کتے بلی اور کچھوا و بچھو کی جنگ

ڈاکٹر سلیم خان
بحر و بر میں فساد رونما ہوگیا اور یہ انسانوں کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہے۔ اس قرآنی حقیقت کا اعتراف امیت شاہ نے کر تے ہوئے سارے مخالفین کو جانور قرار دے دیا۔ بی جے پی نے چونکہ ملک میں جنگل راج قائم کر رکھا ہے اس لیے اس کو سارے لوگ جانور نظر آنے لگے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی جماعت ۳۸ ویں سالگرہ کے موقع پر ممبئی کے شمال مغربی علاقہ باندرہ ۔کرلا کمپلکس میں منعقد کیے جانے والے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے امیت شاہ نے کہا کہ ”میں نے سنا ہے کہ جب سیلاب آتا ہے تمام جانور متحد ہوجاتے ہیں، ٹھیک اسی طرح مودی کے سیلاب کا مقابلہ کرنے کے لیے کتے ،بلی ، سانپ اور منگوس بغل گیر ہورہے ہیں۔ امیت جی کو یہ بھی سن لینا چاہیے کہ مودی سیلاب ہو یا گاندھی سیلاب اس سے تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ ۲۰۱۴؁ میں مودی لہر کے سبب آنے والی تباہی کو عوام ابھی تک بھگت رہے ہیں اور ۲۰۱۹؁ میں اس سے نجات حاصل کرنے کے منتظر ہیں ۔
امیت شاہ نے کانگریس کے صدرراہل گاندھی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ راہل گاندھی بی جے پی سے چار سالہ اقتدار کاحساب مانگ رہے ہیں ،لیکن ان کی چار نسلوں نے ملک کے لیے کیا کیا ہے؟ اس کا جواب کیوں نہیں دیتے ؟ دراصل بات یہ ہے کہ مودی جی نے عوام سے کہا تھا آپ نے کانگریس کو ۶۰ سال دیئے تھے مجھے ۶۰ مہینہ دیجئے میں ملک کی کایا پلٹ دوں گا ۔ ان ۶۰ میں ۴۸ مہینے گزر گئے لیکن اس دوران مودی جی خود الٹ پلٹ گئے اس لیے شاہ جی کو چار نسلیں یاد آرہی ہیں ۔ ویسے امیت شاہ اپنی صاف گوئی کے لیے معروف ہیں انہوں نے ۱۵ لاکھ کو انتخابی جملہ بازی کہہ کر ہاتھ جھٹک لیا تھاتو ۶۰ ماہ کی کیا حیثیت وہ تو اسے انتخابی لفاظی کہہ کر مسترد کردیں گے۔
بی جے پی والے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ حزب اختلاف متحد ہورہا ہے حالانکہ خود این ڈی اے میں دودرجن جماعتیں شامل ہیں ۔ امیت شاہ کو یہ بتانا پڑے گا کہ حزب اختلاف کے جنگل میں اگر کتے بلی اور سانپ و منگوس ہیں تو این ڈی اے کے سمندرمیں کون کون سے بچھو اور کچھوے جمع ہیں؟ ویسے اس بحر مردار میں مگرمچھ کون ہے اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں کرتا۔ اس لیے کہ اسے ساری دنیا پردھان سیوک کے نام سے جانتی ہے۔ سمندر کاکچھوا تیلگو دیسم باہر آنے کے لیے کیوں پھڑ پھڑا رہا ہے۔ بچھو یعنی شیوسینا کے ارادے کیوں نیک نہیں ہیں ۔ شارک جیسا کشواہا اور بے ضرر وہیل مچھلی یعنی رام ولاس پاسوان بھی گھٹن محسوس کررہی ہے۔ امیت شاہ کو سوچنا چاہیے کہ خشکی کے جانور قریب آرہے ہیں لیکن تری کے جاندار کیوں دور بھاگ رہے ہیں ؟
