عبد الغنی
بھارت میں مدارس اسلامیہ کو دین کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے یہ حقیقت برمبنی بھی ہے کہ برٹش سامراجیت کے دور سے آزادی تلک، پھر اس کے بعد ملک کی آزادی سے تادم تحریر مدراس اسلامیہ نے قلیل وسائل کے باوجود بلکہ بے سر و سامانی کے عالم میں ملک وملت کے لئے بے مثال قربانیاں دی ہیں عظیم کارنامہ سر انجام دیا ہے حق و باطل کی کشکمش میں سینہ سپر ہوکے بلاخوف و خطر مقابلہ کیا ہے اور باطل کو سرنگوں کرکے حق کا سربلند کیا ہے اسلام مخالف طاقتوں کی ریشہ دوانیوں، سازش اور پروپیگنڈوں کو بے نقاب کرتے ہوئے اس کا مسکت جواب دیا ہے اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ اسلامی شعار و منہج کو فروغ دیا ہے قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں عام کی ہیں معترضین مشترقین اور نکتہ چینوں کے وقت بے وقت بیجا اعتراضات، وقت بے وقت بے تکے سوالات کا دندان شکن جواب دینے کے لئے سیکڑوں ہزاروں مبلغین، اسکالر اور دین مبین کے داعی و اسکالر کر تیار کیا ہے مگر ایسے مداراس چند ہی ہیں جس کا شمار انگلی پر بآسانی کیا جاسکتا ہے البتہ مدارس اسلامیہ سے گزرتے وقت کے ساتھ ایسے بھی فضلائے مدارس فارغ ہوئے جن کی تعلیم و تربیت میں کمی رہ گئی یا یہ کہ مدارس کے ارباب اہتمام نے اپنے یہاں زیر تعلیم قوم و ملت کے نوجوانوں کی روشن تر مستقبل کے لئے کامیاب تجربہ اور کوششیں نہیں کرسکے لہذا اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر تعلیمی سال کے اختتام پر ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے بلند فلک بوس عمارتوں والے مدارس اسلامیہ سے ایسے فارغین کی کھیپ تیار ہورہی ہے جو علم سے بے بہرہ تربیت سے عاری حالات کی نزاکت سے بے خبر اور گمان و یقین کے تذبذب میں ہچکولے کھاتا ہوا کیفیت میں مبتلا ہیں بنیادی مکتب کی تعلیم سے لے کر فضیلت یا عالمیت نصاب کی تکمیل تک تقریبا 15 سال تک مدرسہ میں رہ کر علوم اسلامیہ پر دسترس اور ملکہ حاصل کرنے کے نام پت ان فارغین مدارس میں بیشتر کے ہاتھ ہاتھ خالی ہوا کرتے ہیں الا ماشاءاللہ استثنائی طور پر چند باکمال اور باصلاحیت ہر جگہ اداروں میں پائے ہی جاتے ہیں ان فارغین مدارس کی نیند تب کھلتی ہے ہوش اس وقت آتا ہے جب انہیں مادی ضروریات کی تکمیل اور معاشی بحران کا سامنا ہوتا ہے پھر یہ ادھیڑبن کی حالت میں بالکہ اضطراری کیفیت میں غلط صحیح قدم اٹھاتے ہیں ان میں سے جو قدرے ہوشیار ہوتے ہیں وہ چھپڑ ڈال کر جامعہ کی سنگ بنیاد رکھتے ہیں اور باالکل بودے قسم کے ایک دو فارغین مدارس کی مدد سے حصول چندہ پر سارا زور صرف کرتے ہیں ان فارغین مدارس میں جو کہ علمی صلاحیت کی کمی کی وجہ سے خوار ہورہے ہوتے ہیں پریشانیوں کا سامنا رہتا ہے ان کو گوشہ عافیت کی تلاش رہتی ہے اور نو بنیاد شدہ جامعات کے ہوشیار نظماء اور ارباب مدارس کے کام آتے ہیں ان غیر ذی استعداد فارغین مدارس کے ذمہ اولین کاموں میں سے ایک ملک کے بڑے شہروں میں قائم مکان مدارس کے لئے بچے اکٹھا کرنا اور انہیں مدرسہ تک پہونچانا بھی شامک ہے مشاہدات کے مطابق مدارس اسلامیہ میں بغرض تعلیم داخل ہونے والے طلباء مدارس میں بہار، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کی اکثریت ہے گزشتہ دو دہائی سے سال بہ سال مدارس کے بڑھتے تعداد کی وجہ سے ارباب مدارس کو برائے نمونہ بھی بچہ ملنا مشکل ہورہا ہے دراصل ملک کے کئی ترقی پذیر ریاست اور بڑے شہروں میں قائم چھوٹے بڑے ہزاروں ایسے مدارس ہیں جہاں تعلیم چھوڑ کر روٹی کپڑا اور وظیفہ کی فراوانی ہے دراصل یہ وہ مدارس ہیں جن کا ایجنڈا قوم کو تعلیم یافتہ کرنا نہیں بالکہ اپنے قائم کردہ ٹرسٹ اور فاونڈیشن کے لئے اہل خیر حضرات سے زیادہ سے زیادہ رقومات اینٹھنا ہے لہذا اس کی مجبوری ہے کہ وہ اس کے لئے اپنے کتابچہ یا سالانہ رپورٹ میں طلباء کی تعدا د مبالغہ کے ساتھ دکھائے چونکہ حصول چندہ کے لئے طلباء کی تعداد اہم ہے شوال ماہ میں بہار مغربی بنگال اور جھار کھنڈ سے سفید کرتا پائجامہ میں ملبوس جو ننھے منھے بچے غول در غول ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں وہ ان ہی مدارس کے لئے لیجائے جارہے ہوتے ہیں ان مدارس کے عالم نما کانٹریکٹر بچوں کو سنہرے خواب دکھاتے ہوئے ان کی زندگی برباد کردیتے ہیں
بہار مغربی بنگال اور جھار کھنڈ کی مجموعی غربت پوری دنیا پر عیاں ہے یہاں آباد لاکھوں مسلمانوں کی معاشی حالت ابتر ہے روزگار کے ذرائع نہیں ہونے کے سبب بیشتروں گھروں اور خاندانوں کے مرد حضرات تلاش معاش کے لئے ہجرت کرتے ہیں اور سال سال گھر سے باہر رہتے ہیں غربت ہی کی وجہ سے کئی بڑے شہروں کے امراء کی نظر بد ان ریاستوں پر رہتی ہے اس طرح کی خبریں متواتر اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ 15 سالہ دوشیزہ کی شادی 50 سالہ مرد سے کردی گئی یہ پچاس سالہ مرد انہیں ہی بڑے شہروں کے روسا اور امراء ہوتے ہوتے ہیں جو یہاں آکر شادیوں کی آڑ میں غربت زدہ دوشیزہ کا ہر طرح سے استحصال کرتے ہیں
اب دنیادار قسم کے مدارس کے منتظمین کی نظر بھی ان علاقوں کے ننھے منھے بچوں پر ہے جو لالچ دے کر انہیں اپنے یہاں بلواتے ہیں اور تعلیم کے بجائے انہیں دکھاکر چندہ بٹورتے ہیں راقم السطور سے کئی ایک معتبر لوگوں نے کہاہے کہ گجرات اور مدراس جیسے دیگر شہروں کے غیر معروف مدارس اسلامیہ کے منتظمین نے بچہ کی حصولیابی کے لئے جال پھیلا رکھا ہے اور ان کے کارندے یہاں سرگرم عمل ہیں جو بطور ایجنٹ ان مدارس کے لئے کام کرتے ہیں اور یہ مدارس کے فارغین اور مقامی بھی ہوتے ہیں اطلاعات کے مطابق بچہ اکٹھا کرکے مدرسہ پہونچانے والوں کو انعام و اکرام کے علاوہ فی کس بچہ رقم بھی دیا جاتا ہے یعنی ایک بچہ پر کم ازکم دو ہزار سے پانچ ہزار روپئے تک رقم ملتا ہے گویا ایجنٹ حضرات بچوں کے والدین کو سبز باغ دکھا کر بچوں کو اپنے ساتھ لیجانے پر والدین کو راضی کرلیتے ہیں والدین کو کپڑا اور دیگر اخراجات کے علاوہ ماہانہ وظیفہ کا بھی لالچ دیا جاتا ہے اور یہ والدین بھی غربت کے سامنے ہار جاتے ہیں
حالانکہ حقیقت باالکل برعکس ہے ان پچھڑے اور پسماندہ ریاستوں سے ان غیر معروف مدرسوں میں پہونچنے والے قوم کے بچوں کا وہاں ہر طرح سے استحصال کیا جاتا ہے تعلیم و تعلم کے بجائے خدمات، قل قرآن خوانی قسم کے غیر ضروری سرگرمیوں میں ملوث کیا جاتا ہے ان کا مستقبل خراب کیا جاتا ہے
بات ی ہے کہ جب 7 سے 10 اور پندرہ سال کے بچے 60 ستر کی تعدا د میں جھنڈ بناکے چلیں گے تو کسی بھی عام انسان کو جنہیں مدارس کے نظام سے واقفیت نہیں ہے انہیں ضرور کھٹگے گاجبکہ پولس یا انتظامیہ اہلکاروں کی تشویش بھی جائز ہے پولس یا دیگر اہلکاروں کو شک بھی ہوسکتا ہے اس کے شک کو رفع کرنے کے پورے انتظامات بھی ہونے چاہئئے مگر یہاں بھی معاملہ کچھ اور ہے سبھی جانتے ہیں کہ تعلیم کے لوگ سفر کرتے ہیں ایک جماعت زیادہ سے زیادہ بیس پچیس لوگوں پر مشتمل ہوسکتی ہے مگر یہاں تو ساٹھ ستر مزید کم عمر بچے تھے ابھی گزشتہ 21جولائی کو ریاست جھارکھنڈ کے اضلاع دھنباد اور بوکارو کے قرب و جوار سے تین ادتاذ مع ستر بچے الپی ایکسپریس سے آندھرا پردیش جارہے تھے رانچی جنکشن پر شک کی بنیاد پر ریلوے پولس نے تمام طلبہ کو استاد سمیت حراست میں لے لیا اور بچوں کے ساتھ تینوں اساتذہ سے پوچھ تاچھ کی جس میں وہ پولس کع مطمئن کرنے میں ناکام رہے ظاہر ہے اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو باہر لیجانے والوں کو ہر طرح سے مضبوط ہونا چاہئے مگر نہیں یہ بس لگے بندھے کام کرنے کے عادی ہیں اس دوران دو پہر دو بجے سے دیر شام تک بچے پولس کسٹڈی میں رہے اس کے بعد ایک مقامی رکن اسمبلی اور ملی تنظمیوں کی مداخلت کے بعد انہیں رہا کیا گیا ذرا محسوس کیجئے کہ وہ کس قدر اذیت ناک لمحہ ہوگا ان بچوں کے لئے ؟ معصوم ذہنوں پر کیسی بجلیاں گری ہوں گی؟ ہمیں انہی اذیتوں کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے ہمیں یہ اپنے دل پر یہ ہاتھ رکھ کر سوچنا ہوگا کہ آیا ہم ان کے بہی خواہ ہیں یا بدخواہ
مقامی طلبہ علاقائی مدارس سے کیوں دور بھاگ رہے ہیں ہیں طلبہ؟
آج سے بیس پچیس قبل بہار جھارکھنڈ اور مغربی بنگال میں مدارس کی تعداد بہت کم تھی مگر اب ریستوں کے شہر اور گاوں گاوں قریہ قریہ میں مدارس قائم ہوچکا ہے ان میں چھپڑ پھونس سے لے کر فلک بوس پرشکوہ بلند بالا عمارتوں والے مدارس بھی ہیں ان مدارس کے رسیدات، پمفلٹ اور دعوت ناموں میں سونے کا پانی چڑھا ہوا ہوتا ہےبالکہ ان کے اہم مقاصد بھی پرشکوہ الفاظ سے مزین ہوا کرتا ہے ان مدارس کے لوگو() میں رشد و ہدایت کی مثالی درسگاہ، درس نظامی کا معیاری ادارہ، دینی و عصری علوم کا سنگم اور نہ جانے کیا کچھ لکھا ہوت ہے بالکہ کئی مدارس کے ارباب حک و عقد سال کے 365 دن بیرون ملک عرب شیوخ اور یوروپین مسٹر اینگلو محمڈن سے چندہ بٹور رہے ہوتے ہیں اور جو بیرون ملک ابھی تک نہیں جاسکے ہیں وہ اندرون ملک غیر ممالک کا ویزہ کگواتے پھرتے ہیں بہار کے ایک مدرسہ تزک و احتشام کا حال یہ ہے کہ قاعدہ بغدادی کے افتتاح کے کئے بھی مسجدی نبوی مدینہ منورہ کے استاذ حدیث بلوا لئے جاتے ہیں ان علاقائی مدارس میں افتاء تک تعلیم کا نظم ہے مگر ورطئہ حیرت میں ڈالنے والی بات یہ ہے کہ مکتب میں پڑھنے والے بچے بھی نہیں ہیں بالکہ تصویریں اتارنے کے لائق بھی طلبہ میسر نہیں ہے کسی بڑے تقریب کے لئے دیگر مدارس سے بچے اکٹھا کئے جاتے ہیں یہ تمام باتیں اسباب و علل علاقائی مدارس کے ذمہ داران کے لئے لمحئہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے گریبان میں جھانکیں، اپنااحتساب کریں کہ مقامی علاقائی مدارس سے کیوں دور بھاگ رہے ہیں ہیں طلبہ؟
مدراس کے طلبہ کی حالت زار ارباب مدارس کے لئے لمحئہ فکریہ
والدین ان پر اعتماد کیوں نہیں کررہے ہیں مقامی مسلم آبادی ان مدارس سے بیزار کیوں ہیں اہلیان مدارس کوخامیوں کی نشاندہی کرکے نظام تعلیم تعلیم کو چست درست کرنا ہوگا تعلیم کے معیار کو بڑھانا ہوگا ظاہری ٹپ ٹاپ کے بجائے تعلیم کے بہترین نتائج کا مظاہرہ کرنا ہوگا وگرنہ وہ دن دور نہیں جن ہمیں توبہ کی بھی مہلت نہیں ملےگی سارے دروازہ بند ہوچکے ہوں گے عوام الناس عن قریب آپ سے مستفسر ہوں گے وہ گھڑھی باعث ذ لت و رسوائی نہ ہو اس کے لئے ایماندارانہ اور مخلصانہ پہل کرنے کی ضرورت ہے مدراس کے ارباب حک و عقد کو مرجع خلائق بننا ہوگا علاقائی مداراس کے تئیں عوام میں جو یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے کہ ان مدارس میں ڈھنگ کی پڑھائی نہیں ہوتی ہے اس کے سدباب کے کئے ایماندارانہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور والدین کو بھی اپنے لاڈلے کے لئے شفقت پدری کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ وہ کم عمری ہی میں اپنے لخت جگر اپنے اولاد کو نظر سے دور نہ کریں کہا جاتا ہے کہ بچپن میں بچوں کو اپنے والدین کی محبت شفقت اور دیکھ بھال کی اشد ضرورت ہوتی ہے والدین اپنے آس پاس کے تعلیمی ادراوں میں بچوں کا داخلہ کروائیں اور گاہے گاہے ازخود اب کی تعلیمی پیش رفت کا جائزہ لیتے رہیں اس سے آپ کے بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہوگی اور یہ اس کے لئے کامیاب داعی فرض شناس اور ذمہ داری شہری بننے میں ممدو معاون ثابت ہوگا۔
abdulghani630@gmail.com






