محمد عرفان ندیم
ونسٹن چرچل برطانیہ کے مشہور وزیر اعظم تھے، انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز ایک سپاہی اور اخباری نمائندے کی حیثیت سے کیا تھا۔ وہ 1901میں برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور مختلف عہدوں سے ہوتے ہوئے 1940میں برطانیہ کے وزیر اعظم بن گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب دوسری جنگ عظیم عروج پر تھی، ونسٹن چرچل نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ہٹلر کو شکست پر مجبور کر دیا۔ 1945میں ہٹلر نے خود کشی کی اور جنگ ختم ہو گئی۔ جنگ کے فوری بعد برطانیہ میں الیکشن ہوئے اور چرچل یہ الیکشن ہار گئے۔ چرچل دوسری جنگ عظیم کا ہیرو تھا اور اس نے برطانیہ کو شکست سے بچایا تھا لیکن برطانوی عوام نے چرچل کو ووٹ دینے سے انکا رکر دیا، برطانوی عوام کا کہنا تھا کہ چرچل ایک جنگی ہیرو ہے اور اب ہمیں جنگ نہیں امن کی ضرورت ہے لہذا چرچل برطانیہ کی تعمیر نو اور امن کے لیئے موزوں امیدوار نہیں۔ برطانوی عوام نے مناسب وقت پر درست فیصلہ کیا تھا، برطانوی عوام جانتے تھے کہ چرچل ایک جنگجو جرنیل ہے اور ایسے شخص سے صرف جنگ کی امید ہی کی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے چرچل اگر الیکشن جیت جاتا تو دنیا ایک نئی جنگ میں مبتلا ہوجاتی۔
میں نے پچھلے کالم میں عمران خان کی سیاست اور اس کی شخصیت پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، میں نے واضح کیا تھا عمران کس طرح پاکستان مخالف قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہو سکتا ہے یا ہو رہا ہے۔ کچھ سال قبل انڈیا میں انتخابات ہوئے اور مودی وزیر اعظم بن کر سامنے آئے تو میں نے کچھ انڈین جرنلسٹ کے سامنے سوال اٹھایا کہ کیا انڈین عوام کا شعور ابھی اتنا بلند نہیں ہوا کہ انہوں نے ایک مذہبی انتہاء پسند کو وزیر اعظم منتخب کر لیا، انہوں نے کچھ حقائق بیان کیئے اور بات آئی گئی ہو گئی۔ اب عمران خان الیکشن جیتے تو اسی طرح کے سوالات کا سامنا مجھے بھی کرنا پڑا کہ کیا پاکستانی عوام کا شعور ابھی اتنا بلند نہیں ہوا کہ انہوں نے ایک سیاسی اتنہاء پسند کو وزیر اعظم منتخب کر لیا۔ عمران خان کی سیاسی اتنہاء پسندی پاکستان کو کیا نقصان پہنچا سکتی ہے اس کے لیے پہلے آپ کو عمران خان کے ماضی پر نظر ڈالنا ہو گی ۔پچھلے پانچ سال میں اس نے جس سیاسی انتہاء پسندی کا مظاہرہ کیا اور پاکستان جس طرح عدم استحکام کا شکار ہوا یہ پاکستان کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔ تب یہ اپوزیشن میں تھا، اب یہ حکومت میں ہو گا، دوسری طرف اپوزیشن بھی انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے اسے ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کر چکی ہے، اب اگر یہ حکومت میں ہوتے ہوئے سیاسی انتہاء پسندی کا مظاہرہ کرتا ہے تواس کے اثرات ملک کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوں گے،پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا اور ملک میں انارکی پھیلانا یہ پاکستان مخالف قوتوں کا سب سے پہلا ہدف ہے، اگر وہ اس ہدف میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اگلے مراحل خود بخود آسان ہوتے چلے جائیں گے۔
یہ صورتحال پاکستان مخالف قوتوں کے لیے انتہائی ساز گار ہوگی اور وہ کھل کر اپنا کھیل کھیل سکیں گے اور ہمیں تب خبر ہو گی جب پانی سر کے اوپر سے گزر چکا ہو گا۔ یہ داخلی سطح کے مسائل ہیں اسی صورتحال کو آپ خارجی سطح پر قیاس کر لیں ، عمران کی سیاسی اتنہاء پسندی خارجی سطح پر بھی بہت سارے مسائل کو جنم دے گی، ایک طرف مودی جیسا مذہبی انتہاء پسند ہے اور دوسری طرف سیاسی انتہاء پسند، اسرائیل انڈیا کے ساتھ مل کراس انتہاء پسندی کو ہوا دے گا، جواب میں عمران خان سے بھی اسی رویے کا مظاہرہ کروایا جائے گا، دونوں طرف ایسی صورتحال پیدا ہو جائے گی جس کی دو انتہاء پسندوں سے توقع کی جا سکتی ہے، اس سارے ہنگامے کا اصل مقصد پاکستان کو توڑنا اور اس کی ایٹمی صلاحیت کو نقصان پہنچانا ہوگا۔ حتی کہ اس مقصد کے لیے عالمی طاقتوں کو دونوں ملکوں کو میدان جنگ میں بھی لانا پڑا تو وہ اس سے بھی گریز نہیں کریں گی اور آخر میں ہیروشیما اور ناگا ساکی جیسی داستانیں رہ جائیں گی اور بس۔
عمران خان یہ سب ” کارنامے ” کیسے سرانجام دے گا اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں ، یہ سب کام اپنی فطرت سے مجبور ہو کر بھی کر سکتا ہے کہ اس کے ماضی سے اس کی فطرت کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے، پچھلے پانچ سالوں میں جس طرح کی سیاست عمران نے کی وہ سب کے سامنے ہے،دھرنے سے لے کر قوم کو بغاوت پر اکسانے تک،کنٹینر پر کھڑے ہو کر سر عام بجلی کے بل جلانے سے پارلیمنٹ پر حملہ کرانے تک سب واقعات سے ایسا لگتا تھا کہ عمران کو ملکی مفاد کی کوئی پرواہ نہیں ،اس کا مقصد بس احتجاج، انتشار اور عدم استحکام ہے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اس کے ارد گر د موجود مشیروں کے ذریعے سے اس سے ایسے کام کروائے جائیں اور تیسری صورت میں یہودی لابی جو پہلے ہی اس کی فیملی کا حصہ ہے وہ بھی اسے ایسا کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ یہ سب کام عمران سے ملکی مفاد اور غیر شعوری طور پر کروائے جائیں گے کیونکہ نوے کی دہائی میں جو پلاننگ کی گئی تھی اب اس پلاننگ کے نتائج او ر ثمرات سمیٹنے کا وقت ہے اور جن قوتوں نے اتنی جدو جہد اور سرمایہ کاری کی ہے وہ اس موقعے کو کبھی ضائع نہیں ہونے دیں گی۔
یہ چند ممکنہ صورتیں ہیں جن کا روپ دھار کر پاکستان مخالف قوتیں عمران کو استعمال کررہی ہیں یا کر سکتی ہیں۔ اور اگر بالفرض عمران سے یہ کام نہیں ہوتے تو اگلے مہرے پر پہلے سے ہی محنت جا رہی ہے جس کا میں پچھلے کالم میں حوالہ دے چکا ہوں۔ میں نے یہ چند مفروضات آپ کے سامنے رکھے ہیں، لکھنے کو اور بہت کچھ ہے لیکن ا بھی عوام کے لیے اسے ہضم کرنا مشکل ہے کہ اس وقت نوجوانوں کی اکثریت عمران کی شخصیت اور اس کی باتوں کے سحر میں گرفتار ہے۔ اس لیے کچھ وقت گزرنے دیں سب چیزیں خود بخود عیاں ہو تی جائیں گی۔ اور اگر یہ سب باتیں ، حقائق اور مفروضات غلط ثابت ہوتے ہیں تو میرا یہی قلم اخبار کے انہی صفحات پر عمران کی حمایت میں لکھ رہا ہو گا اور مجھے اپنی ان باتوں سے رجوع کر نے میں ذرہ بھر عار محسوس نہیں ہو گی۔






