وہ آدھی دنیا کا حکمراں تھا

عائشہ صدیقی
یہ ماہ رجب المرجب وہ مبارک مہینہ ہےجس میں نبی پاک ﷺ کو ایک عظیم سفر کرنا پڑا جسے سفر معراج کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس ماہ رجب کو جلیل القدر صحابی رسول حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے نور نظر، مشیر خاص ، بے شمار خوبیوں، محاسن اور کمالات کے مالک تھے۔ رسول للہ کے سارے صحابہؓ افضل و اعلی ہیں۔ صحابی رسول کی عظمت و رفعت کو جاننے کے لیے کسی تاریخ اور روایت کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے کردار کو جانچنے کے لیے اللہ کا قرآن اور رسول اللہ کا فرمان کافی ہے۔
جناب رسول اللہ کا فرمان ہے
ترجمہ: “کہ جس نے ایمان کی حالت میں مجھے دیکھ لیا میرا صحابی بن گیا جہنم کی آگ اس کو نہیں مس (چھو ) سکتی (الترمذی شریف )
اور یہ بھی دیکھئے کہ جب آقا کا دیدار ایمانی حالت میں کیا تو حق تعالیٰ نے فرمایا کہ رضی اللہ عنھم و رضو عنہ ۔ صحابہؓ مجھ سے راضی ہیں اور میں ان (صحابہؓ) سے راضی ہوں۔ (پارہ ۰۳سورة البینہ)
جب اللہ اور اس کے رسول اصحابِ محمد سے راضی ہیں تو کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اصحاب کی شان میں گستاخی کرے۔ یا اپنے دل میں اصحاب کا بغض رکھے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھی وہی مرتبہ و مقام ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے صحابہ کرام کے بارے میں بیان کیا ہے۔ آئیے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرز زندگی اور فضائل و مناقب پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ عرب کے مشہور قبیلے قریش کے نامور خاندان بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد محترم ابو سفیان جو اسلام لانے سے قبل ہی اپنے خاندان میں امتیازی حیثیت کے حامل تھے۔ آپ کی ولادت بعث نبوی سے پانچ سال پہلے ہوئی۔ آپ سیرت اور صورت، اعمال و کردار میں حسن جمال کا پیکر تھے۔ عاجزی و انکساری اور خوش اخلاقی رچی بسی تھی ۔ بچپن ہی سے آپ دوسرے بچوں سے مختلف اور ممتاز دیکھائی دیتے تھے۔
قیافہ شناس کی نظر حضرت امیر معاویہؓ پر
ایک مرتبہ عرب کے مشہور قیافہ شناس کی جب آپ پر نظر پڑھی تو بے اختیار بول پڑا یہ بچہ عرب کے رﺅوسا میں نظر آتا ہے۔ نوعمری میں ہونہاری اور ذہانت دیکھ کر والد نے کہا میرا بیٹا قوم کا سردار بنے گا تو والدہ کہنے لگی کہ یہ قوم کا نہیں بلکہ پورے عرب کا سردار بنے گا۔ قدرت ایک طرف کھڑی اس بحث پر مسکرارہی ہے۔ ایک قوم کا سردار بنا رہا ہے اور ایک پورے عرب کا ۔ حالانکہ تقدیر نے معاویہ ؓ کو عرب و عجم کا سردار آدھی دنیا کا حکمراں اور بحر و بر کا فاتح لکھ دیا ہے۔
اے معاویہ! تجھے بادشاہت و حکمرانی ملے گی
آپ صلح حدیبیہ کے بعد دولت ایمان سے فیضیاب ہوئے ۔لیکن کچھ مجبوریوں کی بنا پر اسلام کو پوشیدہ رکھا اور فتح مکہ کے موقع پر اسلام لانے کا اعلان کردیا اور نبی کی خدمت کا بھرپور فائدہ حاصل کیا۔آپ نبی کریم ﷺکے خادم خاص رہے۔
سیدنا امیر معاویہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے مجھ سے فرمایا اے معاویہ! تجھے بادشاہت اور حکمرانی ملے گی تو تم اللہ سے ڈرتے رہنا۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ۰۲سال سرزمین شام کے امیر رہے اور ۰۲ سال خلافت کا دورانیہ رہا ۔