امیت شاہ کو یہ بھی بتانا ہوگا وہ خود کس سے خوفزدہ ہوکر یہ اعلان کررہے ہیں کہ ہماری خواہش ہے شیوسینا ہمارے ساتھ مل کر انتخاب لڑے۔ کس کے خوف نے انہیں غدار ڈی این اے کے مالک نتیش کمار کے شرن میں جانے کے لیے مجبور کیا اور میگھالیہ میں وہ کیوں این ڈی اے سے الگ ہوکر اپنے بل بوتے پر انتخاب جیتنے والے سنگما کے تلوے چاٹنے پر مجبور ہوئے؟کشمیر میں محبوبہ مفتی کی ساری گھڑکیوں کے باوجود ان کی جماعت کیوں دم ہلاتی ہے اور اکالیوں کی پھٹکار کیوں برداشت کرتی ہے؟ حزب اختلاف کی جماعتوں کے ذریعہ امیت شاہ پر تنقید بیجا ہے۔ امیت شاہ جیسے وحشی درندے سے اس کے علاوہ کوئی اور توقع کرنا ہی غلط ہے۔
راہل گاندھی کا یہ بیان بھی مناسب نہیں ہے کہ امیت شاہ، بی جے پی اور آر ایس ایس کی نظر میں اس ملک کے اندر صرف دو ہی افراد جانور نہیں ہیں۔ اس لیے کہ بڑے فخر گائے کو اپنی ماں قرار دینے والے سنگھی سانڈ خود کو بھی انسان نہیں سمجھتے ۔ مودی جی اتر پردیش کے انتخابی مہم کے دوران اپنے آپ گدھا کہا جانے پر فخر سے کہا تھا مجھے اس خطاب پر ناز ہے۔ میں اپنے ملک کے لیے گدھے کی طرح کاکام کرتا ہوں ۔ ویسے گدھوں کو اگر اس بیان کا پتہ چل جاتا تو وہ بھی دس لاکھ کوٹ پہن کر دنیا بھر کی سیر کے لیے نکل پڑتےاور ان کا محنت و مشقت والا تشخص ہمیشہ کے لیے خاک میں مل جاتا۔ راہل کی یہ بات درست ہے کہ مکار سیاستدانوں کا معصوم جانوروں سے موازنہ ان بے زبان جانداروں کی توہین ہے اس لیے کہ وہ نہ تردید کرسکتے ہیں اور دفاع بھی نہیں کر سکتے۔ امیت شاہ نے راہل کو ۱۲ صوبوں کی ناکامی تو یاد دلائی لیکن اپنی ۱۲ پارلیمانی حلقوں میں شکست بھول گئے۔
امیت شاہ کی بدکلامی کا سب سے اچھا جواب خود این ڈی اے سرکس میں شامل اور یوگی حکومت کے کابینی وزیر اوم پرکاش راج بھر نے دیا ۔ انہوں کراس ووٹنگ کے نام پر پارٹی کے ارکان اسمبلی کے گھر پر چھاپہ مارنے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میں شیر ہوں ، کتا ،بلی ‘‘نہیں اور میں کسی سے نہیں ڈرتا۔دھمکی دینے سے کام نہیں چلے گا۔ مجھے وزیر کے عہدے اور وزارت کا لالچ نہیں ہے۔ میں نے امیت شاہ سے وزارت نہیں مانگی تھی۔ حکومت کی مخالفت پر راج بھر نے کہا کہ میں حکومت میں رہ کر حکومت کی وہ خامیاں بتار ہا ہوں جس کا اعتراف یوگی اور امیت شاہ بھی کررہے ہیں کہ حکومتی منصوبوں کا فائدہ غریبوں کو براہ راست نہیں پہنچ رہا ۔امیت شاہ کو دوسروں کی دھلائی کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانک کر بھی دیکھنا چاہیے کہ انہیں کون سی گھن کھوکھلا کررہی ہے ورنہ وہ دن دور نہیں جب دھڑام سے یہ دنیا کی سب سے بڑی زمین دوز ہوجائے گی ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں