شام کی لڑائی میں ترکی کہاں کھڑا ہے؟

ڈاکٹر فرقان حمید
مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور شام دو ایسے ممالک ہیں جو روس کے ساتھ بڑی گہری وابستگی قائم کیے ہوئے ہیں۔ دراصل ان دونوں ممالک کی یہ وابستگی ان کی بقا کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ اپنی بقا کی خاطر روس کو اپنا مائی باپ سمجھتےہیں۔ شاہ ایران کے دور میں ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے اتحادی ملک تھے لیکن ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ہی سے ایران اور امریکہ کے تعلقات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے جس کے نتیجے میں ایران امریکہ کی گود سے نکل کر روس آغوش میں جا گرا اور اس وقت سے روس ایران کے مفادات کا تحفظ کرتا چلا آرہا ہے اور دونوں ممالک اب ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم سمجھے جانے لگے ہیں۔ شام کے امریکہ کے ساتھ کبھی بھی قریبی تعلقات نہیں رہے ہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں شام ہی واحد ملک تھا جس کے سویت یونین کے دور میں تعلقات اپنی بلندیوں کو چھو رہے تھےاور حافظ الاسد کے انتقال کے بعد بشار الاسد کے برسر اقتدار آنے پر بشار الاسد نے اپنے والد سے ہٹ کر پالیسی اپنانا شروع کردیا اور اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک کے ساتھ بھی تعلقات قائم کرنے کے لیےخصوصی توجہ دی تھی اوراس دور میں بشار الاسد کو دنیا بھر میں مقبولیت بھی حاصل ہونا شروع ہوگئی۔ بشار الاسد نے اسی دوران ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات جو کہ بہت ہی خراب تھے کو بہتر بناتے ہوئے ترکوں کے دلوں میں بھی جگہ بنانا شروع کردیا ۔ ترکی اور شام کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی کا ایک دور ایسا بھی آیا جب دونوں ممالک کی کابینہ کے مشترکہ اجلاس بھی منعقد ہوئے اور دونوں ممالک نے تعاون کے باون مختلف سمجھوتوں پر دستخط بھی کیے۔ بشار الااسد، صدر ایردوان کو اپنا بڑا بھائی سمجھنے لگے اور دونوں رہنما شیر و شکر ہوگئے ۔ ان قریبی تعلقات کے موقع پر ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے مشرقِ وسطیٰ میں ” بہارِ عرب” کے نام سے شروع ہونے والی نئی جمہوری تحریک کے موقع پر شام میں جمہوریت کو مضبوط بنانے اور ان پر لگے آمریت کے دھبے کو دور کرنے کے لیے ملک میں جمہوری اصلاحات کرنے کی تلقین کی اور بشار الاسد صدر ایردوان کی ابتدا میں اس تلقین کو قبول کرتے ہوئے بھی دکھائی دیے لیکن خفیہ قوتوں نے ان کو ایسا کرنے سے باز رکھا حالانکہ صدر رجب طیب ایردوان نے اس سلسلے میں بشار الااسد سے کئی بار قریبی رابطہ قائم بھی کیا اور جمہوری اصلاحات متعارف کروانے کے دور میں ہر ممکنہ تعاون کی بھی یقین دہانی کروائی لیکن یہ بیل منڈھے چڑھنے میں ناکام رہی اور دونوں رہنما ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئےاور پھر شام میں شروع ہونے والی بہار عرب کی تحریک خانہ جنگی کا روپ اختیار کرتی چلی گئی اور اُس وقت سے اب تک شام خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔
شام میں گزشتہ آٹھ سالوں سے جاری خانہ جنگی کے دوران لاکھوں افراد جان بحق ہوچکے ہیں اور لاکھوں ہی کی تعداد میں شامی باشندے ہمسایہ ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اس دوران بشار الاسد انتظامیہ نے مخالفین سے چھٹکارا پانے کے لیے بمباری کے ساتھ ساتھ کیمیائی حملوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ شامی انتظامیہ نے سب سے پہلے 19 مارچ 2013ء کو اپنے ہی زیر کنٹرول علاقے خان الاصل میں اعصاب شکن گیس استعمال کی جس میں کے حملے میں ایک درجن سے زائد فوجیوں سمیت 26 افراد ہلاک ہوئے ۔ترکی کے صدر ایردوان نے سات اپریل کے شامی انتظامیہ کے حالیہ کیمیائی حملے کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا کہ” اگر امریکہ کے اتحادی سن 2013ء میں ہی شام کے ان کیمیائی حملوں کے خلاف کاروائی کرتے تو شام کو دوبارہ کیمیائی حملہ کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔شامی انتظامیہ نے 2013 ہی میں 21 اگست کو مخالفین کے زیر کنٹرول علاقے غوطہ پر کیمیائی حملہ کیا جس میں 14 سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔27 ستمبر 2013ء کو اقوام متحدہ کے سکیورٹی کونسل نے شام کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو تلف کرنے حکم دیا اور تلف نہ کرنے کی صورت میں طاقت کا استعمال کرنے کی وارننگ بھی جاری کی جس پر شامی انتظامیہ نے اکتوبر 2013ء میں کیمیائی ہتھیاروں کی مزاحمت کار تنظیم (OPCW) کی نگرانی میں اپنے کیمیکل ہتھیار تلف کرنا شروع کر دیے ہیں اور 23 جون 2014ء کو OPCW نے شام میں تمام کیمیائی ہتھیار ناکارہ بنائے جانے کا اعلان کردیا۔
لیکن مارچ 2017ء میں شام میں انسانی حقوق کی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے ادلب میں مخالفین کے زیر قبضہ ایک علاقے پر ایک مرتبہ پھر کیمیائی ہتھیروں کے حملے میں 88 افراد کے ہلاک ہونے سے آگاہ کیا اور 7 اپریل 2018ءکے دوما میں حالیہ کیمیائی ہتھیاروں کے حملے نے امریکہ اور اس کے دو اتحادی ممالک کو جنجھوڑ کر رکھدیا اور امریکہ ، فرانس اور برطانیہ نے شامی دارالحکومت دمشق کے ضلعے برضح اور حمص کے قریب واقع دو حکومتی تنصیبات پر مجموعی طور پر 105 میزائل داغے۔ پینٹاگون کے مطابق ان حملوں میں شامی حکومت کے زیراستعمال کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کے تین مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔شامی خانہ جنگی میں مغربی ممالک کی یہ سب سے بڑی عسکری مداخلت ہے۔ تاہم امریکا، فرانس اور برطانیہ کے مطابق ان حملوں میں فقط شام کی کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا اور ان حملوں کا مقصد اسد حکومت کا خاتمہ یا شامی تنازعے میں مداخلت نہیں تھا۔
ترک صدر رجب طیب ایردوان نے دنیا کو بہت پہلے ہی شام میں جاری خانہ جنگی کے بارے میں متنبہ کیا تھا اور اس خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں صرف کی تھیں لیکن وہ شامی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں پناہ دیتے ہوئے شامی بشندوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور انہوں نے اس سلسلے میں امریکہ اور روس کے درمیان ثالثی کا کردارا بھی ادا کرنے کی کوشش کی تاکہ شام میں معصوم انسانوں کو ہلاک ہونے سے بچایا جاسکے۔ انہوں نے روس اور امریکہ کے رہنماوں کو شام سے متعلق تناؤ کے بارے میں احتیاط کا مظاہرہ کرنے اپیل کی۔ انہوں امریکہ کے صدر ٹرمپ سے اور بعد میں روس کے صدر ولادِ میر پوتن سے ٹیلی فون پر بارت چیت کرنے کے بعد ایران کے صدر حسن روحانی سے بھی ٹیلی فون پر بات چیت کی ۔ دیکھا جائے تو ترکی ہی علاقے میں واجد ملک ہے جو امریکہ اور روس دنوں کے ساتھ بڑے خوشگوار تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے اور ان سپر قوتوں وسے برابری کی سطح پر اپنی باتیں منوانے کا بھی حق رکھتا ہے ۔ ترکی ایک طرف نیٹو کا رکن ملک ہے تو دوسری طرف روس کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھتے ہوئے اپس سے ایس 400 میزائیل خرید رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ پہلا ایٹمی پلانٹ بھی روس ہی کے تعاون سے لگایا جا رہا ہے۔ ترکی اپنے ان تعلقات کا فائدہ اتھاتے ہوئے روس اور امریکہ کے درمیان شام کے بارے میں ثالثی کا کردار بھی ادا کررہا ہے اور اس سلسلے میں روسی پارلیمان کی دفاعی کمیٹی کے سربراہ، ولادیمیر شمانوف کہہ چکے ہیں کہ امریکہ اور روس فوجی سربراہان کے درمیان ترکی کے توسط سے رابطہ قائم ہوا ہے جبکہ یٹو کے سکریٹری جنرل ژاں اسٹولٹنبرگ ترکی کے دورے پر پہنچے اور انہوں نے صدر ایردوان سے علاقے کی صورتِ حال سے متعلق بات چیت کی۔ گزشتہ ہفتے ہی انقرہ میں صدر ایردوان کی نگرانی میں شام کی صورتِ حال سے متعلق سہہ ممالک کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں روس کے صدر ولادِ میر پوتن اور ایران کے صدر حسن روحانی نے شرکت کی تھی اور اب یہ سہہ فریقی سربراہی اجلاس ایران میں منعقد ہوگا۔ شام سے متعلق سہہ فریقی سربراہی اجلاس سے ترکی کے شام کے حامی اور شام کے مخالف ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ 30 ارب ڈالر کے شامی پناہ گزینوں پر آنے والے اخراجات کو برداشت کرتے ہوئے ساڑھے تین ملین شامی مہاجرین کو پناہ دیتے ہوئے ایک ثالث ملک کے ساتھ ساتھ انسان دوست ملک ہونے کا بھی ثبوت فراہم کررہا ہے۔
(مضمون نگار ترکی کے معروف اخباری ٹی آر ٹی اردو ایڈیٹر اور سینئر تجزیہ نگار ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں