آسٹریا کے چانسلر سیباستیان کرس نے اعلان کیا تھا کہ ملک میں غیر ملکی مالی معاونت حاصل کرنے والی بیشتر مساجد کی تالہ بندی کر دی گئی ہے، درجنوں اماموں کی ملک بدری کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ ان سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
انقرہ:آسٹریا کی جانب سے غیر ملکی معاونت سے کام کرنے والی مساجد کی بندش کے فیصلے پر ترک صدررجب طیب اردگان نے ’صلیب‘ اور ’ہلال‘ کے مابین جنگ سے خبردار کیا ہے۔ ویانا حکومت کے مطابق یہ اقدام ’سیاسی اسلام‘ کے خلاف اٹھایا گیا ہے۔
ترک صدر آسٹریا میں سات غیر ملکی امداد پر انحصار کرنے والی مساجد کو بند کیے جانے اور ان مساجد سے منسلک درجنوں ترک نژاد اماموں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کے خلاف کارروائی کرنے پر زور دیتے ہوئے اس اقدام کو ’اسلام مخالف‘ قرار دیا ہے۔ استنبول میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’ان کو خدشہ ہے کہ آسٹریا کے چانسلر کا یہ فیصلہ دنیا کو ’صلیب‘ اور ’ہلال‘ کے مابین جنگ کی طرف راغب کرے گا‘۔ صدر ایردوآن نے ’اسلام اور عیسائیت‘ کے درمیان جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ ”اگر (آسٹریا) یہ عمل سرانجام دے گا تو ان کی جانب سے بھی اس معاملے پر جوابی رد عمل سامنے آئے گا“ اور ”مغربی ممالک کو درست سمت میں فیصلے کرنے چاہیے“۔
جمعہ آٹھ جون کو آسٹریا کے چانسلر سیباستیان کرس نے اعلان کیا تھا کہ ملک میں غیر ملکی مالی معاونت حاصل کرنے والی بیشتر مساجد کی تالہ بندی کر دی گئی ہے، درجنوں اماموں کی ملک بدری کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ ان سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس تناظر میں ترک صدر کے ترجمان نے ویانا حکومت کے اس اقدام کو ملک میں بڑھتے اسلام مخالف، نسل پرست، عوامیت پسند اور تعصب پر مبنی جذبات کی عکاسی قرار دیا ہے۔
آسٹریا میں قریب تین لاکھ ساٹھ ہزار ترک نژاد افراد مقیم ہیں، جن میں سے ایک لاکھ سترہ ہزار ترک شہری ہیں۔ انقرہ اور ویانا حکومتوں کے درمیان بڑھتے تناو کی وجہ چانسلر کرس کے مہاجرین مخالف بیانات اور ترکی کی یورپی یونین کے رکنیت کے سسلسے میں مخالفت بھی ہے۔
سیاسی اسلام کے خلاف کریک ڈاون دائیں بازو کی جانب جھکاورکھنے والے چانسلر کرس کے مطابق یہ کریک ڈاو¿ن مذہب اسلام کے خلاف نہیں بلکہ بعض افراد کی جانب سے اسلام کے سایے میں جاری سیاسی ایجنڈے کے خلاف کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ویانا میں ایک ایسی مسجد کو بند کیا گیا ہے، جو ترک قوم پرستوں کے زیر انتظام تھی۔مزید ویانا حکومت نے مسلمانوں کے ایک مسلمان مذہبی گروپ ’ عرب کمیونٹی‘ کو بھی تحلیل کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ یہ مذہبی گروپ کم از کم چھ مساجد کا انتظام و انصرام رکھتا تھا۔
چانسلر سیباستیان کرس کے مطابق یہ فیصلہ مذہبی معاملات کے نگران ادارے کے کئی ہفتوں سے جاری تفتیشی عمل کے بعد کیا گیا ہے۔ آسٹریائی ادارے نے یہ تفتیش رواں برس ان تصاویر کی اشاعت کے بعد شروع تھی جن میں ترکی کی حمایت یافتہ مساجد میں بچے پہلی عالمی جنگ کی گیلی پولی لڑائی کو پیش کرنے کے دوران مرنے اور مارنے کے مناظر کی اداکاری میں مصروف دکھائے گئے تھے۔ یہ تصاویر جرمن شہر کولون میں واقع ایک ترک۔اسلامی ثقافتی مرکز (اے ٹی آئی بی) تنظیم کی جانب سے شائع کی گئی تھی۔ واضح رہے یہ تنظیم ترکی کے مذہبی امور کے دفتر ’دیانت‘ کی شاخ ہے۔
یورپ میں انتہائی دائیں بازوں کی حکومتوں کی جانب سے آسٹریا کے ’شدت پسندی کے خلاف‘ اقدام کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ دوسری جانب ترک صدراردگان پر یہ مخالفین کا الزام ہے کہ وہ ملک میں مورخہ چوبیس جون کو متوقع عام انتخابات سے قبل اپنی انتخابی مہم میں ’مغرب مخالف‘ بیانات سے قدامت پسند ووٹرز کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