نبی کریم ﷺ سے لیکر آج تک جتنے بھی مسلمان حکمران گزرے ان میں سب سے بڑا خلافتی دورانیہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا تھا۔ جس میں ۴۶لاکھ ۵۶ہزار مربع میل پر اسلامی پرچم لہرایا اور شریعت محمدیہ کو نافذ کیا۔
وہ آدھی دنیا کا حکمران تھا وہ حکمران بھی مگر کہاں تھا
بپھرتی موجوں پہ حق پرستی کی سادہ کشتی کا بادباں تھا
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بے شمار فضائل ومناقب کے حامل ہیں ۔
حضور ﷺ کی دعائیں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب کاتب وحی مقرر کیا تو ان کے حق میں آپﷺ نے یوں دعا فرمائی “اللھم اجعلہ ھادیا مھدیا”
اے اللہ !معاویہ کو ہادی مھدی بنا دیجیے۔(ترمذی شریف)
اور یہ دعا بھی فرمائی ۔ترجمہ: اے اللہ !معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم عطا کیجیے اور عذاب سے بچا لیجیے
کاتبین وحی میں شمار
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ وہ جلیل القدر صحابی ہیں جن کا شمار کاتبین وحی میں ہوتا ہے۔ کاتبین وحی کل ۳۱ صحابہ کرام ہیں جن میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ چھٹے نمبر پر ہیں۔ انہی صحابہ کرامؓ کے بارے میں اللہ رب العزت نے فرمایا:قران کے صفحے بڑے پاکیزہ اور بزرگی والے ہیں۔ بڑی عظمت والے اور پاکیزگی والے ہیں۔جن ہاتھوں نے قرآن مجید لکھا ہے وہ ہاتھ بڑے چمکنے والے معزز اور نیکوکار ہیں۔ (سورةعبس)
جس دل میں امیر معاویہ کی شان نہیں
سچ تو یہ ہے کہ وہ ملعون مسلمان نہیں
تاریخ سے کیا پوچھتے ہو ان کی صداقت
کیا تمہارے پاس معاویہ ؓ کا لکھا قرآن نہیں
فرمان ِ رسولﷺ۔میرے رازدان معاویہ بن ابی سفیان ہیں
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ کے رازدار تھے۔محب طبری نے “ریاض النصرہ” میں نقل کیا ہے کہ ٓانحضرت ﷺ نے فرمایا:”میری امت میں سب سے ذیادہ رحیم ابوبکر ہیں اور دین کی باتوں میں سب سے زیادہ قوی عمر ہیں اور حیاء میں سب سے زیادہ عثمان ہیں اور علم قضا میں سب سے زیادہ علی ہیںاور ہر نبی کے کچھ حواری ہوتے ہیں میرے حواری طلحہ اور زبیر ہیں اور جہاں کہیں سعد بن ابی وقاص ہوں تو حق انہیں کی طرف ہوگا اور سعید بن زید ان دس آدمیوں میں سے ایک شخص ہیں جو رحمان کو محبوب ہیں اور عبدالرحمن بن عوف رحمن کے تاجروں میں سے ہیں اور ابو عبیدہ بن جراح اللہ اور اسکے رسول کے امین ہیں اور میرے رازدان معاویہ بن ابی سفیان ہیں۔پس جو شخص ان لوگوں سے محبت رکھے گا وہ نجات پائے گا اور جو شخص بغض رکھے گا وہ ہلاک ہوگا۔
سب سے پہلے بحری جہاد کے لشکر کے سپہ سالار
سرور کائنات فخر موجودات ،امام الانبیا ءسرتاج الرسول ،حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ ” میری امت کا سب سے بڑا لشکر جو بحری جہادکرے گا اس کے لئے جنت واجب ہوگی” (بخاری شریف)
بااتفاق محدثین و مورخین سب سے پہلے بحری جہاد کرنے والے لشکر کے قائد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔
حضرت معاویہ ؓ کی نماز
حضرت ابوالدردا ءرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضور ﷺکے بعد آپ سے زیادہ مشابہت رکھنے والی نماز پڑھنے والا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی نہیں دیکھا۔(تطہیر الجنان )
اس جوان کی برائی مت کرو!
