفسر پیش نہیں کیا جا سکتا ہے جس نے اس سے رفع درجا ت یا پھر رفع روحانی مراد لیا ہو۔
تیسری دلیل! وماقتلوہ یقینا لابل رفعہ اللّٰہ الیہ (النساء۷۵۱،۸۵۱)
آیت مذکورہ کا ترجمہ بھی (حکیم نورالدین جانشین اول مرزاقادیانی) نے یہی کیا ہے؛ ”بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھالیا“ (فصل الخطاب برحاشیہ ص ۴۱۳)
مرزائی یہاں پر ایک اعتراض کرتے ہیں کہ بھلا حضرت عیسیٰ علیہ السلام انسان ہوتے ہوئے آسمان پر کیسے جاسکتے ہیں، آسمان زمین کے بیچ کئی ، ”ناری کرے “ ہیں جن سے گزرنے کی تاب انسان نہیں رکھتا۔
جواب! مرزا غلام احمد قادیانی کے قلم سے :
”بل حیاة کلیم اﷲ ثابت بنص القرآن الکریم……..حیاة موسیٰ علیہ السلام؛ لانہ لقی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم والاموات لایلاقون الاحیائ، ولا تجد مثل ہٰذہ الآیات فی شأن عیسیٰ علیہ السلام؛ نعم جاءذکر وفاتہ فی مقامات شتی۔“ (حمامة البشریٰ خزائن جلد۷/۱۲۲)
حضرت عیسٰی ٰ علیہ السلام ناری کروں سے گذر کر آسمان پر ایسے چلے گئے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام چلے گئے۔ اور جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں ویسے ہی حضرت عیسی علیہ السلام بھی زندہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ قانون فطرت کے خلاف بھی کام کرتے ہیں یہ بات مرزا صاحب کے یہاں بھی مسلم ہے اگر مرزائی اس بات سے انکار کرتے ہیں تو پہلے یہ اعلان کریں کہ مرزا قادیانی نے مذکورہ حوالوں میں یکے بعد دیگر کئی جھوٹ بولے ہیں۔
الجھا ہے پاو ¿ں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
چوتھی دلیل: وکان اللّٰہ عزیز حکیماً (النساء۸۵۱)
مذکورہ دونوں صفات سے معلوم ہوا کہ اس سے رفع روحانی ےا رفع درجات نہےں ہے؛ کےوں کہ روح لطیف چےز ہے، جس کا رفع کوئی امر محال نہےں ہے، جو کہنے کی ضرورت ہو، کہ اللہ تعالیٰ بڑے زور والے ہےں۔
پانچویں دلیل! وان من اہل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ (نساء۹۵۱)
آیت بالا میں ”بہٰ“ اور ”موتہ“ دونوں ضمیروں کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں، یہ بات اس کی صریح دلیل ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ابھی تک فوت نہیں ہوئے، تمام مفسرین نے آیت کا یہی معنی بیان فرمایا ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ کی مشہور حدیث ”لَیُو شِکَنَّ ا ¿ن یَن ´زِلَ فِی ´کُم ´“ الخ۔ حدیث پاک بیان کرنے کے بعد یہ آیت مذکورہ بالا کو بطور استشہاد پیش فرمایا ہے۔
اس لئے یہ تفصیل بھی براہ راست مرفوع حدیث کا حکم رکھتی ہے، اب مرزائی ہزار تاویل کریں سب بے سود ثابت ہوں گی، علاوہ ازیں خود حکیم نورالدین بھیروی نے بھی اپنی کتاب فصل الخطاب (جو مرزا غلام احمد کی توثیق کردہ ہے) قبل موتہ کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قرار دیا ہے ۔
چھٹی دلیل! وانہ لعلم للساعة فلاتمترن بہا (زخرف: ۱۶)
آیت بالا کو حضرت ملاعلی قاریؒ نے شرح فقہ اکبر میں نزول عیسٰی علیہ السلام کے اثبات کے لئے مستدل بنا یا ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ مرزا غلام احمد نے بھی اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح، خزائن جلد ۹۱/ ص ۰۳۱/ پر حضرت عیسیؑ کے نزول کی تائید میں ہی تحریر لکھی ہے یہ من گھڑت تفسیر ہونے کے باوجود اس مقام پر اصح بات ہی لکھی گئی۔ ان الکذوب قدیصدقہ۔
ساتویں دلیل! اللہ رب العالمین نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اپنے انعامات شمار کراتے ہوئے ارشاد فرمایا ”ویکلم الناس فی المہدی وکہلاً“ (آل عمرن: آیت:۶۴) اس آیت شریفہ میں دوباتوں کا ذکر ہے (۱) بحالت طفولیت جھولے (مہد) میں باتیں کریں گے جس کی تفصیل سورہ مریم کے دوسرے رکوع میں موجود ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ عالم کہولت یعنی ادھیڑ عمر میں تکلم فرمائیں گے، اور یہ بات مسلم ہے کہ واقعہ صلیب کا فسانہ ہو، یہودیوں کے مطابق رفع سماوی کی حقیقت ہو قرآن کے مطابق زمانہ کہولت شروع ہی نہیں ہوا تھا اور یہ ہوہی نہیں سکتا کہ ارشادربانی غلط یا پھر خلاف حقیقت ہو۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے اور زمانہ کہولت میں بھی حسب تصریح قرآن کریم، تکلم فرمائیں گے۔
آٹھویں دلیل! واذکففت بنی اسرآئیل عنک (مائدہ: ۰۱۱)
یہ آیت بھی حضرت عیسی علیہ السلام پر اظہار احسانات سے متعلق ہے، دشمنان حضرت عیسیؑ پر حفاظت خداوندی کے سبب دست درازی نہ کرسکے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو دشمنوں کی دسترس سے محفوظ رکھا اور ایسی جگہ اٹھا لیا جہاں دشمن پہنچ ہی نہیں سکتے۔ یعنی آسمان پر رفع فرمالیا۔
اگر ہم اس جگہ مرزا غلام کی بات کو تسلیم کرتے ہیں تو احسان خدواندی کیسا؟ اگر تازیا نہ لگانا اور اتنا مارنا کہ پسلی ٹوٹ گئی، کانٹوں کا تاج پہنانا، تا آنکہ سولی چڑھادیا گیا۔ نعوذ باللّٰہ من ذالک۔
نویں دلیل! واذعلمتک الکتاب والحکمة والتوریة والانجیل (مائدہ ۰۱۱)
قرآن مقدس کے محاورہ کے مطابق جب کتا ب کے ساتھ حکمت آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مراد ہوتی ہے، مذکورہ آیت میں قرآن سکھائے جانے کی نعمت بیان کی گئی ہے جو اس بات پر دال ہے کہ حضرت عےسیٰ علےہ السلام کے آمد سے قبل قرآن مقدس نازل ہوچکا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ کسی نبی کو قرآن کی تعلیم نہیں دی گئی علاوہ حضرت عےسیٰ علےہ السلام کے اور حضرت محمد مصطفیﷺ کے بعد اب کسی نبی کی بعثت ثانی ہونی ہی نہیں علاوہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے۔
ایک شبہ کا ازالہ! حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ خود ہی قرآن وحدیث کی تعلیم دیکر دنیا میں بھیجیں گے جیسا کہ تورات انجیل ان کو سکھائی گئی تھی۔
اب کسی مرزائی کویہ کہنے کی جرأت نہیں ہونی چاہئے کہ کیا حضرت عیسٰی علیہ السلام دنیا میں آکر کسی مدرسہ میں داخل ہوکر قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کریں گے، یاد رہے حضرت کسی فضل الٰہی سے نہیں بلکہ الٰہی فضل سے پڑھیں گے۔
(مضمون نگار شعبہ تحفظ ختم نبوت دار العلوم دےوبند میں ریسرچ اسکالر ہیں)





