بڑے لوگوں کے ساتھ رات گزارے بغیر کوئی بھی خاتون اینکر یا نیوز ریڈر نہیں بن سکتی: بی جے پی لیڈر کا شرمناک بیان

چننئی: (ملت ٹائمز ) تمل ناڈو کے سینئر بی جے پی رہنما ایس وی شکر نے سوشل میڈیا پر ایک متنازعہ فیس بک پوسٹ لکھا، اس پوسٹ میں خاتون صحافیوں اور ٹی وی اینکروں کے بارے میں غیر مناسب اور قابل اعتراضات باتیں لکھی ہوئی ہیں، بی جے پی کے رہنما ایس وی شکر نے واضح طور پر لکھا ہے کہ کوئی بھی عورت صاحب اثر و رسوخ کے ساتھ شب گزاری کے بغیر نیوز ریڈر یا رپورٹر نہیں بن سکتی۔
اس بیان پر کئی خواتین صحافیوں نے تنقید کی مگر ملک کے بڑے ٹی وی چینلز کی خاتون اینکر جو ہر روز بیباکی سے ہر مدعے اور معاملے پر رہنماؤں کو لتاڑتے ہوئے نظر آتی ہے وہ اب بھی اس تبصرہ پر خاموش ہے۔
سوشل میڈیا پر تقریباً تمام خواتین اینکرز فعال و متحرک نظر آتی ہیں مگر اس معاملے میں اب تک کوئی بھی پر تبصرہ نہیں کی ہے، ان سبھی اینکرز کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر جا کر دیکھا جا سکتا ہے کہ اس معاملے پر کچھ بھی بولنا ٹھیک کیوں نہیں سمجھا ؟ کیا یہ میڈیا کی دوغلی پالیسی نہیں ہے کہ وہ حزب مخالف نیتاﺅں کی بولتی بند کر دینے والی یہ اینکرز آج عورتوں، خواتین اینکروں پر ہوئے فحش کلامی کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہے؟
آج تک نیوز چینل کی دو بیباک خواتین صحافی کی بات کریں تو انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایسا کوئی تبصرہ نہیں کیا جس سے بی جے پی اعلی کمان کو برا لگے، لہذا، انجنا اوم کشپپ اپنے چینل کے ڈیبیٹ شو کا پرچار کرنے میں مصروف ہے۔
وہی ان کی ساتھی شویتا سنگھ جنہوں نے 2000 کی نوٹ میں چِپ لگنے کا دعوی کیا تھا، انہوں نے بھی خاتون صحافی پر کی گئی غیر مناسب تبصرہ پر تنقید نہیں کی ہے۔
وہیں اگر بات کریں تال ٹھوكنے والي زی نیوز کی اینکر ربیكا لیاقت کی، تو انہوں نے بھی اس معاملے پر کچھ نہیں بولی ہے، كيوں کہ وہ ” زی “ میں ہے، تو ان کی مجبوری بھی سمجھی جا سکتی ہے چونکہ وہ اسی ادارے سے آتی ہے جس نے کٹھوا معاملے پر بے تکے سوال اٹھائے تھے، انہوں نے بھی سوشل میڈیا پر بھی کچھ بھی نہیں لکھا ہے، وہ بھی اپنے نیوز چینل کے ایک پروگرام کا پرچار کرتی نظر آرہی ہے۔
یہ تینوں خواتین اینکرز ٹی وی کا بڑا چہرہ مانی جاتی ہیں تاہم بی جے پی رہنما کے شرمناک بیان پر خاموشی سادھی ہوئی ہیں۔
ان خواتین اینکرز سے کئی لڑکیاں متاثر ہو کر نیوز اینکر بننے آتی ہیں، کم از کم ان کو ہمت دینے کے لئے اِنہیں اپنی بات رکھنی چاہیے تھی مگر ان خواتین اینکروں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ خواتین صحافیوں پر بے تکی بیان بازی کرنے والا رہنما حکمراں جماعت سے آتا ہے۔