ریاض:تین خلیجی ممالک نے مالی مشکلات کے شکار ملک اردن کو 2.5 بلین ڈالر کی امداد فراہم کرنے کا عہد کیا ہے۔ اس عرب ملک کو بچتی منصوبوں اور ٹیکسوں میں اضافے کے نتیجے میں عوام کے سخت ردعمل کا سامنا ہے۔خبر رساں ادارے اے پی نے میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ پیر کے دن تین خلیجی ممالک نے اردن کے لیے دو اعشاریہ پانچ بلین ڈالر کی امدادی رقوم فراہم کرنے کا عہد کیا ہے۔
اس امریکی اتحادی عرب ملک کو شدید مالیاتی بحران کا سامنا ہے اور اس کے نتیجے میں عوامی سطح پر مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔ اردن کی حکومت نے مالی مشکلات کے پیش نظر سخت بچتی اقدامات متعارف کرائے ہیں جبکہ ٹیکسوں میں اضافہ بھی کیا گیا ہے۔
اس تناظر میں سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات نے کہا ہے کہ وہ امدادی رقوم اردن کے مرکزی بینک کو مہیا کریں گے۔ توقع ہے کہ اس پانچ سالہ امدادی پیکج کے نتیجے میں اردن کی حکومت نئے اور بہتر بچتی منصوبہ جات متعارف کرانے میں کامیاب ہو سکے گی، جس سے بین الاقوامی قرض دہندگان بشمول ورلڈ بینک اور عوام کا اعتماد بحال کیا جا سکے گا۔
پیر کے دن سعودی شہر مکہ میں ہوئی ایک میٹنگ میں اردن کو یہ رقوم فراہم کرنے کے حوالے سے فیصلہ کیا ہے۔ اس میٹنگ میں اردن کے بادشاہ عبداللہ الثانی اور سعودی شاہ سلمان بھی شریک ہوئے۔ اس ملاقات کے بعد اردن کے بادشاہ نے توقع ظاہر کی ہے کہ اس امدادی پیکج سے ان کے ملک میں جاری اقتصادی بحران کو قابو کیا جا سکے گا۔
اردن میں اقتصادی مسائل کے بعد شروع ہونے والے عوامی مظاہروں کی وجہ سے وزیر اعظم کو برطرف کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ مظاہرے پرامن رہے ہیں تاہم خدشہ ہے کہ اس سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔
اردن نے شام اور عراق کے ہزاروں باشندوں کو پناہ بھی دے رکھا ہے، جس کی وجہ سے اردن کو انتطامی اور مالیاتی مسائل کا سامنا بھی ہے۔اردن ایسے دو عرب ممالک میں شامل ہے، جن کے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ علاقائی سطح پر جاری تنازعات کے علاوہ اسرائیل اور فلسطینی تنازعے کے حل کی خاطر بھی اردن کی حکومت اہم سفارتی کردار ادا کر سکتی ہے۔عالمی ماہرین کے مطابق اردن میں مالیاتی مسائل کی وجہ سے پیدا ہونے والے ممکنہ عدم استحکام سے خطے میں ایک نیا بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے۔