دین بچاﺅ ۔دیش بچاﺅ کانفرنس

جب کوئی تاریخ رقم ہوتی ہے ،کسی مشن میں کامیابی ملتی ہے تو ہر ممکن طریقے سے اسے کمزور کرنے ،اس کے اثرکو زائل کرنے اور کئی طرح سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔دین بچاﺅ ۔دیش بچاﺅ کانفرنس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔پہلے سے ہی بعض حلقوں کی جانب سے اس کی مخالفت کی جارہی تھی،نتیش کمار کے سیاسی گیم نے انہیں مزید مواد فراہم کردیا
خبردرخبر(558)
شمس تبریز قاسمی
جمہوریت میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولانہیں کرتے ،جس پارٹی، تنظیم ،جماعت اور شخصیت کے پاس جتنی بڑی بھیڑ ہوتی ہے اس کی اتنی ہی اہمیت سمجھی جاتی ہے ۔ہندوستان سمیت دنیا بھر کے تمام جمہوری ممالک کا یہ ضابطہ ہے کہ عوام اپنی ناراضگی ظاہر کرنے ،حکومت وقت سے اپنا مطالبہ منوانے ،کسی طرح کا دباﺅ بنانے کیلئے احتجاج ،مظاہر ہ،بھوک ہڑتال ،مارچ ،کانفرنس اور اس طر ح کے پروگرام کا سہارالیتی ہے ۔ہندوستانی مسلمان اور ملی تنظیموںکی جانب سے بھی اسی طریقہ کو اپنایاجاتاہے ،موقع بہ موقع احتجاجی مظاہرے کئے جاتے ہیں،صدر جمہوریہ کو میمورنڈم سونپا جاتاہے ،آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمان اسی طریقہ پر عمل پیرا ہیں اور مسلسل حکومت کے خلاف احتجاج کا یہ طریقہ اختیار کیاجارہاہے۔اس طر ح کی ریلیاں موثرہوتی ہیں ،حکومت کو عوامی رحجان کاانداز ہ ہوتاہے اوربعض دفعہ حکومت اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبورہوتی ہے ،اگر یہ مظاہر ے تشدد میں تبدیل ہوجاتے ہیں تو حکومت زیادہ جلدبازی میں ایکشن لیتی ہے ،یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں نے پرتشدد مارچ سے ہمیشہ گریز کیاہے ۔مشکل حالات سے گزر نے کے باوجود بھی انہوں نے پرامن مارچ کو ہر ترجیح دیا ہے۔
کچھ ایسے ہی مقاصد کے پیش نظر گذشتہ 15 اپریل کو پٹنہ کے گاندھی میں میدان میں ”دین بچاﺅ دیش بچاﺅ “ کے عنوان سے ایک ریلی منعقد ہوئی جس میں کم وبیش 20 لاکھ مسلمانوں نے بہار ،اڑیسہ اور جھارکھنڈ سمیت ملک کے مختلف حصوں سے شرکت کی، پورا پٹنہ انسانی سیلاب میں تبدیل ہوگیاتھا ،مذکورہ صوبوں کا شاید ہی ایسا کئی مسلم گاﺅں رہاہوگا جہاں سے کوئی بس پٹنہ کیلئے روانہ نہیں ہوئی ہوگی ۔لوگوں کا مانناہے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنی بڑی ریلی ہوئی ہے۔یہ تاریخ ساز ریلی اور عوام کی اتنی بڑی بھیڑ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک شریعت سب سے بالاتر ہے ،امارت شرعیہ اور اس کی قیادت پر انہیں مکمل اعتماد ہے ،اگر شریعت پر عمل کرنے سے روکا جاتاہے ،اس کے نظام کو زبردستی تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ مسلمان اس کے خلاف میدان میں آنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں اور کسی بھی صورت میں یہ مداخلت برداشت نہیں کرسکتے ہیں ۔اسی جذبہ اور خلوص کے ساتھ یہ سب 15 اپریل کوامیر شریعت مولانا محمد سید ولی رحمانی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جمع ہوئے تھے ۔مسلمانوں کا یہ جذبہ ،قیادت پر اعتماد اور دین سے محبت قابل صد ستائش ہے ۔
یہ بھی سچائی ہے کہ جب کوئی تاریخ رقم ہوتی ہے ،کسی مشن میں کامیابی ملتی ہے تو ہر ممکن طریقے سے اسے کمزور کرنے ،اس کے اثرکو زائل کرنے اور کئی طرح سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔دین بچاﺅ ۔دیش بچاﺅ کانفرنس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔پہلے سے ہی بعض حلقوں کی جانب سے اس کی مخالفت کی جارہی تھی،نتیش کمار کے سیاسی گیم نے انہیں مزید مواد فراہم کردیا ۔کہاجاتاہے کہ سیاست میں ٹائمنگ کی بہت اہمیت ہوتی ہے اوریہی ہوا، نتیش کمار نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے امارت شرعیہ کو مسلمانوں کی نظر میں بدنام کرنے کی کوشش کی ۔