ریپ نہ تو محبت کانام ہے اور نہ ہی سیکس کا ۔یہ ایک جرم اور گناہے ۔انسان جنسی ہوس مٹانے کیلئے کسی بھی حدتک چلاجاتاہے ،کبھی وہ ڈرگس کا استعمال کرتاہے ،کبھی وہ کسی طرح اور طرح سے اس کی تکمیل کرتاہے ۔بسا اوقات وہ معصوم بچوں کو نشانہ بناتاہے اور اس کے ساتھ حوانیت کی تمام حدیں پار کرجاتاہے
خبر درخبر(560)
شمس تبریز قاسمی
ہندوستان میں ریپ اور اجتماعی عصمت دری کی خبر اب کوئی تعجب خیز نہیں ہوتی ہے ،یومیہ دسیوںخبر اس طرح کی اخبارمیں چھپتی ہیں،پولس تھانوں میں ان گنت معاملات کی شکایت درج کی جاتی ہیں۔ایک امریکی ویب سائٹ کی رپوٹ کے مطابق ریپ اور خواتین کے خلاف کرائم کے معاملے میں ہندوستان دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے ،پہلے نمبر پر امریکہ ،دوسرے نمبر پر ساﺅتھ افریقہ اور تیسر ے نمبر پرسویڈن ہے ۔ہر 22منٹ پر ہندوستان میں ایک خاتون کی عصمت دری کی جاتی ہے ،دہلی میں اس طرح کے واقعات سب سے زیادہ پیش آتے ہیں ۔2012 میں نربھیا واقعہ کے بعد گذشتہ چار سالوں میں تقریبا 12 ہزار ریپ کے واقعات یہاں پیش آچکے ہیں ۔قومی اور علمی راجدھانی کے ساتھ دہلی کو اب ریپ کی راجدھانی بھی کہاجانے لگاہے ۔یہ اعدادو شمارپولیس میں درج شکایت کے بنیاد پر ہیں،اگر ریپ کے تمام واقعات کا شمار کیاجائے گا تو ہندوستان اس معاملے میں نمبر ون ہوگا ۔لیکن یہاں 80 فیصد زناکے واقعات رپوٹ نہیں کئے جاتے ہیں۔گاﺅں اور دیہات میں سامنے والے اس طرح کے واقعات کو عموما دبادیاجاتاہے پھر سماج کے لوگ زانیوں کی آپس میں شادی کرادیتے ہیں ۔ہندوستانی آئین کے مطابق زنا بالرضا ریپ میں شامل نہیں ہے ۔مردو خواتین اپنی رضامندی کی بنیاد پر رشتہ ازود کے بغیر ہی جنسی تعلقات قائم کرسکتے ہیں ۔
ریپ کے ان اعدادوشمار میں کچھ بھی نیا پن نہیں ہے ،ہندوستان کے معمول کا یہ حصہ بن چکاہے اور رفتہ رفتہ یہ سلسلہ بڑھتاہی جارہے حیرت کا پہلو یہ ہے کہ ریپ کے واقعات اب تسلسل کے ساتھ کمسن بچیوں کے ساتھ پیش آرہے ہیں ۔5 سے 12 سال کی بچیوں کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے واقعات یکے بعد دیگر ملک بھر سے سامنے آرہے ہیں ۔ 2016 میں 10 ہزار سے زائد نابالغ بچیوں کے سے ریپ کا کیس درج کیا گیا ۔2018 کے جنوری میں کٹھوعہ کی ایک آٹھ سالہ بچی کے ساتھ ریپ کا دل دہلادینے والا جو واقعہ پیش آیا ہے اس کے بعد پوسکو ایکٹ کے تحت موت کی سزا کا التزام ہونے کے باوجود یہ سلسلہ بڑھتاجارہے ۔
8 سالہ آصفہ کااغواکرکے اسے مندر میں رکھاگیا ، نشہ دیکر ایک ہفتہ تک پولس اہلکاروں اور دیگر لوگوں نے اس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی ۔ میرٹھ سے ایک زانی کو یہ کہہ کر بلایاگیا کہ مزہ لیناہے تو یہاں آ۔مارنے کی خبر سننے کے بعد ایک سینئر آفیسر نے کہاکہ ایک مرتبہ اور مزہ لے لینے دو پھر اس کوقتل کردینا اور یوں ایک ہفتہ تک ایک کمسن بچی کے ساتھ گینگ ریپ کرکے قتل کردیاگیا ۔چارج شیٹ میں آصفہ کیس کے تعلق سے جو حقائق درج کئے گئے ہیں اسے منظر عام پر آجانے کے بعد پورے ملک کو ریپ کے خلاف بیدار ہوجانا چاہیئے تھا،ملک کی خواتین کو سڑکوں پر نکل کر ایسے درنوں کو پہلی فرصت میں تختہ دار پر لٹکانے کا مطالبہ کرناتھا لیکن یہاں بھی سیاست شروع ہوگئی ، بی جے پی نے زانیوں کی حمایت شروع کردی ۔احتجاجی مظاہرے اور کینڈل مارچ کو کانگریسی کی سیاسی چال کا نام دے دیا ۔بعض سیاست دانوں اور فلمی اداکاروں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ریپ بابا آدم کے زمانے سے ہوتاچلاآرہاہے ،ہر لڑکا کسی نہ کسی لڑکی پرہاتھ صفائی کرنے کی کوشش کرتاہے ، مطلب یہ تھاکہ ریپ سماج کا حصہ ہے کوئی بھی قانون بنالیاجائے یہ سلسلہ رک نہیں سکتاہے ۔نتیجہ یہ ہواکہ کمسن بچیوں کے ساتھ ریپ کا سلسلہ اور بڑھتا چلاگیا ۔چند ہی دنوں بعد دلی سے 250 کیلومیٹر کے فاصلہ پر ایک پانچ سالہ بچی کے ساتھ ریپ کا واقعہ پیش آیا،مظفر پور میں ایک لڑکی کے ساتھ ریپ کرکے اسے قتل کردیاگیا ۔اجمیر میں ایک پجاری نے سات سالہ بچی پر ہاتھ صفائی کرنے کی کوشش کی ۔ نوئیڈا میں ایک اسکول کی ایک سات سالہ طالبہ کے ساتھ ریپ ک واقعہ سامنے آیاہے ۔جہان آباد کی ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں یہ دیکھا جارہاہے کہ چار پانچ اوباش ایک بچی پر حملہ کرکے اس کے ساتھ زبردستی ریپ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔اسی طرح کا ایک اور واقعہ بہار کے سیدپور میں پیش آیاہے جہاں کے گنگوراہ گاﺅں کی ایک بارہ سالہ لڑکی کا شام کو اغوا کرلیاگیا ،چارپانچ لڑکوں نے رات بھر اس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی اور پھر صبح ہوتے ہوتے اسے قتل کردیا۔دہلی کے قریب گڑگاﺅں میں بھی ایک ایسا ہی اندوہناک واقعہ پیش آیاہے جہاں ایک پانچ سالہ بچی کے ساتھ 32 سال کے دو درندہ صفت انسان نے مسلسل تین گھنٹے تک عصمت دری کی ۔ اناﺅ ریپ واقعہ نے بھی پورے ملک کو شرمسار کیا ہے جہاں سترہ سالہ لڑکی کے ساتھ بی جے پی ایم ایل اے سینگر نے ریپ کیا ،جیل میں اس کے باپ کو مرودادیاگیا ،پورے خاندان کو زبان بندرکھنے کی دھمکی دی گئی اور یوپی کی یوگی سرکار ہفتوں مجرموں کی حمایت کرتی رہی ۔آسام رام سمیت متعددپنڈٹوں کے ریپ کی کہانی بھی ہندوستان پر ایک کلنک ہے ۔
کمسن بچیوں کے ساتھ ریپ کے یہ واقعات تفیش طلب اور حیران کن ہیں ۔ نابالغ اور انتہائی کمر عمر کی بچیوں کے ساتھ ریپ کے بڑھتے واقعات سے سوال پیدا ہونے لگاہے کہ یہ کیوں اور کس بنیاد پرہورہاہے ۔ایک وجہ یہ یہ ہوسکتی ہے کہ چائلڈ پورن گرافی کیلئے کچھ لوگ یہ کام کرتے ہوں ،اس طرح کی ویڈیو بناکر ایک بڑی رقم کمائی جارہی ہو ۔یہ بھی ممکن ہے کہ بڑی عمر کی خواتین کے ساتھ ریپ اس کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق قائم کرنا آسان نہیں ہوتاہے اس لئے شیطان صفت انسان معصوم بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کیلئے یہ سب کرتے ہوں ۔نیچرنگ چائلڈ نام کی ایک ویب سائٹ نے اس معاملے میں اپنی تحقیق لکھاہے کہ ریپ نہ تو محبت کانام ہے اور نہ ہی سیکس کا ۔یہ ایک جرم اور گناہے ۔انسان جنسی ہوس مٹانے کیلئے کسی بھی حدتک چلاجاتاہے ،کبھی وہ ڈرگس کا استعمال کرتاہے ،کبھی وہ کسی طرح اور طرح سے اس کی تکمیل کرتاہے ۔بسا اوقات وہ معصوم بچوں کو نشانہ بناتاہے اور اس کے ساتھ حوانیت کی تمام حدیں پار کرجاتاہے ۔ویب سائٹ نے مختلف سیاسی لیڈران اور فلم اداکاروں کے بیانات کو بھی اس کیلئے ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے لکھاہے کہ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے زانیوں کو حوصلہ ملتاہے اورہندوستان میں ریپ کی شرح کم ہونے کے بجائے بڑھتی جارہی ہے ۔
stqasmi@gmail.com