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا : قریش کے اس جوان (معاویہ)کی برائی مت کرو. ” من یضحک فی الغضب” جو غصہ کے وقت ہنستا ہے انتہائی بردبار ہے(الاستعاب)
ایک موقع پر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا تم قیصر و کسری اور ان کی حکومت کی تعریف کرتے ہو حالانکہ خود تم میں معاویہ موجود ہے۔
معاویہ فقیہ ہے
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو!معاویہ کی گورنری اور امارت کو تم ناپسند نہ کرو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”انہ فقیہ “یقینا معاویہ رضی اللہ عنہ فقیہ ہیں۔ (البدایہ)
بطور خلیفہ خدمات جلیلہ
1۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دو رخلافت میں فتوحات کا سلسلہ انتہائی برق رفتاری سے جاری رہا اور قلات ، قندھار، قیقان ، مکران ، سیسان ، سمر قند ، ترمذ،شمالی افریقہ ،جزیرہ روڈس ،جزیرہ اروڈ ،کابل ،صقلیہ (سسلی ) سمیت مشرق ومغرب ،شمال وجنوب کا 22 لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ اسلام کے زیر نگیں آگیا ۔ ان فتوحات میں غزوہ قسطنطنیہ ایک اہم مقام رکھتاہے ۔ یہ مسلمانوں کی قسطنطنیہ پر پہلی فوج کشی تھی ، مسلمانوں کا بحری بیڑہ سفیان ازدی رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں روم سے گزر کر قسطنطنیہ پہنچا اور قلعے کا محاصرہ کرلیا ۔
2۔آپ رضی اللہ عنہ نے فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ موسم سرما میں اور دوسرا حصہ موسم گرما میں جہاد کرتا تھا ۔آپ رضی اللہ عنہ نے فوجیوں کا وظیفہ دگنا کردیا ۔ ان کے بچوں کے بھی وظائف مقرر کردئیے نیز ان کے اہل خانہ کا مکمل خیال رکھا ۔
3 ۔مردم شماری کےلئے باقاعدہ محکمہ قائم کیا ۔
4۔ بیت اللہ شریف کی خدمت کےلئے مستقل ملازم رکھے ۔ بیت اللہ پر دیبا وحریر کا خوبصورت غلاف چڑھایا ۔
5 ۔تمام قدیم مساجد کی ازسرنو تعمیر ومرمت ،توسیع وتجدید او رتزئین وآرائش کی ۔
6 ۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سب سے پہلا قامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔
7 ۔نہروں کے نظام کے ذریعے سینکڑوں مربع میل اراضی کو آباد کیا اور زراعت کو خوب ترقی دی ۔
8۔نئے شہر آباد کئے اور نو آبادیاتی نظام متعارف کرایا ۔
9 ۔ خط دیوانی ایجاد کیا اور قوم کو الفاظ کی صورت میں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا۔
10 ۔ڈاک کے نظام کو بہتر بنایا ، اس میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ محکمہ بناکر ملازم مقرر کئے ۔
11 ۔احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔
12 ۔عدلیہ کے نظام میں اصلاحات کیں اور اس کو مزیدترقی دی ۔
13 ۔آپ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا۔
14 ۔آپ نے بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کئے۔
15 ۔سرحدوں کی حفاظت کیلئے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔
16 ۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا۔
17۔مستقل فوج کے علاوہ رضا کاروں کی فوج بنائی ۔
18۔ بحری بیڑے قائم کئے اور بحری فوج (نیوی )کا شعبہ قائم کیا ۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ کا تجدیدی کارنامہ ہے ۔
19۔ جہاز سازی کی صنعت میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ کارخانے قائم کئے۔پہلا کارخانہ 54 ھ میں قائم ہوا ۔
20۔ قلعے بنائے ، فوجی چھاﺅنیاں قائم کیں اور دارالضرب کے نام سے شعبہ قائم کیا ۔
21۔ امن عامہ برقرار رکھنے کےلئے پولیس کے شعبے کو ترقی دی جسے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے قائم کیا تھا ۔
22۔دارالخلافہ دمشق اور تمام صوبوں میں قومی وصوبائی اسمبلی کی طرز پر مجالس شوری قائم کیں ۔
ابو اسحق السبیعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں بلاشبہ وہ مہد ی زماں تھے
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا الوداع
علم وحلم اور تدبر کے سمندر اور لاتعداد صفات سے آراستہ جلیل القدر صحابی رسول 22رجب المرجب 60ھ میں 78 سال کی عمر میں اس فانی دنیا سے الوداع فرماگئے۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور ان کی تدفین دمشق میں ہوئی۔
زہے مقدر معاویہ کو دل وجگر کا سلام پہنچے
امیرعادل کے عہد روشن کا تذکرہ صبح و شام لکھوں
اے بحروبر کے عظیم فاتح، عرب، عجم کے مثالی حاکم
میں سوچتا ہوں کہ کس قلم سے تیراسنہرا نظام لکھوں
اے کاتب وحی حق تعالیٰ اے امت مسلمہ کے ماموں
مرا قلم بھی ادب میں جھکتا ہے جب بھی تیرا نام لکھوں۔
(چوہدری اکرام الحق)
اللہ پاک اصحاب رسول ﷺ کی محبت مرتے دم تک ہمارے دلوں میں قائم و دائم رکھے (آمین یارب العالمین)۔
(یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں )

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں