اسرائیلی پارلیمان میں یہودی قومی ریاست کا متنازع قانون منظور ،عرب ارکان کا واک آﺅٹ

صہیونیت اور اسرائیل کی تاریخ میں یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے“۔اس متنازع قانون کا بل اسرائیل کے سترویں یوم تاسیس کے موقع پر پہلی مرتبہ پارلیمان میں پیش کیا گیا تھا اور اس پر دو ماہ سے زیادہ عرصے تک بحث ہوتی رہی ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ ”اسرائیل یہود کا تاریخی مادرِ وطن ہے اور انھیں اس میں قومی خود ارادیت کا خاص الخاص حق حاصل ہے“
مقبوضہ بیت المقدس(ملت ٹائمز)
اسرائیلی پارلیمان نے ریاست میں صرف یہود کو حقِ خود ارادیت دینے کے متنازع قانون کی منظوری دے دی ہے۔صہیونی ریاست کی عرب اقلیت نے اس قانون کو نسل پرستانہ قرار دے کر مستر د کر دیا ہے۔
وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی دائیں بازو کی قوم پرست مخلوط حکومت کی جانب سے پارلیمان میں پیش کردہ ”قومی ریاست کے قانون“ کے حق میں 62 ارکان نے ووٹ دیا ہے جبکہ 55 ارکا ن نے اس کی مخالفت کی ہے اور دو بل پر رائے شماری کے وقت غیر حاضر رہے تھے۔120 ارکان پر مشتمل پارلیمان کے بعض عرب ارکان نے اس قانون کے خلاف سخت نعرے بازی کی اور اس پر ووٹنگ کے بعد کاغذات پھاڑ دیے۔
انتہا پسند وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے الکنیست میں ووٹنگ کے بعد کہا کہ ” صہیونیت اور اسرائیل کی تاریخ میں یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے“۔اس متنازع قانون کا بل اسرائیل کے سترویں یوم تاسیس کے موقع پر پہلی مرتبہ پارلیمان میں پیش کیا گیا تھا اور اس پر دو ماہ سے زیادہ عرصے تک بحث ہوتی رہی ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ ”اسرائیل یہود کا تاریخی مادرِ وطن ہے اور انھیں اس میں قومی خود ارادیت کا خاص الخاص حق حاصل ہے“۔
اس بل کے تحت عربی کی عبرانی کے ساتھ اسرائیل کی ایک سرکاری زبان کی حیثیت ختم کردی گئی ہے۔اس کا درجہ گھٹا کر اب اس کو ”خصوصی حیثیت “ دے دے گئی ہے اور اس کے تحت یہ اسرائیلی اداروں میں مروج رہے گی۔اسرائیل میں آباد عربوں کی آبادی اٹھارہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔وہ کل 90 لاکھ آبادی کا 20 فی صد ہیں۔وہ ایک طویل عرصے سے یہ شکایت کرتے چلے آرہے ہیں کہ ان سے اسرائیل میں دوسرے درجے کے شہری کا سا سلوک کیا جارہا ہے۔
اس قانون کی بعض متنازع شقوں کو اسرائیلی صدر کی مخالفت کی بنا پر رائے شماری کے وقت حذف کردیا گیا ہے۔اس کے بجائے بہت ہی مبہم زبان میں وضع کیا گیا یہ قانون منظور کیا گیا ہے۔اس میں فلسطینی علاقوں میں یہود کی آبا د کاری کو ایک قومی فریضہ قرار دیا گیا ہے۔قانون کے مطابق :” ریاست یہود آباد کاری کی ترقی کو ایک قومی قدر سمجھتی ہے اور وہ اس کے قیام کی حوصلہ افزائی اور فروغ کے لیے اقدامات کرے گی“۔
بل کی شقوں میں تبدیلیوں کے باوجود ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے عرب اقلیت میں تنہائی کا احساس مزید گہرا ہوگا۔عرب رکن پارلیمان احمد طبی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” میں نہایت افسوس اور صدمے کے ساتھ جمہوریت کی موت کا اعلان کرتا ہوں“۔
نیتن یاہو نے گذشتہ ہفتے اس قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” ہم اسرائیل کی جمہوریت میں تمام شہری حقوق کو یقینی بنائیں گے لیکن اکثریت کے بھی حقوق ہیں اور اکثریت ہی فیصلہ کرتی ہے۔ایک واضح اکثریت آنے والی نسلوں کے لیے ریاست کے یہودی کردار کو یقینی بنانا چاہتی ہے“۔لیکن عربوں نے اس امتیازی قانون کو بالکل مسترد کردیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہودی اکثریت اس طرح کی قانون سازی کے ذریعے عرب آبادی اور تمام مذاہب کے پیرو کار عربوں کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتی ہے۔اسرائیل میں عرب اقلیتی حقوق کے لیے کام کرنے والے قانونی مرکز عدالہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ”یہ قانون دراصل نسل پرستانہ پالیسیوں کے ذریعے نسلی برتری کو آگے بڑھانے کی ایک کوشش ہے“

SHARE