دلتوں اور مسلمانوں کے درمیان بنیادی فرق

خبر درخبر ۔(554)
شمس تبریز قاسمی
ایس سی۔ایس ٹی ایکٹ میں تبدیلی کے خلاف تمام دلت ایک ہوکر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں، جودلت سرکاری ملازمت میں ہیں، اعلی عہدوں پر فائزہیں یاکسی اور شعبہ میں ہیں سبھی چھٹیاں لیکر اس بھارت بند کی حمایت میں پیش پیش ہیں،کہیں سے کوئی مخالفت کی آواز اب تک سننے کو نہیں ملی ہے۔آسام سے لیکر گجرات اور کشمیر سے لیکر کنیا کماری تک دلتوں کا پرتشدد احتجاج جاری ہے ، حکومت بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوچکی ہے ،سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی پٹیشن دائر کردی گئی ہے ، کانگریس اور دیگر علاقائی پارٹیاں بھی دلتوں کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہیں ،احتجاج میں شریک ہیں،مسلم جماعتوں میں پاپولر فرنٹ آف انڈیابھی اس کی حمایت کرہی ہے جو قابل ستائش ہے ۔حالاں کہ معاملہ ایس سی ۔ایس ٹی ایکٹ کے غلط استعمال کا ہے ،وقار کے نام پر قانون کے غلط استعمال سے روکنے کی کوشش ہے ،اسی کے پیش نظر سپریم کورٹ نے اس ایکٹ میں تبدیلی کے فیصلہ پر مہر لگائی ہے ۔
دوسری طرف مسلمانوں کا معاملہ ہے جن کے یہاں اتحاد کا ایسا مظاہرہ شاذ ونادر ہی دیکھنے کو ملتاہے ،کوئی بھی تنظیم کوئی تحریک چلانے کا فیصلہ کرتی ہے تو دوسری تنظیم اس کی مخالفت میں آجاتی ہے۔حالیہ دنوں میں ہندوستانی مسلمانوں کے باوقار مشترکہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی ہدایت پر ملک بھر میں مسلم خواتین مسلم وویمن پروٹیکشن آف رائٹس آن میرج بل(طلاق بل) کی مخالفت میں سڑکوں پر اتررہی ہیں ،پورے ملک میںبیداری کی ایک مثبت لہر دیکھی جارہی ہے۔حکومت پر بھی دبا ﺅ بڑھتاجارہاہے،قومی میڈیا میں یہ احتجاج موضوع بحث ہے ۔عالمی میڈیا میں بھی خواتین کے ہونے والے احتجاج کاتذکر ہ ہے ۔اس احتجاج کا ملک بھر میں ہنگامہ ہے ،لاکھوں کی تعداد میں خواتین شریک ہورہی ہیں ،اب تک 150 سے زائد شہروں میں خواتین کا چھوٹا بڑا مظاہر ہ ہوچکاہے ۔اس کاایک اہم فائدہ یہ بھی ہواہے کہ مسلم خواتین میں بیداری آئی ہے ۔یہ ثابت ہوگیاہے کہ ضرورت پڑنے تحفظ شریعت ،شعائر اسلام کی بقااور اپنے حقوق کے مطالبہ کیلئے لاکھوں خواتین اپنے گھروں سے سڑکوں پر نکل سکتی ہیں ۔
لیکن المیہ ہے کہ بورڈ کی ہدایت پر ہونے والے اس احتجاج کے خلاف بھی کچھ لوگ سرگرم ہیں۔کچھ مسلم اسکالرس کھلے عام اس کی مخالفت کررہے ہیں ، کچھ لوگ اس بات پر بحث کررہے ہیں کہ شرعی اعتبار سے خواتین کا اپنے حقوق کیلئے باہر نکلنا درست ہے یانہیں ، کچھ علماءمختلف دارالافتاءسے فتاوی طلب کررہے ہیں، کچھ سوشل میڈیا پر اس کے خلاف مہم چلارہے ہیں۔تو کچھ لوگ تائید اور حمایت کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔فیس بک پر اختلاف کرنے والے کچھ ایسے احباب کو بھی میں جانتاہوںجو اپنی رفیقہ حیات کے ساتھ چھٹی کے دنوں میں پارک کی سیر کرتے ہیں ،ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر مارکیٹ میں گھومتے ہوئے نظر آتے ہیں، بیگم کے ساتھ بغیر کسی حجاب کے عوامی مقامات پرجاتے ہیں لیکن باپردہ خاموش احتجاج کے سلسلے میں وہ شریعت اور پردہ کی دہائی دے رہے ہیں ۔
دلتوں اور مسلمانوں کے درمیان یہی بنیادی فرق ہے کہ دلت نتائج کی پرواہ کئے بغیر اتحاد کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ مسلمان متحدہوکر تحریک کا حصہ بننے کے بجائے یہ سوچ رہے ہیں کہ اس طرح کے احتجاج کا کیا فائدہ ہوگا، کیا انہیں حقوق مل جائیں گے ،طلاق بل مودی سرکار واپس لے لے گی ۔کچھ تو ایسے بھی ہیں جن کے پاس اس بل کو روکنے کا کوئی لائحہ عمل بھی نہیں ہے اور پرزور انداز میں مخالفت بھی کررہے ہیں ۔ حالاںکہ اتحاد واتفاق کے اسباب ونکات مسلمانوں سے زیادہ کسی اور قوم کے پاس نہیں ہے ۔