فیروز عالم ندوی
معاون اڈیٹر: ماہنامہ پیام سدرہ، چنئی
دوسری جنگ عظیم میں فتح حاصل کرنے کے بعد اتحادی ممالک اور روس نے اقوام متحدہ کے اندر اپنے لیے ویٹو پاور یعنی حق انکار کو ایجاد کیا۔ فتح کی احساس برتری اور اقوام متحدہ کے قیام کا سہرا لینے کے لیے اس غیر منصفانہ حق کو اپنے تئیں خاص کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ ان ممالک (ریاست ہائے متحدہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین) کے ہر جائز اور ناجائز مفاد کی حفاظت کی جائے، اس ہتھیار کے ذریعہ دوسری اور تیسری دنیا کو بلا واسطہ اپنا غلام بنائے رکھا جائے اور ان کو اپنی حاشیہ برداری پر مجبور کیا جائے۔
1945 ء میں اس کے قیام سے لیکر اب تک روس نے ایک سو بیس مرتبہ، ریاست ہائے متحدہ نے 87 مرتبہ، برطانیہ نے 32 مرتبہ، فرانس نے 18 مرتبہ اور چین نے 5 مرتبہ اس حق کا استعمال کیا ہے۔ اس کے قیام کے پہلے دس سالوں میں ہی روس نے 79 بار اس حق کا استعمال کیا، پھر 1957ء سے لے کر 1987ء تک اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے مسلسل استعمال کرتا رہا۔
بعد کی دہائیوں میں ریاست ہائے متحدہ نے اسرائیل کی حمایت، صہیونی مفادات کے تحفظ ، ان کے مظالم کو بڑھاوا دینے اور فلسطینیوں کی زمین کو غصب کرنے کے لیے بڑی ہی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ اس حق کا استعمال کیا۔ اسی طرح اس نے جنوبی افریقہ، نامبیا، نیکاراگواNicaragua اور ویتنام کے خلاف بالترتیب 10، 8، 7 اور 5 بار اس حق کا استعمال کیا، ان کے حق میں اقوام عالم کی طرف سے پاس کی جانے والی قراردادوں کو مسترد کر کے انسانی حقوق کی اعلانیہ پامالی کی۔
چین نے 1972ء میں بنگلہ دیش کی رکنیت کو مسترد کرنے کے لیے اس حق کا استعمال کیا۔ اسی سال مشرق وسطی کے لیے پاس ہوئی قراداد کو روس کے ساتھ مل کر ویٹو کیا۔ 1999ء میں مقدونیہ میں اقوام متحدہ کے فوج کی توسیع کے خلاف ویٹو کیا۔ اسی طرح 1997ء میں اقوام متحدہ کے 155 تفتیش کاروں کو گوئٹے مالا Guatemala بھیجے جانے کی قرارداد کو مسترد کردیا۔
اس ظالمانہ حق کا سب سے زیادہ فائدہ صہیونی لوبی کو ہوا، انھوں نے امریکہ کی نکیل اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہوئے اپنے خلاف پاس ہونے والی تمام قراردادوں کو مسترد کروایا۔ اس طرح انھوں نے نہ صرف یہ کہ خلیج میں اپنی دھاک جمالی بلکہ فلسطین کی تقریبا پوری زمین ہڑپ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اسی ہتھیار کو استعمال کر کے سیناء، سریا، لبنان اور اردن کی زمینوں کو ہتھیانے میں کامیاب ہوئے۔
اس کی وجہ سے سب سے زیادہ خسارہ عرب اور مسلم ممالک کو ہوا ، انھیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی اور عالمی استبداد کے مشق ستم بنے۔ خاص طور پر روس اور امریکہ نے اس حق کا ناجائز استعمال کر کے ان کے داخلی، خارجی، علاقائی اور مشترکہ حقوق کی پامالی کی۔
ان دنوں روس قصاب الاسد کے چنگزیت کی نہ صرف سرپرستی کر رہا ہے بلکہ وہ بھی معصوم شامیوں کے خون سے اعلانیہ ہولی کھیل رہا ہے۔ وہاں جنگ بندی، ناکہ بندی کا خاتمہ، انسانی رسد کی رسائی، ایک مامون خطے کی تعین اور اس طرح کی ہر اس قرارداد کو ویٹو کرتا چلا جارہا ہے جو مظلوم شامیوں کے حق میں پاس کی جاتی رہی ہیں۔ اب تک اس طرح کی چھ قراردادوں کو مسترد کر چکا ہے۔
ویٹو پاور نے عالمی سلامتی کو کافی نقصان پہنچا یا ہے،
اس کی وجہ سے جنگیں بھڑکی ہیں اور طول پکڑی ہیں، لاکھوں شہری قتل اور خانماں برباد ہوئے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اقوام عالم اس ناجائز حق کے خلاف آواز بلند کرے۔ اگر یہ یونہی باقی رہا تو کچھ لوگ دنیا میں دہشت پھیلاتے رہیں گے، ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رہے گا، معصوم قوموں پر من مانی حکومتیں مسلط کی جاتی رہیں گی اور بین الاقوامی چپقلش بڑھتی چلی جائے گی۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیائے انسانیت کی ساری قومیں متحد ہوں، اس ظالمانہ نظام کو ختم کرنے کی کوششیں کی جائیں، صحیح جمہوری طریقہ سے سلامتی کونسل کی تشکیل نو کی جائے، قوموں اور ملکوں کو ایسی قرارداد پاس کرانے کا اختیار ہو جس سے مظلوموں کی حمایت اور دستگیری ہو سکے ۔ ماضی قریب میں بھارت، برازیل، جرمنی، ترکی، چند خلیجی اور یورپی ممالک اور جنوبی امریکہ کے کچھ ممالک نے اس کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ سب مل کر پھر اس کے خلاف صف بستہ ہوں اور ایک عادلانہ عالمی نظام قائم کرنے کی کوشش کریں۔





