ڈاکٹر فرقان حمید، انقرہ
ترکی میں صدارتی اور پارلیمنٹ کے انتخابات( پارلیمانی نہیں کیونکہ ملک میں پارلیمانی نظام ختم کرتے ہوئے صدارتی نظام کو اپنا لیا گیا ہے تاہم قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کے اراکین کا چناو بھی اسی روز کیا جائے گا) 24 جون 2018ء کو ہو رہے ہیں اور ماہ رمضان کے دوران تمام صدارتی امیدواروں نے اپنی صدارتی مہم کو زوروں شور سے جاری رکھا ہوا ہے۔ اس بار ہونے والے صدارتی انتخابات ترکی کی تاریخ میں ہونے والے تمام انتخابات سے بالکل مختلف ہیں کیونکہ اس بار ملک میں انتخابات کے بعد صدارتی نظام پر عمل درآمد شروع کردیا جائے گا اور منتخب ہونے والے صدر ، اسمبلی کے باہر سے جس کو چاہیں وزیر کے طور پر کابینہ میں لے سکتے ہیں جبکہ پارلیمنٹ کے منتخب شدہ اراکین صرف اسمبلی میں قانون سازی ہی کے فرائض ادا کرسکیں گےالبتہ کسی بھی رکن ِ پارلیمنٹ کو کا بینہ میں شامل کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ پہلے اپنی نشست سے مستعفی ہونے کا اعلان کرے اور اس کے بعد ہی وہ کابینہ میں شامل ہو سکے گا۔ اس طرح یہ انتخابات ترکی کی تاریخ میں ایک نئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں جس سے ترکی میں صدارتی نظام پر پوری طرح عمل درآمد کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
گزشتہ ہفتے میں نے اپنے کالم میں ترکی کی سیاست میں ایک نئے چہرے کو متعارف کروایا تھا اور اس سلسلے میں کافی بڑی تعداد میں ای میلز اور واٹس اپ پر شکریے کے پیغامات بھی موصول ہوئے ہیں اور دیگر صدارتی امیدواروں کے بارے میں بھی آگاہی فراہم کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس لیے آج ترکی کی ایک دیگر صدارتی امیدوار ” میرال آقشینر” کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی کوشش کروں گا۔ “میرال آقشینر “کے بارے میں سب سے پہلے یہ بتادوں جب مرحوم نجم الدین ایربکان کی پارٹی ” رفاہ پارٹی” سے جدید خیالات کے حامل ایک گروپ جس میں رجب طیب ایردوان، عبداللہ گل، بلنت آرنچ اورعبدالطیف شینر شامل تھے نے رفاہ پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایک نئی پارٹی کو تشکیل دینے کے لیے آپس میں جب صلاح و مشورے کا سلسلہ شروع کیا تو اس وقت میرال آقشینر بھی اس گروپ میں شامل ہو چکی تھی اور اس گروپ کے ساتھ انہوں نے بھی اس پارٹی کا نام رکھنے اور پارٹی کی تشکیل کے بارے میں اپنی مشاورت بھی فراہم کی تھی لیکن بعد میں جب انہوں نے اس پارٹی کی جانب سے ترک قومیت پسندی سے زیادہ مذہبی رجحانات کے ابھرنے کو محوسوس کیا تو انہوں نے نئی جماعت کی تشکیل ہی سے قبل اس جماعت سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے بعد میں “دولت باہچے لی ” کی قومیت پسند جماعت ” نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی” میں شمولیت اختیار کرلی۔ میرال آقشینر اس سے قبل ترکی کی پہلی وزیراعظم ” تانسو چیلّر” کے دور میں ملک کی وزیر داخلہ بھی رہ چکی ہیں۔ ان کے وزیر داخلہ بننے کے بارے میں بڑے دلچسپ دعوے کیے جاتے ہیں۔ ان دعووں کے مطابق فتح اللہ گولن جب ترکی میں تھے تو اُس دور میں میرال آقشینر کے فتح اللہ گولن اور ان کے قریبی دوستوں سے بڑے گہرے مراسم تھے اور فتح اللہ گولن کی خواہش پر ہی میرال آقشینر کو ” ترکی کے مشہور سیاستدان، وزیراعظم اور صدر ، مرحوم سلیمان دیمرل کی جماعت ” “صراطِ مستقیم پارٹی” کی رکنیت عطا کی گی اور ” تانسو چیلّر کی پارٹی چئیرپرسن اور وزیراعظم منتخب ہونے کے دور میں میرال آق شینر کو وزیر داخلہ بنایا گیا۔ وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد میرال آقشینر کے جانب سے وزیر داخلہ بنانے پر فتح اللہ گولن کے نام شکریے کا خط بھی سوشل میڈیا پر گردش کرتا رہا ہے جس کی میرال آقشینر نے ہمیشہ تردید کی ہے۔ علاوہ ازیں 15 جولائی 2016ء میں صدر ایردوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام بغاوت کے پیچھے بھی فتح اللہ گولن کا ہاتھ ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر فوجیوں کی یہ بغاوت کامیابی سے ہمکنار ہو جاتی تو بلا شبہ میرال آقشینر کو ہی ملک کا نیا وزیر اعظم بنایا جاتا ۔ اس سلسلے میں میرال آقشینر کے ان پیغامات نے الزامات کو بڑی تقویت دی جس میں انہوں نے کھلا کر کہا تھا کہ ” 15 جولائی کے بعد ملک میں حالات یکسر تبدیل ہو جائیں گے اور ایک نئے دور کا اغاز ہوگا ” ۔ ان تمام پیغامات کے بارے میں میرال آقشینر نے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ جان بوجھ کر ان پر فتح اللہ گولن کا ساتھی ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے تاکہ ان کے صدر بننے کی راہ کومسدود کیا جاسکے۔
میرال آقشینر نے صدارتی مہم کے آغاز پر بڑی تیزی سے مقبولیت حاصل کرنی شروع کردی تھی اور خیال یہی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ یہ ایردوان کو بڑا ٹف ٹائم دیں گی لیکن ” ری پبلیکن پیپلز پارٹی” کے صدارتی امیدوار ” محرم انجے” کے میدان میں آنے کے بعد محرم انجے ان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بہت آگے نکل چکے ہیں اور اس وقت تک کرائے جانے والے تمام سروئیز میں میرال آقشینر کو تیسرے صدارتی امیدوار کی حیثیت حاصل ہے جبکہ پہلے نمبر پر رجب طیب ایردوان دوسرے نمبر پر محرم انجے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی اتحاد میں (ملت اتحاد) میں شامل سعادت پارٹی جوکہ محروم نجم الدین ایربکان کے فلسفےپر مشتمل جماعت ہے کے چئیرمین “تے میل قارا مولا اول” و اور وطن پارٹی کے چئیرمین” دعو پرینچیک” بھی صدارتی امیدوار کے طور پر حصہ لے رہے ہیں جبکہ اس اتحاد کے مردِ مقابل جمہور اتحاد کی جانب سے صدر ایردوان صدارتی امیدوار کے طور پر حصہ لے رہے ہیں جبکہ ان ہی کے اتحاد میں شامل نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے چئیرمین دولت باہچے لی صدر ایردوان کی حمایت میں صدارتی امیدوار کے طور پر انتخاب میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔
کالم کے اس حصے میں ترکی کی پہلی خاتون صدارتی امیدوار ” میرال آقشینر” کی زندگی پر روشنی ڈالتا چلوں۔بلقانی ترک گھرانے سے تعلق رکھنے والی میرال آقشینر 18 جولائی 1956ء میں ازمیت میں پیدا ہوئیں ۔ 1974 ء میں برصا گرلز کالج میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد استنبول یونیورسٹی کی فیکلٹی آف لٹریچر کے شعبہ تاریخ میں داخلہ لے لیا اور 1979 میں اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئیں۔ انہوں نے 1979ء اور 1982ء کے درمیانی عرصے کے دوران ایک اسکول میں ٹیچر کے طور پر فرائض ادا کیے اور پھر یلدیز ٹیکنیکل یونیورسٹی کوجہ ایلی کی فیکلٹی آف انجنئیرنگ میں ریسرچ فیلو کے طور پر خدمات سرانجام دیں اور مرمرہ یونیورسٹی سے پہلے ماسٹر اور بعد میں پی ایچ ڈی کیا۔ 1995ء “صراطِ مستقیم پارٹی جوائن کرلی اور پہلی بار قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے رکنِ پارلیمنٹ منتخب ہوئیں۔ 28 جون 1996 میں نجم الدین ایربکان کی قیادت میں رفاہ پارٹی اور صراطِ مستقیم پارٹی کی کوالیشن پر مشتمل نئی حکومت میں وزیر داخلہ مقرر ہوئیں اور 30 جون 1997 تک حکومت کےمستعفی ہونے تک یہ فرائض ادا کرتی رہیں۔ 4 جولائی 2001ء میں صراطِ مستقیم پارٹی سے مستعفی ہو کر ایردوان کی قیادت میں قائم ہونے والی نئی جماعت ” جسٹس اینڈ ڈولپمینٹ پارٹی” کے لیے کام کیا لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد خود ہی اس جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی اور اسی سال نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور پارٹی کے چئیرمین دولت باہچے لی کے سیاسی امور میں معاونت کی۔ 2011ء اور 2015ء میں دونوں بار نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی سے رکنِ پارلیمنٹ منتخب ہوئیں۔ 2015ء کے انتخابات میں ان کی جماعت کے پہلے سے کم نشستیں حاصل کیے جانے پر انہوں نے پارٹی کے چئیرمین دولت باہچے لی پر شکست کی ذمہ داری ڈالتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا اورخود کو آئندہ پارٹی کنونشن میں پارٹی کی چئیرپرسن کے طور پر انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا جس پر انہیں پارٹی ہی سے فارغ کردیا گیا۔ اس پر میرال آقشینر نے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا لیکن عدلیہ نے ان کی اپیل مسترد کردی جس پر انہوں نے اپنی جماعت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ 25 اکتوبر 2017ء کو ” گڈ پارٹی” کے نام سے نئی سیاسی جماعت کو تشکیل دیا ۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اس جماعت نے بائیں بازو کی جماعت ” ری پبلیکن پیپلز پارٹی” کے ساتھ مل کر ایردوان کے خلاف “ملت اتحاد” کے نام سے نیا اتحاد تشکیل دیا جس میں بائیں بازو کی وطن پارٹی اور دائیں بازو کی سعادت ہے ہل پارٹی بھی شامل
furqan61hameed@hotmail.com