شمع فروزاں : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اگر دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بہت سی قومیں وہ ہیں کہ نہ ان کی کوئی تاریخ تھی نہ تہذیب، نہ کوئی سلطنت تھی نہ کوئی تمدن،اور نہ علم وفن کی دنیا میں ان کا ذکر آتاتھا، وہ ایک گم نام، علم ومعرفت سے محروم، تہذیب وشائستگی سے عاری، سلیقۂ فرمانروائی سے تہی دست اور فکری اثاثہ سے محروم قومیں تھیں؛ لیکن جب انہوں نے اسلام سے اپنا رشتہ جوڑا تو تہذیب وتمدن کی امامت، قافلۂ علم وفن کی سالاری اور ظاہری ومعنوی ترقی کا نمونہ بن گئیں، جن کی جہالت وتاریکی کی مثال دی جاتی تھی،وہ دوسروں کے لئے چراغ ِ راہ بن گئے، جن کو لوگ اپنا محکوم بنانا بھی پسند نہیں کرتے تھے، وہ حکمرانوں کے لئے خضر طریق ہوگئے۔
یوں تو اس طرح کی بہت سی قومیں تھیں، خود ہندوستان میں جو عجمی نژاد حکمراں رہے، ان کا حال بھی یہی تھا؛ لیکن دو قومیں اس سلسلہ میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ایک: عرب، دوسرے ترک، عرب ایک ایسی قوم تھی، جن میں دو تین اخلاقی خوبیاں ضرور تھیں؛ مگر ان کے علاوہ وہ ہر طرح کی برائی میں لت پت تھے،وہ نہ صرف تعلیم سے محروم تھے؛ بلکہ اپنے اُمّی ہونے پر فخر کرتے تھے، وہ نہ صرف ظلم وغارت گری میں مبتلا تھے؛ بلکہ ان کو اس پر کوئی شرمندگی بھی نہ تھی، بہت سی اخلاقی برائیوں کو وہ جذبۂ فخر کے ساتھ کھلے عام کیا کرتے تھے، تہذیب وتمدن کا ان کے یہاں کوئی گذر نہیں تھا، نہ صرف یہ کہ انہوں نے کوئی نظام حکومت قائم نہیں کیا؛ بلکہ جزیرۃ العرب کے پڑوس کی دو بڑی طاقتیں -روم وفارس- انہیں اس لائق بھی نہیں سمجھتی تھیں کہ اپنی قلم رَو کا حصہ بنائیں؛ لیکن جب عرب کے صحرائے بے آب وگیاہ میں اسلام کا سورج روشن ہوا تو ایشیا، افریقہ اور یورپ ان کے زیرِ نگیں آگئے اور وہ مشرق سے مغرب تک پوری دنیا کے استاذ ومعلم بن گئے، جب تک انہوں نے اس حقیقت کو یاد رکھا کہ انہیں اسلام سے عزت ملی ہے، وہ دنیا میں عزت و سربلندی کے زینوں پر چڑھتے گئے اور جب انہوں نے اسلام سے منھ موڑا تو ذلت وخواری کے ایسے غار میں گرے کہ ان کی ناکامی اور نامرادی قوموں کے لئے مثال بن گئی۔
فتح بیت المقدس کے موقع سے جب عیسائیوں کے مطالبہ پر سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیت المقدس تشریف لائے، تو صورتِ حال یہ تھی کہ آپ کے ساتھ کوئی لاؤ لشکر نہیں تھا، آپ اونٹنی پر سوار تھے، جس کو عرب میں کم درجہ کی سواری سمجھا جاتا تھا، آپ کے ساتھ صرف آپ کا غلام تھا، کچھ دور آپ اونٹنی پر بیٹھتے اور غلام نکیل تھامتا، اور کچھ دور آپ اس کو اونٹنی پر بٹھاتے اور خود نکیل تھامتے، جوتا پھٹا ہوا، جسم گرد غبار سے َاٹا ہوا، کُرتے پر چودہ پیوند جن میں بعض چمڑے کے تھے، سپہ سالار لشکر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر خیال ہوا کہ آپ کوئی بہتر کپڑا زیب تن فرمالیں؛ چنانچہ ایک بیش قیمت جوڑا آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا، جو اس لائق ہے کہ ہر مسلمان اسے آبِ زر سے لکھ کر رکھے:
إنکم کنتم أذلّ النّاس وأحقر النّاس وأقل النّاس ، فأعزّکم اللہ بالاسلام فمھما تطلبوا العزّ بغیرہ یذلکم اللّہ
تم لوگوں میں سب سے زیادہ عزت سے محروم، سب سے زیادہ حقیر اور سب سے زیادہ قلیل التعداد تھے، اللہ نے اسلام کے ذریعہ تم کو عزت عطا فرمائی ،تو جب بھی تم اسلام کے بجائے کسی اور ذریعہ سے عزت کے طلب گار ہوگے ، اللہ تم کو ذلیل ورسوا فرمائیں گے۔
عربوں کا زوال اس طرح ہوا کہ وہ دولت اور اسباب عیش وراحت کو عز ت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھنے لگے، اورانہوں نے اپنے عشرت کدوں کو سجانا شروع کر دیا، عباسیوں کا آخری دور- جس کے بعد عالم اسلام سے عربوں کا اقتدار جاتا رہا- فرمانرواؤں کی کیا صورت حال تھی؟ اس کا اندازہ اس اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے:
اُمراء کے یہاں مکلف کھانوں کے لئے جو مرغ پکائے جاتے تھے، ان کو کچھ دنوں تک پہلے دانے اور پانی کے بجائے خشک میوے کھلائے اور عرق گلاب پلایا جاتا تھا،ہارون رشید کے دسترخوان پر ایک وقت میں تیس تیس قسموں کے کھانے ہوتے تھے، مطبخ کا خرچ دس ہزار درہم روزانہ تھا، مامون کا ذاتی خرچ چھ ہزار اشرفی یومیہ تھا، جس کا بڑا حصہ باورچی خانہ پر صَرف ہوتا تھا، مقتَدِر کے عام اور خاص مطبخ کا خرچ دس ہزار اشرفی ماہانہ تھا، باورچیوں کی تنخواہ ایک ہزار اشرفی ماہانہ تھی، قاہِرکے دسترخوان پر تیس اشرفی روزانہ کے میوے ہوتے تھے، ان کے اُمراء کا دسترخوان بھی بہت پُر تکلف اور وسیع تھا، وزیر ابوالحسن بن فرات کے باورچی خانہ میں تین سو اشرفی ماہانہ کا صرف مشک خرچ ہوتا تھا، اس کے دو باورچی خانے تھے، ایک عام لنگر خانہ کے لئے، دوسرا خاص، مطبخ عام میں نوّے بکریاں، تیس برے، دو سو مرغیاں، دو سو چوزے اور دو سو تیتر روزانہ خرچ ہوتے تھے………………… ایک مرتبہ متوکل کا دل چاہا کہ شراب کی ہر چیز کا رنگ زرد ہونا چاہئے، اس کی اس طرح تعمیل کی گئی کہ ایک حوض پر سونے سے مرصع صندل کی لکڑی کا ایک قبہ بنایا گیا اور اس مین زرد دیبا کے پردے آویزاں کئے گئے، اوراسی کا فرش بچھایا گیا، حوض کے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی نہریں رواں تھیں، ان کے پانی میں زعفران گھولا گیا اور متوکل کے سامنے زردوستفبو (ایک قسم کی خوشبو) لیموں اور زرد رنگ کی نبیذ سونے کی کشتی میں لگا کر پیش کی گئی، اس مجلس میں جو لونڈیاں شریک تھیں، ان کا لباس زرد کتان کا تھا، اس اہتمام میں کئی ہزار اشرفیاں صرف ہوئیں۔( تاریخ اسلام: شاہ معین الدین ندوی: جلد۴؍ ۴۳۳)
لیکن ایک طرف حکمرانوں کی عیش پرستی، دوسری طرف عربوں اور ترکوں کے درمیان باہمی نفرت نے پھر اس کو زوال اور شکست وریخت سے دو چار کر دیا، بالآخرجنگ عظیم کے بعد مغرب نے عالم اسلام کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے ،انہوں نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا؛ بلکہ ترکی پر بہت ہی ظالمانہ شرطیں عائد کر دیں، ۱۹۲۳ء میں جو معاہدہ ہوا– جسے معاہدۂ لوزان کہا جاتا ہے– میں ترکوں کو سو سال کے لئے پابند کیا گیا کہ وہ خلافت عثمانیہ کو ختم کردیں، سلطان اور اس کے خاندان کو ملک بدر کردیں، ان کو اگلے سو سال تک اپنی سرزمین میں نہ پٹرول تلاش کرنے کی اجازت ہوگی اورنہ نکالنے ، وہ صرف باہر سے پٹرول خرید سکیں گے، ابنائے باسفور کو عالمی آبی گذرگاہ کا درجہ حاصل ہوگا، اور اسے گذرنے والوں سے اجرت لینے کا حق نہیں ہوگا۔
چونکہ یہ خلافت پورے عالم میں مسلمانوں کی وحدت کا نشان تھی؛ اس لئے مغرب کو اس خلافت سے شدید بغض تھا، اور وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح قباء خلافت چاک بلکہ تار تار ہو جائے، بالآخر ۱۹۲۴ء میں ان کی یہ سازش کامیاب ہوگئی، تن آسانی، عشرت پسندی، علمی ترقی کی طرف سے بے توجہی ، عوام کے ساتھ نا منصفانہ سلوک اور باہمی اختلاف کی وجہ سے اس عظیم سلطنت کا خاتمہ ہوگیا، پھر بھی یہ بات تاریخ میں محفوظ رہے گی کہ ترک بھی ایسی قوم تھے جن کے یہاں تہذیب وتمدن کا کوئی گذر نہیں تھا، نہ علم تھا نہ تمدن، نہ حکومت تھی نہ سلطنت؛ بلکہ یہ خانہ بدوشوں کی زندگی گزارتے تھے، اور لوٹ مار کے ذریعہ اپنی ضرورت پوری کرتے تھے، بالآخر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے انہیں ایمان کی دولت حاصل ہوئی، آہستہ آہستہ یہ اقتدار کے بام عروج تک پہنچے، اور وہ عظیم الشان خلافت عثمانی قائم ہوئی، جس نے ۱۲۹۹ء سے لے کر ۱۹۲۲ء تک پورے عالمِ اسلام کی قیادت کی، ایشیا، افریقہ اور یورپ کے ڈھیر سارے ممالک یعنی موجودہ چھوٹے بڑے ۴۹؍ممالک خلافت عثمانیہ میں شامل تھے، اس عظیم الشان سلطنت نے قریب قریب پورے مشرقی یورپ کو اپنی عمل داری میں شامل کر لیا تھا، یہ حکومت دریائے فرات سے دریائے ڈانوب تک وسعت اختیار کر چکی تھی، امریکہ بحر متوسط میں امریکی جہازوں کی حفاظت کے عوض الجزائر کو ٹیکس ادا کرتا تھا، جارج واشنگٹن نے ترکی کو عثمانی طلائی سکہ بارہ ہزار لیرا سالانہ ادا کرنے کا معاہدہ کیا تھا، یہ ترکی ہی تھاجس نے ۲۵؍صلیبی حملوں کو نہایت قوت کے ساتھ کچل دیا، صلیبی طاقتوں کا حال یہ تھا کہ خلیفۂ عثمانی سلیمان قانونی کی وفات پر یورپ کے کلیساؤں میں شادیانے بجائے گئے، اور تین دنوں تک اظہار مسرت کے لئے عبادت کی گئی، ان ہی عثمانی سلاطین میں سے محمد الفاتح بھی ہیں، جنہوں نے ۲۹؍مارچ ۱۴۵۳ء کو صرف ۲۱؍سال کی عمر میں قسطنطنیہ کو فتح کیا، جس کا خواب مسلمان بنو امیہ کے دور سے دیکھتے آرہے تھے، اور جس کے فاتح کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی تھی، جب خلافت عثمانیہ بستر مرگ پر تھی، اور زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی، اس وقت بھی سلطان عبد الحمید نے اسلام اور ملت اسلامیہ سے وفاداری کی ایسی تاریخ رقم کی کہ بہ مشکل ہی اس کی مثال ملے گی کہ جب یہودیوں نے فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت مانگی اور اس کے عوض مقروض اور مالی بحران سے دو چار خلافت کو ایسی رقم کی پیش کش کی، جس سے اس کی مالی مشکلات حل ہو جائیںتو انہوں نے اسے ٹھکرا دیا، سلطان نے اپنے اقتدار کے خاتمہ کو قبول کیا؛ لیکن اپنا ضمیر بیچنے کو تیار نہ ہوئے ۔
افسوس کہ بجائے اس کے کہ ترک حکمراں اس زوال کے حقیقی اسباب پر غور کرتے ، اور وہ اسلام سے اپنا رشتہ استوار کرتے، اتاترک مصطفی کمال پاشانے تصور دیا کہ ان کے زوال کا سبب اسلام ہے؛ اس نے بہت سی مسجدیں مقفّل کر دیں، مدارس بند کردیے، ترکی ٹوپی پہننا جرم قرار پایا، مردوں کے لئے داڑھی اور عورتوں کے لئے حجاب کو ممنوع قرار دیا گیا، عربی زبان میں اذان اورتلاوت قرآن کی ممانعت کر دی گئی، اور ہر اس چیز کو مٹانے کی کوشش کی گئی، جس سے اسلام کی پہچان اور مسلمانوں کا تشخص وابستہ تھا، کم وبیش ۷۰-۸۰؍ سال ترکی اسی حال میں رہا، اور وہاں الحادو دہریت کوپختہ سے پختہ تر کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی، یہ نہ صرف نادان ترک حکمرانوں نے کیا؛ بلکہ مغربی طاقتوں نے بھی اس میں ان کی بھر پور مدد کی۔ (جاری)