کانفرنس کے عین اختتام پر خالد انور کی نامزدگی کا اعلان اجلاس کے اثرا ت کو کم کرنے اور امارت شرعیہ کا داﺅ وقار پر لگانے کی سازش تھی ،اس کے ذریعہ انہوںنے مسلمانوں کے درمیان اپنی شبیہ بھی بہتر بنانے کی کوشش کی۔ خالد انور کا نام پہلے سے امیدواروں کی فہرست میں شامل تھا،لیکن نتیش کمار نے جب یہ دیکھاکہ خالد انور مولانا ولی رحمانی جیسی شخصیت کے قریبی ہیں ۔لاکھوں کی تعداد میں عوام جس کانفرنس کا حصہ بنی ہوئی ہے اس میں خالد انور کو نمایاں مقام حاصل ہے تو انہوں نے اس نام پر مہر لگادی تاکہ خالد انور کے ذریعہ امارت شرعیہ کو استعمال کیاجاسکے ۔
دنیا کا اصول ہے کہ کچھ لوگ اخلاص کے ساتھ بغیر کسی مفاد کے کسی کی قربت اختیار کرتے ہیں تو کچھ اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے کسی کے قریبی بنتے ہیں اوراس کیلئے وہ کسی بھی حدتک چلے جاتے ہیں ۔ان کے نزدیک نظریہ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے ۔دین بچاﺅ ۔دیش بچاﺅ کانفرنس اور خالد انور کو ایم ایل سی بنائے جانے کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ٹائمنگ ایسی تھی جس نے تعلق جوڑ دیا ،لوگوں کو یہ سوال کرنے کا موقع فراہم کردیا۔آج ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد امارت شرعیہ کے ناظم یہ کہ رہے ہیں کہ خالد انور نے امارت شرعیہ کے وقا ر کو داﺅ پر لگایا ہے ، کانفرنس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ،اگر یہی بات امارت شرعیہ کی جانب سے اول دن کہی جاتی ،امیر شریعت خود آکر یہ کہتے کہ ہماری کانفرنس کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو نوبت یہاں تک نہیں پہونچتی بلکہ اجلاس کے وقار میں مزید اضافہ ہوجاتا۔صحافت کے پیشہ سے وابستہ ہونے پر مجھے خوشی ہے ڈاکٹر خالد انور ایم ایل سی بنائے گئے ،یہ بات جان مزید خوشی ہوئی کہ وہ ایک  مدرسہ کے فاضل ہیں لیکن میری خوشی اس وقت دوبالاہوجاتی جب خالد انور صاحب اس پیشکش کومسترد کرتے ہوئے کہتے کہ ہماری لڑائی ایک نظریہ کے خلاف ہے ،جب تک نتیش کمار این ڈی اے کا حصہ رہیں گے ہمارے لئے جدیو سے ایم ایل سی بننا ناممکن ہے۔
دین بچاﺅ ۔دیش بچاﺅ کانفرنس ایک عظیم مقصد کے تحت کی گئی تھی ،دین میں مداخلت کرنے والوں کو اپنی طاقت ،دکھانا ،انہیں اس طر ح کی حرکتوں سے روکنا اور جمہوری اقدار کا پاس رکھنے کا پیغام دیناتھا ،کانفرنس اپنے اس مشن میں کامیاب ثابت ہوئی ،ارباب اقتدار ،حزب اختلاف اور ملک کے تمام طبقہ تک یہ بات پہونچ گئی کہ ہندوستان کا مسلمان ابھی بیدار ہے ،علماءکی قیادت پر اسے مکمل اعتماد ہے ،زی نیوز اور آج تک جیسے چینلوں کی بوکھلاہٹ سے بھی پتہ چل رہاہے کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کے جمع ہونے سے حکومت پر طلاق بل کو واپس لینے کا دباﺅ بڑھ گیاہے کیوں کہ جمہوریت میں سروں کو گنا جاتاہے ،بھیڑ سے عوام کی مرضی اور مخالفت کا فیصلہ طے کی جاتاہے۔
یہ کانفرنس سوشل میڈیا پر اب تک موضوع بحث ہے ،عوامی گفتگو میں بھی اس پر چرچاہورہی ہے ۔اعتراض کرنے والے کو کسی بھی صورت میں غلط نہیں کہاجاسکتاہے،صحافیوں کو سوال کرنے کا مکمل حق ہے ۔ جو کچھ ہواہے اس پر سوال اٹھنا یقینی تھا ،جس شخص کا امارت شرعیہ سے کوئی تعلق نہیں تھا اسے کانفرنس میں نمایاں اہمیت دیا جانا محل نظرہے ۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ سوال اٹھانے والوں کو غلط کہاجائے ،ان کی نیت پر حملہ کیاجائے ۔انہیں برا بھلا کہاجائے ۔نہ ہی سوال کرنے والوں کو یہ حق پہونچتاہے کہ وہ بد زبانی کریں ،بغیر تحقیق کے سنگین الزامات عائد کریں ،صحافت کے پردے میں عدوات شرو ع کردیں ۔ اعتدا ل ،توازن اور حق پرستی ہر جگہ ضروری ہے ۔
stqasmi@gmail.com

SHARE