آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی مجلس عامہ کا اجلاس اختتام پذیر ،مندرجہ ذیل تجاویز پاس

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کی اہم میٹنگ مورخہ ۵۱جولائی ۸۱۰۲ءکو نیو ہورائزن اسکول، حضرت نظام الدین نئی دہلی میں، حضرت مولانا جلال الدین عمری (نائب صدر بورڈ و امیر جماعت اسلامی ہند) کی صدارت میں منعقد ہوئی، صدر بورڈ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم اور معززنائب صدر حضرت مولانا کلب صادق صاحب اپنی علالت کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے۔معزز ارکان عاملہ کی آراءکی روشنی میں مندرجہ ذیل امور اتفاق رائے سے طے ہوئے۔
(۱) بورڈ کا یہ اجلاس اپنے سابقہ فیصلوں کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ بابری مسجد ”مسجد“ ہے اور بابری مسجد کا مقدمہ بنیادی طور پر ملکیت کا مقدمہ ہے ، اس لئے اسی بنیاد پر اس کا فیصلہ ہونا چاہئے۔ بورڈ اس کی وضاحت کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ بورڈ پوری توجہ اور مستعدی کے ساتھ اس مقدمے کی پیروی کررہا ہے۔ اس کے لئے اس نے سینئر ایڈوکیٹ جناب راجیو دھون کی خدمات حاصل کی گئی ہیں اور ماہر وکلاءکا ایک پینل بھی کام کررہاہے اور بورڈکے نمائندوں نے مکمل شرعی اور فقہی بحث تیار کر کے اسکی انگریزی کاپیاں بھی قانون دانوں کے حوالے کردی ہیں اوریہ سارے وکلاء،ڈاکٹر راجیو دھون کے ساتھ سپریم کورٹ میںپابندی کے ساتھ حاضر ہورہے ہیں اور ڈاکٹرراجیو دھون عمدہ بحث کررہے ہیں ،بورڈتوقع رکھتا ہے کہ عدالت کے ذریعے مسلمانوں کو انصاف حاصل ہوگا ۔
(۲) لاکمیشن نے بورڈ کو جو سوالنامہ بھیجاہے، اس کے پیش نظر بورڈ کا یہ اجلاس واضح کرتا ہے کہ مسلم پرسنل لا میں کسی قسم کی تبدیلی ناقابل قبول ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قانونِ شریعت ایک الہامی قانون ہے جس میں کسی ترمیم یا اضافے کی گنجائش نہیں ہے ۔قانون شریعت میں ہر پہلو کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے، اور سب کو حقوق دئیے گئے ہیں ۔ یہ بات بھی واضح ہونی چاہئے کہ قانونِ شریعت میں خود مسلمان بھی کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کرسکتے!مجلس نے یہ بھی طے کیا کہ لا کمیشن کو سوالوں کاجواب دیاجائے اور بورڈکا ایک وفد جوابو ں کے ساتھ چیرمین لا کمیشن سے ملاقات کرے اور تفصیل کے ساتھ معاملہ کے اہم پہلوﺅں کوواضح کرے۔

(۳) مسلمانوں کے باہمی خاندانی نزاعات اور بالخصوص خواتین کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے دارالقضاءکے نظام کو زیادہ سے زیادہ وسعت دی جائے گی۔بورڈ کا یہ اجلاس مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے مسائل کے لئے دارالقضاءسے رجوع ہوں اور اس نظام کو تقویت پہنچائیں۔اس سے جہاں خاندانی مسائل حل ہوں گے وہیں یہ معزز عدالتوں کا تعاون بھی ہوگا اور عدالتوں پر مقدمات کا جو بوجھ ہے وہ کم ہوسکے گا۔
(۴) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قانون شریعت پوری طرح انسانی ضرورت و مصلحت سے ہم آہنگ قانون ہے،اور اس میں عدل و انصاف ، اعتدال اور میانہ روی کا پورا لحاظ رکھا گیالیکن ناواقفیت کی وجہ سے بہت سے لوگ غلط فہمیوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔اس پس منظر میں بورڈ کی تفہیم شریعت کمیٹی ملک کے تمام بڑے شہروں میں وکلاء،قانون دانوں اور علماءکے لئے پروگرام منعقد کرے گی ، اور قانون شریعت کی اہمیت سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلم بھائیوں کو بھی واقف کرائے گی۔
(۵) بورڈ کا ایک اہم شعبہ اصلاح معاشرہ ہے، جو سماج سدھار کا کام کرتا ہے ، اس کام کو ایک تحریک کے طور پر آگے بڑھایاجائے گا اور بالخصوص خواتین کو اس مہم میں شریک کیا جائے ۔یہ بھی کوشش کی جائے کہ اس تحریک میںمزید اضافہ کیاجائے اور ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے اصول مسلمان جوڑوں کو سمجھائے جائیں اور ازدواجی زندگی میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو دورکرنے کی مسلسل کوشش کی جائے۔
(۶) یہ اجلاس حکومت کے اس روےے پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ ہم جنسی کو جرم قرار دینے والے قانون کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے سوال پر حکومت نے غیر جانبداری کا موقف اختیار کیا ہے ۔حالانکہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس کے نادرست ہونے پر تمام مذاہب کا اتفاق ہے ۔ یہ انسانی صحت کے لئے سخت نقصان دہ ہے اور خاندانی نظام کے لئے بھی تباہ کن ہے ۔اس لئے یہ اجلاس حکومت سے یہ اپیل کرتا ہے کہ اس جرم کو جرائم کے دائرے سے باہر نکال دینے والی درخواست کی مخالفت کرے اور اس موقف کی مو¿ثر پیروی کرے۔(من وعن بورڈ سے جاری پریس ریلیز پر مبنی )

SHARE