خورشید عالم داؤد قاسمی
جی ہاں، یہاں خفیہ طور پر کچھ بھی نہیں ہورہا۔ سب کچھ دن کے اجالے میں ہورہا ہے۔ غاصب مملکت اسرائیل کے شہر تل ابیب میں واقع، امریکی سفارت خانہ 14/مئی کو مقبوضہ بیت المقدس میں منتقل کردیا گیا۔ اسی یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس) میں جس کے اصل حقدار فلسطینی مسلمان ہیں۔ اس عمل سے امریکہ یہ واضح کردینا چاہتا ہے اسرائیل نے جس یروشلم (بیت المقدس) کو ظلم وجبر کے ساتھ 1967ء میں قبضہ کرکے اپنا دار الحکومت بنانا چاہتا ہے، اس میں امریکہ کی مرضی بھی شامل ہے۔ پچھلے ہفتے 12/مئی 2018ء کو امریکی صدرنے ٹویٹ کیا تھا: (Big week next week when the American Embassy in Israel will be moved to Jerusalem. Congratulations to all!) “یعنی آئندہ ہفتہ عظیم ہفتہ ہوگا، جس وقت اسرائیل (تل ابیب) میں واقع امریکی سفارت خانہ، بیت المقدس منتقل کیا جائے گا۔ سب لوگوں کو مبارک ہو!” 14/مئی 2018ء کو صبح صبح اسی امریکی صدر نے ٹویٹ کیا (A great day for Israel!) یعنی اسرائیل (کی تاریخ) کا ایک عظیم دن۔ تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔ مگر ہاں، شرم سے ڈوب مرنے کی بات ہے کہ ایک امریکی صدر کی چودھراہٹ کے سامنے درجنوں مسلم ممالک کے زعماء وقائدین گیدر بن کر بِل میں گھسے ہوئے ہیں؛ جب کہ ان کے پاس کافی وقت تھا کہ وہ ہمت کا مظاہرہ کرتے، عالمی برادری سے مل کر باتیں کرتے، اس امریکی فیصلے کے خلاف ماحول تیار کرتے اور امریکہ کے ظالمانہ فیصلے پر روک لگانے کی کوشش کرتے ۔ مگر انھوں نے ایساکچھ بھی نہیں؛ اس لیے انھیں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے؛ لیکن سوال یہ بھی تو ہے کہ کیا ان اندر شرم وحیا نام کی کوئی چیز بھی ہے؟!
امریکی صدر نے گزشتہ سال یعنی 6/دسمبر 20017 کو ہی “بیت المقدس” کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد، کچھ مسلم ممالک کے حکمرانوں نے ٹرمپ کے اس ظالمانہ رویے کے خلاف آواز اٹھاکر، خواب غفلت سے بیداری کا ثبوت پیش کیا تھا؛ تو لوگوں کو امید بندھی تھی کہ اب پانی سر سے اونچا ہورہا؛ اس لیے مسلم ممالک لیڈران کم از کم اب بیدار ہوگئے ہیں۔ اب فلسطین کی آزادی، بیت المقدس کی بازیابی اور مسجد اقصی کی حفاظت کے حوالے سے کچھ مثبت فیصلے لیے جائیں؛ مگر چند دنوں کے بعد ہی سب کے سب پہلے ہی کی طرح خاموش ہوگئے۔ ترکی کے مرد آہن، رجب طیب اردگان استنبول سے لندن تک تک کچھ نہ کچھ بول رہے ہیں؛ مگر شخص واحد کربھی کیا سکتا ہے۔ مسٹر ٹرمپ کے بدبختانہ اعلان کے بعد، عرب لیگ کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی ہنگامی میٹنگ، مصر کی راجدھانی قاہرہ میں منعقد ہوئی تھی۔ اس میٹنگ میں ممبران نے واضح لفظوں میں امریکی صدر کےفیصلے کی مذمت کی تھی اورعالمی برادری سے یہ مطالبہ بھی کیا گيا ہے کہ وہ فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم کریں۔ مگر اس کے عملی طورپر کوئی قدم نہیں بڑھایا؛ بل کہ ماضی کی طرح سب خاموش بیٹھ گئے۔
آخر کار 14/مئی کا دن آیا اور تل ابیب میں واقع امریکی سفارت خانہ کو بیت المقدس منتقل کرنے کا عمل شروع ہوگیا۔14/مئی کی شام کو چار بجےبیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ کی منتقلی کی مناسبت سے ایک افتتاحی تقریب منعقد کی گئی۔ غاصب اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامین نتین یاہو نے اس افتتاحی پروگرام میں شرکت کرکے امریکی صدر کے فیصلے کو سراہا۔نیتن یاہو نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ ہماری راجدھانی ـــ بیت المقدس ـــ میں، ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سفارت خانہ کا افتتاح ہورہا ہے! نیتن یاہو نے امریکی صدر ٹرمپ کا ٹویٹر پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ “(آج کا دن) کیا ہی ایک حیرت انگیز دن ہے!” امریکہ کے اعلی سطحی وفد کی موجودگی میں سفارت خانہ کا افتتاح ہوا۔ اس تقریب میں اسٹیٹ ڈپٹی سکریٹری جون سلیوان، امریکی وزیر خزانہ اسٹیون منوچن، ٹرمپ کے داماد اور مشیر اعلی جیرڈ کشنر، ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ اوربین الاقوامی مذاکرات کے خصوصی نمائندہ جاسون گرینبلیٹ نے بھی شرکت کی۔ امریکی صدر ٹرمپ گرچہ اس پروگرام میں موجود نہیں تھے؛ لیکن ٹیلی کانفرنس کے ذریعے اپنے بیان سے مسلم ممالک کے حساس عوام کے دلوں کومجروح کرتے ہوئے اپنے منافقانہ خطاب میں کہاکہ “آج ہم نے جو فیصلہ کیا ہے، وہ اس بات کا اظہار ہے کہ ہم اسرائیلی عوام کے ساتھ ہیں۔” ٹرمپ نے اپنے اسی بیان میں متضاد باتیں کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ “امریکہ نے پائیدار امن سمجھوتے کی تشکیل کےلیے خود کو وقف کر رکھا ہے۔”
مڈل ایسٹ آئی (Middle East Eye) کی ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا، جس کو پڑھ کر کسی بھی انسانیت نواز شخص کا سر شرم سے جھک جائے گا اور وہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ کیا ایسے انسان بھی اس دنیا میں بستے ہیں؟ رپورٹ میں ہے کہ امریکی سفارت خانہ کی منتقلی کے وقت جہاں بیت المقدس میں آباد مسلمان پرامن احتجاج کررہے، وہیں صہیونیت نواز لوگ اپنے جشن کےاظہار میں فلسطینیوں کے خلاف یہ نعرے لگاکر کررہے تھے کہ”ان کو جلادو، ان گولیوں سے بھون دو، ان کو قتل کردو! (Burn them, shoot them, kill them) جس ریاست کے حکمرانوں کا دامن فلسطینیوں کے خون سے رنگین ہو اور اس کے شہری ایسی زبان بولتے ہوں، کیا ان سے بھی پائیدار امن سمجھوتے کی توقع رکھی جاسکتی ہے؛ جب کہ امریکہ پائیدار امن سمجھوتے کے لیے خود وقف کررہا ہے؟
امریکہ سپر پاور ہونے کے جھوٹے زعم وغرور میں، ہر جگہ ثالثی کا رول نبھانے کا خواہاں رہتا ہے۔ چناں چہ مشرق وسطی میں بھی فلسطین اورغاصب ریاست اسرائیل کے حوالے سے وہ خود کو ہمیشہ ثالثی بتاتا آیا ہے۔ اب کچھ انصاف پسند کچھ لوگ اس بات سے پریشان اور تعجب میں ہیں کہ جو خود کو ثالثی باور کرانے کوشش کرتا رہا ہو،وہ کیسے ایسا غیر دانش مندانہ قدم اٹھا رہا ہے جو بدیہی طور جانب دارای کی عکاسی کررہا ہے؛ کیوں کہ اس اشتعال انگیز فیصلے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ غیر جانبدار نہیں ہے؛ بل کہ دہشت گرد مملکت اسرائیل کا حلیف ومعین ہے جو فلسطین کا وجود ختم کرنے کی کوشش میں ہے۔
آج جس اقوام متحدہ کی قرار داد کے طفیل غاصب ریاست اسرائیل کا وجود نظر آرہا ہے، اسی اقوام متحدہ کے قرارداد نے فلسطین کی تقسیم کے وقت “یروشلم- بیت المقدس” کو “بین الاقوامی شہر” قرار دیا تھا، مگر اس پر غاصب اسرائیل اور اس کے ظالم حلیف نے کبھی توجہہ نے دی؛ تا آں کہ 1967 کی جنگ میں پورے بیت المقدس کو قبضہ کرلیا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قرار داد کے خلاف قدم اٹھایا تھا؛ بل کہ حقیقت یہ ہے فلسطین کے حق میں، اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے جب بھی کوئی قرار دار منظور کی گئی ہے، امریکہ اسے ویٹو کرنے یا پھر غاصب اسرائیل کی اس قرارادادکے خلاف عملی اقدام کرنے میں پشت پناہی کرتا رہا ہے۔ جب دسمبر 2017 ء میں ٹرمپ نے ظالمانہ انداز میں بیت المقدس کو غاصب اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرکے، امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے “بیت المقدس” منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا، اس وقت بھی ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار داد پاس کرکے امریکہ کے فیصلے کو مسترد کیا تھا۔ اس کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی واضح مخالفت کرتے ہوئے، امریکی سفارت خانہ کو بیت المقدس منتقل کرکے، اقوام عالم کو ایک بار پھر باور کرادیا کہ اسرائیلی مفاد کے خلاف اقوام متحدہ کے کسی قرارداد کی، اس کے سامنے کوئی وقعت واہمیت نہیں ہے۔
بہرکیف، صہیونی اسرائیلیوں نے اس امریکی فیصلے پر جشن منایا اور خوشی ومسرت کے ماحول میں، امریکی سفارت خانہ کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی ہوگئی۔ مسلم ممالک کے حکمراں خاموش تماشائی بنے رہے۔ شاید وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان حکمرانوں کے ممالک محفوظ، ان کی حکومتیں محفوظ ہیں، ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے، ان کے بیٹے بیٹیوں اور جگر کے ٹکڑوں کا قتل نہیں ہورہا ہے، ان کی بیٹیوں اور بیویوں کی عزت محفوظ ہے، ان کے آسمان چھوتے محلات پر کوئی قابض نہیں ہے، ان کی عیش وآرام کی زندگی میں کوئی مزاحم نہیں ہے، ان کےتعلیمی ادارے اور ہسپتالوں پر بمباری نہیں ہورہی ہے، ان کے ہرے بھرے باغات جلائے نہیں جارہے ہیں، پھر ان کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اسرائیل و امریکہ کے خلاف آواز اٹھائیں؛ جب کہ اسرائیل اپنی وحشیانہ طاقت کا استعمال کررہا ہے، ظلم وجور اور کھلی دہشت گردی کا ارتکاب کررہا ہے اور امریکہ اس کی واضح طور پر حمایت میں لگا ہے۔
مسلم ممالک کے خاموش اور بے غیرت حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو اسرائیل آج فلسطینیوں کی آزادی چھین رہا ہے، فلسطینیوں کی زمینیں قبضہ کررہا ہے،مسلمانوں کے قبلہ اول کو مسمار ومنہدم کرنے کی مذموم سعی کررہا ہے، فلسطینیوں کے مدارس واسکولس اور ہسپتالوں تک پر بمباری کرنے میں دریغ نہیں کرتا، فلسطینیوں کے ہرے بھرے باغات کو نذر آتش کرتا ہے، ہزاروں فلسطینیوں کو قید کیے ہوا ہے، ان کے معصوموں، بوڑھوں، مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی تمیز کے گولیوں سے بھون رہا ہے، فلسطینیوں کا قتل عام کررہا ہے، فلسطینیوں کی نسل کشی کا مجرم ہے، وہ اسرائیل جب فلسطینیوں سے فارغ ہوگا؛ تو پھر وہ ان گیدروں، بزدلوں، منافقوں اور عیاشوں پر حملہ کرے گا جو آج خاموش تماشائی ہیں۔ دانشمندی اسی میں ہے ابھی بھی مسلم ممالک کے قائدین اتحاد واتفاق کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر آکر، کھلے طور پر فلسطینیوں کی حمایت کریں، بیت المقدس ومسجد اقصی کی بازیابی اور فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد ریاست سے کم پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ اگر ایسا نہیں ہے؛ تو یاد رکھیں کہ “آج ہماری، کل تمھاری باری ہے”۔ مسلم ممالک کے لیڈران نوٹ کرلیں کہ امریکہ کا اسرائیل کو مادی ومعنوی قوت فراہم کرنے کا سیدھا مقصد، مشرق وسطی کو کنٹرول اور قبضے میں رکھنےکی مضبوط تیاری ہے، جس میں امریکہ کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے۔
گزشتہ کی طرح اس بار فلسطینی سرفروشان اسلام، انبیاء کی سرزمین: فسلطین اور مسلمانوں کے قبلہ اول کی حفاظت کے لیے 14/مئی کی صبح سے، امریکی سفارت خانہ کی منتقلی کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ قابض اسرائیلی فوج کی بندوقوں سے گولیاں بارش کی طرح ان پر امن مظاہرین پر برس رہی ہیں۔ اسرائیلی فوج اپنی طاقت کے نشے میں اس طرح مست ہے کہ بغیر کسی تمیز جس پر وہ چاہتی ہے فائرنگ کرتی ہے؛ چناں چہ ان کی گولیوں سے نہ صرف پرامن مظاہرین کے ساتھ معصوم بچے اور لائق رحم بوڑھے قتل ہورہے ہیں؛ بل کہ صحافی اور ڈاکٹر کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پر رہا ہے۔ اب تک کئی مظاہرین اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق، غزہ کے سرحدی علاقے میں، غاصب اسرائیل کی فوجیوں کی فائرنگ سے، جام شہادت نوش کرنے والوں کی تعداد”ساٹھ” تک پہنچ چکی ہے؛ جب کہ زخمیوں کی تعدادتین ہزار سے زاید ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ہمیں یقین ہے کہ ان شہیدوں کا خون ضرور نگ لائے گا۔ مگر یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ فلسطین کی آزادی، بیت المقدس کی بازیابی اور مسجد اقصی کی حفاظت کے لیے کتنے شہیدوں کا خون درکار ہے اور ان شہیدوں کا خون کب رنگ لائے گا؟
٭ ہیڈ: اسلامک ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in