فلسطینی ٹرمپ کی تجاویز قبول کریں یا منہ بند رکھیں۔پہلے بھی امن کے کئی مواقع یہ گنواچکے ہیں: محمد بن سلمان

محمد بن سلمان نے یہودی تنظیموں کے رہنماؤں کو یہ بھی بتایا کہ فلسطین کا معاملہ سعودی عرب اور اس کے عوام کی ترجیحات میں فی الوقت شامل نہیں ہے کیوں کہ ان کا ملک خطے میں ایرانی اثر و رسوخ جیسے اہم امور سے نمٹنے میں مشغول ہے۔

(مقبوضہ بیت المقدس/ریاض)

اسرائیل کے چینل ٹین نیوز نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے گزشتہ ماہ نیویارک میں یہودی اداروں کے سربراہان کے ساتھ ایک ملاقات میں فلسطینی رہنماؤں پر شدید تنقید کی تھی۔

جرمنی کے اخبار ڈی ڈبلیو نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ اسرائیل کے چینل ٹین سے وابستہ رپورٹر بارک راوید کی رپورٹ کے مطابق سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے ستائیس مارچ کے روز نیویارک میں یہودی اداروں کے سربراہان سے بند دروازوں کے پیچھے کی گئی ایک ملاقات کے دوران فلسطينی صدر محمود عباس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’اب وقت آ چکا ہے کہ فلسطینی صدر ٹرمپ کی امن سے متعلق تجاویز قبول کریں یا اپنا منہ بند رکھیں‘۔

راوید کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان (جنہیں ایم بی ایس بھی کہا جاتا ہے) کے بیانات کی تصدیق نیویارک سے اسرائیلی وزارت خارجہ کو بھیجی گئی ایک کیبل کے علاوہ تین دیگر ذرائع نے بھی کی تھی۔

https://twitter.com/emmanuelnavon/status/990834864269283329

ان ذرائع کے مطابق محمد بن سلمان نے یہودی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کہا، ’’گزشتہ دہائیوں کے دوران فلسطینی رہنماؤں نے یکے بعد دیگرے امن کے کئی مواقع گنوائے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فلسطینی (صدر ٹرمپ کی پیش کردہ) تجاویز سے اتفاق کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آئیں یا پھر وہ اپنا منہ بند رکھیں اور شکایت کرنا بند کریں۔‘‘

ایم بی ایس سے منصوب اس مبینہ بیان کو اسرائیل کے علاوہ غیر ملکی میڈیا نے بھی شائع کیا ہے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی شہزادہ سلمان سے وابستہ اس بیان کے حوالے سے ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔ اسرائیلی اور اسرائیل سے ہمدردی رکھنے والے صارفین اس پیش رفت کی تعریف کر رہے ہیں جب کہ فلسطین اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک سے تعلق رکھنے والے صارفین کی جانب سے شدید تنقید بھی کی جا رہی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق مذکورہ ملاقات کے دوران محمد بن سلمان نے یہودی تنظیموں کے رہنماؤں کو یہ بھی بتایا کہ فلسطین کا معاملہ سعودی عرب اور اس کے عوام کی ترجیحات میں فی الوقت شامل نہیں ہے کیوں کہ ان کا ملک خطے میں ایرانی اثر و رسوخ جیسے اہم امور سے نمٹنے میں مشغول ہے۔

تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ فلسطین اور اسرائیل کے مابین امن عمل میں کسی واضح پیش رفت کے بغیر سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات شروع نہیں کیے جا سکیں گے۔

 

SHARE