کمال تو یہ ہے کہ دشمن بھی گواہی دے

عمرفاروق قاسمی
اکیس جون کو میرا اسکول معمول کے مطابق کھلا تھا، میں بھی ورکنگ ڈے ہونے کی وجہ سے اسکول پہنچا، مجھے معلوم تھا کہ آج یوگا دوس بھی ہے، دوتین دنوں سے سرکاری عملہ کی جانب شرکت کے لئے ترغیبی مہم بھی جاری تھی، شروع میں مجھے یہ معلوم ہوا کہ انیس تاریخ سے ہی سرکاری عملہ یوگا کی ٹریننگ دیں گے، بڑی کشمکش میں مبتلا ہوگیا، مجھے محسوس ہوا کہ سرکاری عملہ کے دباؤ میں کہیں اس کی ٹریننگ میں شرکت نہ کرنی پڑ جائے، میں تین دن کے لیے رخصت اتفاقیہ پر چلا گیا دوسرے دن اسکول کے ایک مسلم ساتھی سے معلوم ہوا کہ اسکول آنے میں کوئی حرج نہیں ہے ہم لوگ اس عمل سے الگ تھلگ رہیں گے ، میں اس مقصد سے کہ مسلم بچے اس میں کتنی تعداد میں شرکت کرتے ہیں اس کی بھی جانکاری مل جائے اور ورکنگ ڈے بھی ہے اکیس جون کو اسکول پہنچا، میں نے دیکھا کہ گراؤنڈ میں تڑپال وغیرہ بچھا ہوا ہے، وقت سے پہلے ہی سرکاری کچھ عملہ موجود ہیں اور کچھ طلبہ و طالبات اور کچھ مقامی بچے بھی یوگا کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں ، میں عمداً اس جگہ نہ جاکر آفس میں جاکر بیٹھ گیا، اس کے بعد سارے غیر مسلم ٹیچر آتے گئے اور پروگرام کی طرف بڑھتے گئے، میں اور ایک اور مسلم ٹیچر نے ادھر نہ جانے کا فیصلہ کیا اور ہم دونوں آفس میں بیٹھے رہے ، طلبہ آتے رہے اور پروگرام کی طرف بڑھتے گئے اور جتنی تعداد میں طلبہ کو آنا تھا آئے افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگوں کی خاموش محنت کے باوجود سات آٹھ مسلم طالبات بھی اس پروگرام میں شریک ہوکر یوگا میں مشغول ہوگئیں، اگرچہ لگ بھگ چھ سو مسلم طلبہ و طالبات میں یہ تعداد، آٹے میں نمک کے برابر تھی اور محسوس ہوا کہ وہ بلا سوچے سمجھے اس میں شامل ہوگئی ہے تاہم اتنی تعداد میں بھی بچیوں کا آنا افسوس ناک تھا؛ پروگرام میں جاکر انہیں منع کرنا خلاف مصلحت تھا، اس لیے خاموش آفس میں بیٹھ گیا ، پروگرام سے پہلے اور اس کے بعد ہمارے کچھ دوستوں نے ہم سے سوال کیا کہ یوگا پروگرام میں آپ کیوں شریک نہیں ہوئے، میں نے کہ آپ حضرات شوق سے کریں مجھے کوئی اعتراض نہیں میں اسکول آیا ہوں یوگا میں نہیں ؛ ویسے بھی یہ اختیاری معاملہ ہے جبری نہیں ، اس لئے میرا یوگا میں شریک ہونا ضروری نہیں ہے، اگر چہ گفتگو دوستانہ ماحول میں تھی لیکن ان لوگوں کا اصرار تھا کہ شرکت ضروری ہے کیونکہ حکومت کا حکم نامہ ہے، میں نے کہا اس کے بعض حصے اسلام کے خلاف ہیں ، اگر یوگا لازمی حصہ تو آپ پروگرام کی تصویر کے ساتھ(جس میں میں نہیں تھا) میرے خلاف ایف آئی آر کرائیے، یا ڈی ای او کی طرف سے وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرائیں لیکن انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا، کل ہوکر جب میں اسکول پہنچا تو اچانک شوسل میڈیا پر ایک خبر گردش کررہی تھی (جس کو غالباً ان لوگوں نے بھی اخبار میں پڑھ لیا تھا) کہ یوگا پروگرام میں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے شرکت نہیں کی، اتنی بات تو میرے لئیے مضبوط دلیل تھی ہی، اس پر شوسیل کمار مودی کا جملے نے میرے موقف کو اور مدلل کردیا کہ ضروری نہیں ہے کہ ہرکوئی یوگا کے پروگرام میں آئے، الفضل بماشھہدت بہ الأعداء، کمال تو یہ ہے کہ دشمن بھی حق میں گواہی دینے لگے، اردو میں کہتے ہیں ’ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ‘ اگرچہ اگر کسی مسلم وزیر اعلی نے مجلس یوگا سے علیحدگی اختیار کی ہوتی تو ان کا جملہ کچھ اور ہوتا، نتیش چونکہ ان کے ساتھ حکومت میں شامل ہیں اس لیے انہوں نے اس جملے کی ذریعے ان کا دفاع کیا ۔
خیر! میں نے اپنے غیر مسلم ساتھیوں کو خبر دکھاتے ہوئے کہا کہ لیجیئے نتیش کمار اور شوسیل مودی کے نام بھی وجہ بتاؤ نوٹس جاری کروادیجئے، ان کے پاس ان کا کوئی جواب نہیں تھا، اصل یہ ہے کہ ہندوستان کو گیروا رنگ میں رنگنے کی کوشش تو اغیار کی جانب جاری ہے ہی لیکن ہمارے مسلم ملازمین مزاحمت کرنا پسند نہیں کرتے ہیں، ہردلعزیز بننے کا شوق اور اعلی افسران کی نظر میں پیارا اور دلارا بننے کی خواہش انہیں ایمان فروشی پر مجبور کردیتی ہے، کم از کم نجی زندگی تک مزاحمت کرنے کی ہمت کرنی چاہیے، یہ خبر ملی ہے کہ بہت سارے مسلم اکثریت اسکول کے طلبہ تو طلبہ مسلم اساتذہ نے بھی بذات خود یوگا کیا، بلکہ انہوں نے خود یوگا کی ٹریننگ بھی مسلم بچوں کو دی ہے یوگا ایک شرکیہ عمل ہے، شرک ناقابل معافی جرم ہے، مرنے سے پہلے توبہ ضروری ہے، یوگا میں سورج نمسکار ہوتا ہے، جو سورج کی پرستش ہے، اس کے منتر بھی مشتبہ ہیں بلکہ منتر کے بہت سارے اشلوک اسلام سے ٹکراتے ہیں ہیں، جب کہ شرک تو حرام ہے ہی، تشبہ بالشرک بھی حرام ہے، اسلام میں اللہ کی عبادت مطلوب اور مقصود ہے، نماز تمام عبادتوں میں سب سے بہترین عمل ہے،لیکن طلوع شمس، غروب شمس اور زوال شمس کے وقت اس کو حرام قرار دیا گیا، کیونکہ اگرچہ ایک مسلمان ان تینوں اوقات میں بھی اللہ ہی کی عبادت کرے گا، سورج کی نہیں لیکن سورج کی پوجا سے اس کی مشابہت ہوجائے گی کیونکہ دنیا میں کچھ لوگ ان تین وقتوں میں سورج کی پرستش کرتے ہیں، اس لیے ایسا عمل نہ کرنے دیا جائے جس سے دنیا وہی قوم شمار کرنے لگے من تشبہ بقوم فھومنہم، جو جس قوم سے مشابہت اختیار کرے گا اس کا شمار، اسی میں ہوگا، یوگا کی پوری تاریخ کا جائزہ لیا جائے، اس کے اشلوک کی چھان بین کی جائے تو یہ مکمل واضح ہوجاتا کہ یوگا ہندوؤں کا مذہبی عمل ہے۔
کچھ لوگ یوگا کو ورزش قرار دیتے ہیں، اپنوں کی سادگی اور غیروں کی عیاری کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی؟ اگر یوگا ایک ورزش ہے، مذہبی پہچان نہیں تو یوگا ڈے کی جگہ انگریزی میں ایکسرسائز ڈے، ہندی میں ویایام دوس، عربی میں یوم الریاضہ اور اردو میں یوم ورزش کے نام سے کیوں نہیں منایا جاتا؟ آرایس ایس اور شدت پسندپوری ہندو جماعتیں صرف ایک ورزشی عمل کی تبلیغ کررہی ہیں یا معاملہ کچھ اور ہے ؟ ہمارے کچھ برادران وطن کہتے ہیں کہ یوگا نماز ہی تو ہے لیکن جب ان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر یوگا نماز ہے تو کیوں نہیں یوگا دوس سے نماز دوس نام رکھ دیا جائے اور ہم سب مل کر نماز پڑھیں تو ان سے کوئی جواب نہیں ملتا، کچھ غیر مسلم دوست کہتے کہ اگر سوریہ نمسکار کا ہٹا دیا جائے اوم کی جگہ خدا کا نام لیا جائے، اورمنتر کی جگہ قرآن کی آیتیں پڑھی جائیں تب تو آپ اس عمل کو کریں گے، لیکن تھوڑی سی تبدیلی کر کے جب ان سے یہی سوال کرتا ہوں کہ نماز میں الحمد للہ کی جگہ وید کے اشلوک، رکوع میں سبحان ربی الاعلی کی جگہ منتر آپ لوگ شامل کرلیں اور میرے ساتھ نماز پڑھیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہونی چاہیے تو ان کی طرف سے جواب ملتا ہے ایسا کیسے ہوگا یہ تو مسلمانوں کی چیز ہے، یعنی ہم ان کے عمل کو اپنا عمل بنالیں ، لیکن وہ ہمارا عمل نہیں اپنائیں جبکہ ان کے یہاں ہر ایرے غیرے کے سامنے سرجھکانے کی آزادی ہے، دوسری طرف توحید اور شرک کے مسئلے میں اسلام بہت ہی غیرت مند مذہب ہے۔میں نے ان کے سارے سوالات کا جوابات تو دے دئے لیکن جب انہوں نے بہت ساری برقع پوش خواتین اور ٹوپی والے فرزندان توحید کی یوگا کرتے ہوئے تصویر دکھائی اور کہا کہ یہ بھی تو مسلمان ہیں، آپ ہی کٹر معلوم ہوتے ہیں تو میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا، کیونکہ اپنوں کی وجہ ہی سے شدت پسندی کا لقب مجھے مل رہا تھا، اس تحریر کا مقصد اپنی برات اور دوستوں پر الزام تراشی نہیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس قسم کے شرکیہ پروگرام سے حکمت اور مصلحت کے ساتھ الگ ہوجایا جائے چاہے ہلکی پھلکی مزاحمت ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں