عمر فاروق قاسمی دملہ مدہوبنی بہار
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جمیعہ الطلبہ دفتر میں پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی ایک تصویر پر کچھ کٹر پنتھوں نے ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے، جب کہ علی گڑھ کے طلبہ نے صاف کہ دیا کہ ہمیں جناح کے نظریہ سے اتفاق نہیں ہے، ہمارے اسلاف نے جناح کے نظریہ کو اسی وقت ریجیکٹ کردیا تھا جس وقت انہوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا تھا البتہ یہ تصویر اس لئے لگی ہوئی ہے کہ انہیں غیر منقسم ہندوستان میں انیس سو ارتیس کو ہی تاحیات اعزازی ممبر شپ سے نوازا گیا تھا، اور جن لوگوں کو یہ اعزاز بخشا گیا ہے ، ان سبھی کی تصویریں وہاں آویزاں ہیں، لیکن اس کے باوجود شدت پسندوں کو اطمنان نہیں ہے، بلاشبہ جان دار کی تصویر سازی اور ذی روح تصاویر کو آویزاں کرنا اسلامی تعلیمات کے مطابق حرام ہے، اور ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے مجھے تصویر سازی کی وکالت کرنی بھی نہیں ہے، مجھے تو شدت پسندوں کے دہرے رویہ پر ہنسی آتی ہے مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ علی گڑھ میں جناح کی تصویر سے اتنی نفرت ہے تو شیوا جی کے گڑھ ممبئی میں جناح ہاؤس سے اتنا پیار کیوں ہے، جناح ہاؤس کو کیوں نہیں بلڈوزر سے اکھاڑ کر پاکستان بھیج دیا جاتا ہے، جیسا کہ ایک تصویر وائرل ہورہی ہے اس کے مطابق ہندوستان کے پارلیمنٹ ہاؤس میں بھی جناح کی تصویر نظر آتی ہے، ایک ہندوستانی جب ممبئی کے وی ٹی (وکٹوریہ ٹرمینل جس کا کچھ سالوں پہلے نام بدل دیا گیا ہے ) اسٹیشن سے باہر آتا ہے تو انگریزی ملکہ وکٹوریہ کا قد آدم اسٹیچو دیکھتا ہے تو اسے بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ جن انگریزوں نے ہمیں سالوں غلام بنائے رکھا اس کا اتنا بڑا اسٹیچو کیوں ہے؟
جب ایک ہندوستانی کلکتہ میں وکٹوریہ پارک کے قریب سے گزرتا ہے تو یقیناً اس کے دل میں درد اٹھتا ہوگا کہ جس انگریزوں سے میری صدیوں لڑائی رہی اس کے نام پر یہ خوبصورت پارک کیوں ہے،؟
دلی کا انڈیا گیٹ جو لاکھوں لوگوں کی سیر و تفریح کا مرکز بنا رہتا ہے وہ بھی ایک سچے ہندوستانی کے لیے غلامی کی دلیل ہے،اور تو اور ہمارے ملک کی سب سے زیادہ قابل فخر دو عمارتیں، پارلیمنٹ اور راشٹر پتی بھون بھی انہیں انگریزوں کی نشانیاں ہیں جن سے ہمارے مشترکہ آباء و اجداد نے گولیاں کھائی ہیں، اور پھانسی کے پھندوں کو چوما ہے، دراصل آر ایس ایس اور دگر بھگوا تنظیموں کے نزدیک حب الوطنی کا الگ الگ پیمانہ ہے، اڈوانی جی جناح کو سیکولر کہ دیں، ان کی قبروں پر جاکر پھول چڑھا کر آئیں تو بھی ان کی دیش بھگتی پر کوئی آنچ نہیں آتا، جسونت سنگھ جناح کی تعریف اپنی کتاب میں کردیں تو کوئی بات نہیں، مودی جی نواز شریف کی ماں کی قدم بوسی بھی کریں تو بھی وہ دیش بھگت ہیں، وید پرتاب ویدک حافظ سعید سے تنہائی میں ملاقات کر آئیں تو ان کی دیش بھگتی ختم نہیں ہوتی، لیکن اگر کسی مسلم ادارے اور مسلم شخص سے لفظ پاکستان بھی نکل جائے تو وہ غدار ہے، بھگوا دھاریوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سارے اختلافات کے باوجود بین الاقوامی روا داری اور انٹر نیشنل مفاہمت بھی کوئی چیز ہے، جن انگریزوں کے خلاف ہم نے جنگ لڑی ہے اسی کے دارالحکومت لندن میں مہاتما گاندھی کا اسٹیچو، آکسفورڈ یونیورسٹی میں گاندھی اور نہرو کی تصویریں، اسلام آباد میں گاندھی اور جناح کا اسٹیچو، لاہور میں بھگت سنگھ چوک، ہندوستان میں ملکہ وکٹوریہ اور دگر انگریز کے اسٹیچو، ممبئی میں جناح ہاؤس دراصل اسی رواداری کی مثالیں ہیں، جو یہ بتاتا ہے کہ اختلاف میں بھی اعتدال ضروری ہے، لندن میں گاندھی کی تصویرکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ لگانے والے لندن کے غدار اور ہندوستان کے وفادار ہیں اسی طرح وکٹوریہ کی تصویر بنانے کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں کے لوگ ہند مخالف اور انگریز نواز ہیں، انگریزوں کی بنائی ہوئی پارلیمنٹ اور راشٹر پتی ہاؤس میں ہندوستان موافق فیصلے ہی کئے جاتے ہیں نہ کہ انگریزی کی وفاداری کے نغمے گائے جاتے ہیں، ان کے باوجود اگر ہمارے دیش بھگت ساتھیوں کو جناح کی تصویرسے اتنی ہی نفرت ہے تو آئیے ہم سب جناح کی تصویر علی گڑھ سے اجاڑ کر پاکستان رسید کردیتے ہیں، بلاشبہ جناح سے ہم ہندوستانی مسلمانوں کو بھی اتنی ہی نفرت ہے جتنی آپ کو، کیونکہ اسی کی وجہ ہندوستان میں مسلمانوں کی عددی طاقت اتنی کمزور ہوئی ہے،اور ہمارے اوپر ملک کی تقسیم کا طعنہ اسی شخص کی وجہ سے لگا ہے لیکن ساتھ ہی بلڈوز لیکر ہمارے ساتھ چلیں، ممبئی کے جناح ہاؤس، وی ٹی کے وکٹوریہ اسٹیچو، کلکتہ کے وکٹوریہ پارک، دلی کا انڈیا گیٹ، راشٹر پتی بھون، اور پارلیمنٹ کی در و دیوار کو اکھاڑ پھینکیں، کیونکہ یہ بھی غیروں کی غلامی کی دلیل اور دشمنوں کے فخر کی علامت ہیں اور ہم ہندوستانی خود اپنے دست بازو سے کم از کم پارلیمنٹ اور راشٹر پتی بھون تعمیر کرکے دکھلائیں کیوں کہ یہیں ہمارے ملک کی تعمیر و ترقی کے فیصلے ہوتے ہیں اور اگر نہیں تو یہ دوہری چالیں بند کریں اور نام نہاد دیش بھگتی کا پاٹھ ہمیں مت پڑھائیں، ہم ہندوستانی ہیں، تھے، اور رہیں گے،اور ہمارے اجداد کے خون یہاں کی مٹی لالہ زار ہوئی ہے، ہماری پیدائش بھی اس مٹی سے ہوتی اور عموماً مر کر بھی یہیں دفن ہوتے ہیں۔
رابطہ : 9525755126





