اکرام الدین
زیر نظر تحریر کو اگر غور سے پڑھا اور سمجھا گیا تو میں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرونگا کہ شائد تھوڑا بہت اس تحریر کے لکھنے کا حق ادا ہوگیا دنیا کے تقریبا،تمام ملکوں کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور حالات کے اس بدلاو کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے یہ بدلاو ملک کی سماجی معاشی اور سیاسی حالت تبدیل کردیتا ہے کچھ اس طرح کے حالات آج کل یورپی ملکوں کا ہے دنیا کے کونے کونے سے لوگ روزگار کے لئے یورپ آتے ہے اور اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کسی بھی طریقے سے یہاں داخل ہو جاتے ہے اور پھر کاغذات حاصل کرنے کے لئے کیمپوں میں سالوں گزار دیتے ہے پیسے اور وقت دیکر کاغذات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہے لیکن انکو آمید ہوتی ہے کہ ایک دن وہ کامیاب ہونگے اور روزگار پہ لگ جائینگے لیکن آج کل یہاں کئی یورپ ممالک میں جو نیا قانون پاس ہوا ہے اس نے ان تارکین وطن کی توڑھی بہت جو امید تھی وہ بھی ختم کردی ہے کیونکہ بعض یورپ ممالک کے گورنمنٹ نے اعلان کیا ہے کہ یورپ میں مقیم جتنے بھی تارکین وطن ہے انکو اپنے اپنے ملک بیجھا جائے اور فوری ان پہ عمل بھی ہو رہا ہے بہت سے ملکوں کے لوگوں کو زبردستی بھیجا بھی گیا ہے لیکن اگر دوسرے رخ سے دیکھا جائے تو ان تارکین وطن کی وجہ سے ان ممالک کو کافی سہولت اور فائدہ بھی ہے کیونکہ یہی لوگ ہے جو کہ ان ممالک کی تعمیر وترقی کے لئے کام کرتے ہے یہ لوگ یہاں پہ روزگار یا محنت مزدوری کرکے حکومت وقت کو ٹیکس ادا کرتے ہے لیبر کی کمی نہیں ہونے دیتے ہے خود بھی کماتے ہے اور حکومت کو بھی فائدہ پہنچاتے ہے تجارت کو فروغ دیتے ہے جس کا زیادہ فائدہ گورنمنٹ کو ہوتا ہے اور یہاں پر موجود تارکین وطن چاہے کسی بھی ملک یا مذہب سے تعلق رکھتے ہو انکی نیک خواہشات یورپی ممالک کے ساتھ ہے کیونکہ یہی پر ان کی روزی روٹی ہے اور میں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا کہ اگر کل کو خدانخواستہ اگر یہاں پر کسی ملک کی مداخلت ہوئی یا کسی بھی بیرونی جارحیت کا خطرہ محسوس ہوا تو سب سے پہلے یہی لوگ یورپی ممالک کے دفاع کے لئے کھڑے ہونگے اور ہر قسم کے حالات میں مقامی باشندوں سے آگے ہونگے اور کسی بھی خطرناک حالات سے نمٹنے کے لئے حکومت کے شانہ بشانہ ہونگے اور یہ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ وقت یہ ثابت کر دیگا کہ یہی لوگ چاہے اسکا تعلق ایشیا سے ہو یا کسی اور خطے سے لیکن وقت آنے پر ہر قسم کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرے گے۔
(مضمون نگار یورپ کے اردو اخبار گلوبل ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)





