ڈاکٹر زین شمسی
ابھی دو دن قبل ایس ایچ او بدر پور صہیب فاروقی صاحب کا فرمان جاری ہوا کہ اپنے قیمتی وقت میں سے تھوڑا سا وقت چرا کر جامعہ پولیس تھانہ میں تشریف لائیں، تو ڈر کے شائبہ کے ساتھ ساتھ مجھے انتہائی خوشی بھی ہوئی کہ کم از کم مجھے کہیں کوئی یاد تو کر رہا ہے تھانہ میں ہی سہی۔
بے کار وقت کو کار آمد بنانے کے مقصد کے تحت تھانہ پہنچا۔ آصف اعظمی، طارق فیضی ، معین شاداب ، حقانی القاسمی، اشرف بستوی اور دیگر سرگرم افراد کو وہاں موجود پاکر اطمینان کا احساس ہوا کہ کم از کم یہ شام ضائع نہیں جائے گی۔
سیاسی اور کاروباری عید ملن کی خبریں دیکھ دیکھ کر جو اکتاہٹ من میں پیدا ہو رہی تھی وہاں منعقد مستورات کی ادبی شاعرانہ نشست دیکھ کر غائب ہو گئی کہ رمضان بھر عورتوں کو بغور نہ دیکھ پانے کی حسرت کا ختم ہو جانا بھی عید کی خوشیوں کا ایک باب ہے، جسے حقیقت میں عید ملن کہا جانا چاہئے۔
شاعری ہمیشہ ہمیں الجھن میں ڈالتی ہے، مگر یہ بھی کمال حیرت ہے کہ جب جب الجھن میں ہوتا ہوں شاعری سنتا ہوں تو وہاں پونم یادو، راشدہ حیا اور علینا عطرت کی شاعری نے مسحور کیا۔ علینا عطرت کا آہنگ نسوانی دنیا کی کال کوٹھڑی سے آزادی کی وہ آواز ہے جو عدم تشدد کے سہارے جدوجہد نسواں کو غلامی کی جکڑن سے کھلی فضا میں لانا چاہتا ہے۔
انا دہلوی بے لاگ مبصر ہیں اور بے باک لفظوں میں کہتی ہیں کہ ہم مشاعروں کے شاعر لفافے میں بند بےجان پیسوں کی وجہ سے یہ جان پاتے ہیں کہ ہم میں بھی جان ہیں۔ انہوں نے بے ٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ بالکل غلط ہے کہ ہم سب اردو کی خدمت کر رہے ہیں۔ سو کی ایک بات ہے کہ اردو ہم سب کی خدمت کر رہی ہے۔ ہم سب اردو کی کھاتے ہیں ، اردو ہمیں کھلاتی ہے۔
ہم اردو کی کھاتے ہیں ، گویا اردو اب ایک انڈسٹری بن چکی ہے اور جب کسی صنعت کا قیام ہوتا ہے تب مالک اور مزدوروں کی تفریق کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔
اب اس خبر کی جانب چلئے۔ جس کی اطلاع دینے کے باوجود وقت پر نہیں لکھ سکا۔
ٹائمز آف انڈیا میں انڈیا میں اردو کے حوالے سے ایک خبر شائع ہوئی کہ ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، یعنی 2001 میں پورے ہندوستان کی 5.01 فیصد آبادی اردو بولتی تھی لیکن 2011 آتے آتے یہ تعداد گھٹ کر 4.34 فیصد ہو گئی جس کے نتیجہ میں ہندوستانی لسانیات کی درجہ بندی میں اردو چھٹے سے ساتویں مقام پر آگئی ۔ گجراتی نے اس کا چھٹا مقام چھین لیا۔ مردم شماری کے لسانی شعبہ جات کے اس سروے میں حیرت میں ڈالنے والی بات یہ ہے کہ سرفہرست ہندی کے بعد بنگالی دوسرے اور مراٹھی تیسرے مقام پر قبضہ جمائے ہوئے ہے۔
گویا اس سروے کے بعد غیر اردو طبقہ کو اپنا یہ الزام واپس لے لینا چاہئے کہ آبادی کے حساب سے اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ بلکہ آس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ اردو اب مسلمانوں کی بھی زبان نہیں رہی۔ اگر یہ ہوتی تو 15 سے 18 فیصد مسلمان اردو کو سرفہرست بنا کر اسے قومی زبان بنا چکے ہوتے۔
اب یہ جو اردو بولنے والا چھوٹا سا طبقہ بچا ہے ، اور جسے اللہ سلامت رکھے اس میں بھی دو طبقہ ہے۔ ایک وہ جو اردو کی خدمت کر رہا ہے اور ایک وہ جس کی خدمت اردو کر رہی ہے۔ مطلب مالک اور مزدو کی بحث یہاں آ کر مزید وسیع تر ہو جاتی ہے۔
کون لوگ ہیں جو اردو پڑھ رہے ہیں۔
اسکولوں سے اردو غائب ہے۔ یہ مدرسوں کی زبان ہے اور وہ بھی اس لیے کہ دینی معلومات اور معاملات کو سمجھنے اور سمجھانے کا وسیلہ اردو رہی ہے اس لئے یہ مدرسوں کی زبان بن پائی۔ اس لئے اردو کی تنزلی کے الزام سے اہل مدارس نہ صرف مبرا ہیں بلکہ لائق ستائش ہیں کہ ان کی وجہ سے اردو ابھی سن سکتے نہیں بن پائی ہے اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ مدارس والے اردو کی کھاتے ہیں تو یہ طبقہ اردو بولتے ہوئے بھی اردو کی روٹی نہیں کھا رہا ہے بلکہ صحیح معنوں میں اردو کی خدمت میں مصروف ہے تو پھر اردو کی روٹی بلکہ اردو کی باقر خوانی کھانے والے لوگ کون ہیں؟
اردو کی انجمنیں ، اردو کے ادارے ، اردو کی تنظیمیں یونیورسٹی کے اردو شعبہ جات سے منسلک پروفیسران حضرات پر انگلی کیوں نہیں آٹھائی جا سکتی۔
ملازمت ایک ضرورت ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کوئی ڈائریکٹر بنتا ہے تو بنے ، کوئی چیئرمین بنتا ہے تو بنے کوئی پروفیسر بنتا ہے تو اسے بننا چاہئے لیکن کیا صرف عہدہ لے کر ساتواں پے کمیشن لے کر ، گھروں میں خوشحالی لا کر سماج میں اپنا رتبہ بڑھا کر یہ بھول جانا چاہئے کہ اردو کے تئیں ان کا کوئی فرض نہیں ہے۔اگر کوئی این جی او اردو کی تحریک چلا رہی ہو تو کیا آپ نے دیکھا ہے کہ اردو کے بڑے عہدوں پر فائز کسی شخص نے سڑک پر گر کر میدان میں آکر اس کا ساتھ دیا ہو۔ کبھی آپ نے سنا ہے کہ برسوں سے خالی آسامیوں کو پر کرنے کی بیروزگاروں کی لڑائی میں اردو کا اشرافیہ طبقہ فعال رہا ہو یا پھر اس کی حوصلہ افزائی کی ہو۔ یا پھر اپنے ہی اسکول یونیورسٹی میں خالی ویکنسی کے بارے میں سرکار کو آگاہ کیا ہو بلکہ اس کے الٹ پوسٹ کو ختم کرنے کی سازش کے کئی ثبوت ہیں کہ وی سی خوش ہو اور سرکار کی خوشنودی حاصل ہو۔ اردو کے کسی بڑے عہدیدار کے یہاں آپ نے اردو کلچر دیکھا ہے۔ اردو کا اخبار پایا ہے۔ اردو کے میگزین کا سبسکرائبر دیکھا ہے۔ اگر دیکھا ہے تو یہ صرف ایک دکھاوا محض ہے،۔
اربوں کی فلم انڈسٹری اردو سے کھا پی رہی ہے
کروڑوں کا لفافہ بند مشاعرہ صنعت ابال پر ہے
لاکھوں کا سمینار من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو کے صدقے ہے۔ بچوں کا ختنہ کرانے ہندوستان آئے ادیبوں کو پکڑ کر عالمی سمینار کی روایت پھل پھول رہی ہے۔
اور زمینی سچائی یہ ہے کہ اردو کا فنڈ جتنا بڑھ رہا ہے اتنا ہی اردو کا قد گھٹ رہا ہے۔





