انتخابی جنگ کرناٹک کی، لیکن نگاہیں ۲۰۱۹ء پر

ڈاکٹر یامین انصاری

آخری فیصلہ کرناٹک کے عوام کو ہی کرنا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ریاست ، بلکہ ملک کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں
کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کی مہم اپنے شاباب پر پہنچ چکی ہے۔ اس مرتبہ یہاں کے انتخابی نتائج صرف کرناٹک ہی نہیں، بلکہ قومی سیاست پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف کانگریس اور بی جے پی بلکہ جے ڈی ایس نے بھی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے ہر حربہ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ ۲۱ مئی کو کانگریس، بی جے پی اور جے ڈی ایس کی سیاسی قسمت کا فیصلہ ہوجائے گا۔ کرناٹک کے ممکنہ انتخابی نتائج کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں کانگریس کی طرف سے خود پارٹی صدر راہل گاندھی اور بی جے پی کی جانب سے بھی پارٹی صدر امت شاہ کے ساتھ وزیراعظم مودی نے خود محاذ سنبھال لیا ہے۔کرناٹک کا انتخابی میدان جیتنے کے لئے دونوں ہی جماعتوں نے یہاں اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔
کرناٹک میں بظاہر مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہی نظر آ رہا ہے، لیکن مقامی پارٹی جنتا دل سیکولر یعنی جے ڈی ایس کو بھی یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ جے ڈی ایس بھی دعویٰ کر رہی ہے کہ اس نے کرناٹک میں آئندہ حکومت بنانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ فی الحال جے ڈی ایس کے بارے میں تصویر واضح نہیں ہے، کیوں کہ کوئی اسے ’کنگ میکر‘ کی حیثیت میں دیکھتاہے تو پارٹی کہتی ہے کہ انتخابات میں وہ ’کنگ میکر‘ نہیں، ’کنگ ‘ بنے گی۔کوئی کہتا ہے کہ جے ڈی ایس نے بی جے پی کے ساتھ ’سیٹنگ ‘ کر لی ہے اور اس نے بی جے پی امیدوار کے مقابلے میں کمزور امیدوار اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ جے ڈی ایس اس طرح کی خبروں کی تردید کرتی ہے۔ اور سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوگوڑا کو کہنا پڑتا ہے کہ اگر پارٹی کے روح رواں اور ان کے بیٹے کمار سوامی نے بی جے پی سے کوئی ’سیٹنگ‘ کی تو وہ ان سے اپنے رشتے ختم کر لیں گے۔حالانکہ کمار سوامی اب تنہا حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہے ہیں، ٹھیک اسی طرح جیسے انتخاب میں اترنے والی ہر پارٹی اورہر امیدوار کو اپنی جیت یقینی نظر آتی ہے۔ در اصل قبل از انتخاب آنے والے مختلف جائزوں اور سروے میں سہ رخی یا معلق اسمبلی کی پیش گوئی کی جا رہی ہے، جس میں جے ڈی ایس ’کنگ میکر ‘ کے طور پر سامنے آ سکتی ہے ۔کمارسوامی نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان کی پارٹی اسمبلی انتخا بات میں۳۱۱ سیٹیں جیت سکتی ہے۔وہ تو یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ جے ڈی ایس آرام سے ۷۹ سے ۵۰۱ سیٹوں تک پہنچ جائے گی، اب باقی کی سیٹوں کے لئے کام کیا جا رہا ہے۔بہر حال کمار سوامی دعوے چاہے جو بھی کریں، لیکن جے ڈی ایس کی اہمیت کو کم کر کے نہیں دیکھا جا سکتا، کیوں کہ اس کے امیدوار خود بھی جیت سکتے ہیں،اور کسی کی شکست کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔ در اصل کمار سوامی پہلے بھی کانگریس اور بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنا چکے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ یہ تجربے کامیاب نہیں ہو سکے۔
موجودہ اسمبلی انتخابات کو مزید گہرائی سے سمجھنے کے لئے کرناٹک کے سیاسی منظر نامہ پر نظر ڈالنا بھی ضروری ہے۔ کرناٹک میں کل ۵۲۲ اسمبلی سیٹیں ہیں، لیکن ۴۲۲سیٹوں کے لئے انتخابات ہوتے ہیں۔ ایک سیٹ پر اینگلو -اینڈین طبقہ کا رکن نازد کیا جاتا ہے۔۳۱۰۲ءکے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے ریاست کی کل ۴۲۲سیٹوں میں سے ۲۲۱ پر کامیابی حاصل کی تھی۔ جبکہ بی جے پی ۰۴ اور جے ڈی ایس نے ۰۴ سیٹوں پر قبضہ کیاتھا۔ بی جے پی کے سابق وزیر اعلی یدیو رپا پارٹی سے بغاوت کر کے انتخابات میں اترے اور ان کی پارٹی کے جی ایس صرف ۶ سیٹیں ہی حاصل کر سکی تھی۔ اس کے علاوہ دیگر نے ۶۱ سیٹیں حاصل کی تھیں۔ حالانکہ ان انتخابی نتائج کے بعد یدیورپا دوبارہ بی جے پی کے ساتھ آ گئے۔۳۱۰۲ءکے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو ۸۰۰۲ءکے مقابلے میں ۰۷سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔جبکہ ریاست کی باقی سبھی جماعتوں کو فائدہہوا تھا۔ کانگریس کو ۲۴ سیٹوں کا، جے ڈی ایس کو ۲۱ اور دیگر امیدواروں کو ۰۱ سیٹوں کا فائدہ حاصل ہوا تھا۔کانگریس ۳۱۰۲ء میں۹ سال کے بعد اپنے دم پر اقتدار میں واپس آئی تھی۔ اس سے پہلے آخری بار ۹۹۹۱ء میں کانگریس اقتدار میں آئی تھی، اور اس وقت ایس ایم کرشنا وزیر اعلی بنے تھے۔اس کے بعد۳۱۰۲ءمیں کانگریس نے اپنے سہارے اقتدار میں شاندار واپسی کی تھی۔اس مرتبہ سدارمیا کو کانگریس کا وزیر اعلی بنایا گیا۔ ان کا دور اقتدار کافی کامیاب مانا جا رہا ہے، اسی لئے پانچ سالہ دوراقتدار کے بعد کانگریس ایک بار پھر ان کی قیادت میں میدان میں اتری ہے۔ اس سے پہلے کرناٹک میں ۹۹۹۱ءکے بعد اتحاد کا دور آیا۔کانگریس نے جے ڈی ایس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی، لیکن یہ اتحادی حکومت زیادہ دن نہیں چل سکی۔اس کے بعدجے ڈی ایس نے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی، وزیر اعلی کا تاج جے ڈی ایس کے ایچ ڈی کمارسوامی کے سر پر رکھا گیا تھا۔کمارسوامی نے ۰۲ ماہ تک اتحادی حکومت چلانے کے بعد وعدے کے مطابق بی جے پی کو اقتدار نہیں سونپا۔ اس کے بعد ۸۰۰۲ء میں انتخابات ہوئے، جس میںبی جے پی کو عوامی ہمدردی حاصل ہوئی اور وہ اقتدار میں آئی، لیکن ان پانچ برسوں کے دوران کرناٹک کی سیاست میں خاص طور پر بی جے پی کی سیاست میں کئی نشیب و فراز آئے۔ وزیر اعلی بی ایس یدیورپا کو بد عنوانی کے الزامات کے بعد اپنی کرسی گنوانی پڑی، جس کے بعد انھوں نے بی جے پی سے بغاوت کر دی اور الگ ہو کر اپنی پارٹی بنا لی۔۳۱۰۲ءکے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کی بڑی وجہ یدیورپا کو ہی مانا گیا۔لیکن ایک بار پھر بی جے پی ان ہی یدیورپا کے سہارے کرناٹک کے انتخابات میں کامیابی کاراستہ دیکھ رہی ہے ، جنھیں کبھی بد عنوانی کے سنگین الزامات کے نام پر پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ موجودہ انتخابات میں بیلاری کے قدآور وہ ریڈی برادران بھی سرگرم رول ادا کر رہے ہیں ، جن پر ہزاروں کروڑ روپے کی بد عنوانی کا الزام تھا۔ بدعنوانی کے خلاف جنگ لڑنے کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی نے ریڈی برادران کے کئی رشتہ داروں کو ٹکٹ دئے ہیں۔
بہر حال جہاں تک راہل گاندھی کا سوال ہے تو کانگریس کے نئے صدر کے طور پر راہل گاندھی کا یہ پہلا مشکل امتحان ہے۔فی الحال وہ کافی پر اعتماد اور چیلنجز کا سامنا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے مودی اور امت شاہ کے گڑھ گجرات میں بی جے پی کو ۰۰۱ سیٹوں کے اندر ہی محدود کر دینے کا سہرہ راہل گاندھی کے سر ہی جاتا ہے۔اسی لئے کرناٹک میں ان کے حوصلے بلند ہیں اور انھیں یقین ہے کہ کانگریس یہاں واپسی کرے گی۔ مختلف جائزوں میں بھی ریاست میں پانچ سالہ دور اقتدار کے باوجود کانگریس مخالف لہر نظر نہیں آتی ہے۔ ساتھ ہی وزیر اعلی سدا رمیا کی شبیہہ اور ان کے طرز حکومت نے بھی کانگریس کو ’حکومت مخالف لہر‘ سے بچانے کا کام کیا ہے۔ کانگریس اگر یہاں اقتدار بچانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو راہل گاندھی کو اس کا فائدہ سال کے آخر میں بی جے پی حکمراں والی ریاستوں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میںہونے والے اسمبلی انتخابات میں ضرور ملے گا۔اس کے علاوہ راہل گاندھی آئندہ سال پارلیمانی انتخابات میں مودی کے مقابلے ایک مضبوط اپوزیشن لیڈر کے طور پرسامنے آ سکتے ہیں۔ بی جے پی اور مودی کی مایوس کن کارکردگی سے یقیناً ملک کے عوام ایک ایسے رہنما کی تلاش میں ہیں، جو ملک کی ترقی و خوشحالی کے صرف خواب نہ دکھائے بلکہ زمینی سطح پر کام کرے، ایک ایسا رہنما جو ملک کو توڑنے اور نفرت پھیلانے والی طاقتوںکے خلاف زبانی جمع خرچی کے بجائے واقعی کارروائی کرے، ایک ایسا رہنما جو تنگ ذہنیت اور متعصبانہ فکر کے ساتھ کام نہ کرے بلکہ واقعی سب کو ساتھ لے کر چلنے کا مادہ رکھتا ہو۔ لہذا اگر راہل گاندھی اس پیمانے پر خود کو ثابت کر پاتے ہیں تو یقینا کامیابی ان کے قدم چومے گی۔فی الحال سب کی نظریں کرناٹک پر مرکوز ہیں، جہاں بی جے پی کسی بھی قیمت پر کانگریس کو ہرا کر کانگریس مکت بھارت کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا چاہتی ہے۔ بہر حال آخری فیصلہ کرناٹک کے عوام کو کرنا ہے کہ وہ اپنی ریاست اور ملک کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)
yameen@inquilab.com