ملک میں بڑھتا ہجومی تشدد اور مجرموں کی حوصلہ افزائی ایک سنگین مسئلہ

ریاض الدین قاسمی
وزیراعظم نریندر مودی کو، حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سے چار سال گذر چکے لیکن زمینی صورتحال جوں کی توں ھے۔ اسکے باوجود بھی حکومتی مشینری کے ایما پر  میڈیا ہاؤسز کے گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعہ  ملک کو ترقی کے اعتبار سے سب سے اعلیٰ پایدان  پر دکھایا جارہا ہے، حالانکہ درون ملک صورتحال یہ ہیکہ مذہبی اقلیتوں کیخلاف  تشدد کو بے پناہ فروغ حاصل ہوا ہے۔  بھارت کے طول و عرض میں ایک خطرناک تسلسل کے ساتھ پے در پے اقلیتوں اور دلتوں پر حملے ہورہے ہیں اور اس معاملے کا یہ پہلو اور بھی سنگین ہے کہ ان مجرموں کو کوئی سزا نہیں ملتی بلکہ اس کے بجائے انکے تحفظ کےلئے حکومتی سطح پر  اعلی مشینری حرکت میں آ جاتی ہے، آر ایس ایس اور دوسری ہندو انتہاء پسند تنظیموں نے غنڈہ گردی کے تمام ریکارڈ توڑ کر رکھ دئے ہیں اور پورے ہندوستان میں خوف و دہشت کا ماحول بنادیا ہے جس کے سب سے زیادہ شکار مسلمان نظر آرہے ہیں۔
 آج کل ہندوستان کی کئی ریاستوں میں گائورکھشکوں کا لبادہ اوڑھ کر بے قصور مسلمانوں کا خون بہایا جاتا ہے اوران رکھشکوں کے ذریعہ ان مسلم علاقوں میں خوف و دہشت پھیلادی گئی ہے،  یہاں تک کہ اس موجودہ غنڈہ گردی نے اب سیاسی روپ دھار لیا ہے، جب کہ بی جے پی نے اس میں مزید مرچ مسالہ ڈال کر ظالم گاؤ رکھشکوں کے لئے مسلمان کو لقمہ ترٔ بنادیا ہے۔  
 گذشتہ دنوں ریاست جھارکھنڈ میں علیم الدین انصاری کے قاتل کو جب علاقائی کورٹ سے ضمانت پر رہائی حاصل ہوئی تو اس غنڈے اور دھشت گردی پھیلانے والے اس مجرم کے استقبال اور حوصلہ افزائی کے لئے ضلعی سطح تو درکنار ریاستی سطح سے اوپر مرکزی حکومت کے سب سے پڑھے لکھے مرکزی شہر ی ہوا بازی کے وزیر جنیت سنہا کے ذریعہ استقبالیہ دیا گیا اور گھٹیا مجرم کے گلے میں ھار پہنایا گیا ، اور پھر مرکزی حکومت کے منہ پھٹ وزیر گری راج سنگھ نے بھی حوصلہ افزائی کی۔ اور تاویل یہ پیش کی کہ قانون نے بے قصور قرار دیا ہے اور قانون نے اپنا کام کیا ہے،    ان مرکزی حکمران و عہدیداران کے  تجاہل عارفانہ کی وجہ سے اور اپنے مذموم حکومتی و سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر بھاجپا نے ملک کے دلت اور مسلم اقلیت کے خلاف جنگ جیسی صورتحال بڑے پیمانے پر شروع کردی ہے ۔ 
آج ۱۶ جولائی ۲۰۱۸ کے انقلاب میں بھی ھجومی تشدد کے ذریعہ قتل کی دلخراش خبر نظر سے گزری قطر سے آے ہوئے نوجوان ،اور مزید تین  نوجوانوں کو جو بچوں کو  چاکلیٹ بانٹ رہا تھا بچہ چوری کے الزام میں کار سے نکال کر زدوکوب کیا گیا۔
ان سبھی واقعات کے باوجود  لوگ آج بھی ۲۰۱۴ء کے انتخابات کے دوران کئے گئے وعدوں کے وفا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں  لیکن مکر کی انتہا کرتے ہوئے گذشتہ ۲۶ مئی کو حکومت کے  چار سال مکمل ہونے پر جان بوجھ کر انجان بنتے ہوئے  وزیراعظم نریندر مودی نے ایک ٹوئیٹ کیا ، جس میں انھوں نے لکھا کہ ’ ۲۰۱۴ء میں آج ہی کے دن ہم نے ہندوستان کے بدلاؤ کے سفر کی شروعات کی تھی۔ پچھلے چار سال میں ترقی عوامی تحریک بن گئی ہے۔ ملک کا ہر شہری اس میں اپنی حصہ داری محسوس کر رہا ہے۔
حالانکہ زمینی صورتحال اس کے برعکس ہے۔
حرف آخر یہ ہیکہ اج بھی ملک کی اکثریت جمہوریت پسند ہے ،وہ انتہا پسندانہ نظریات کی بدترین دشمن ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا توآزادی کے بعد سے ہی زعفرانی طبقہ کے ہاتھوں میں ملک کی باگ دوڑ ہوتی۔اگر کبھی اس طبقہ کو اقتدار حاصل بھی ہوا تو وہ سیکولرزم کے دعویداروں کی خانہ جنگی اور انتشار کے سبب ممکن ہوسکا۔