خورشید عالم داؤد قاسمی
دار العلوم، دیوبند کے بانی امام محمد قاسم نانوتویؒ (1832-1880) کے پڑپوتے، ریاست دکن (حیدرآباد) کی عدالتِ عالیہ کے قاضی اور مفتی اعظم مولانا حافظ محمد احمد صاحبؒ (1862-1928) کے پوتے اور بیسویں صدی میں برّ صغیر کےعالم فرید اور ملت اسلامیہ کی آبرو حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ (1897-1983)کے صاحب زادے خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمیؒ (1926-2018) اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ حضرت خطیب الاسلام کے آباؤ اجداد نے وہ خدمات اور قربانیاں پیش کیں ہیں کہ بر صغیر کا ہر مسلمان، ان حضرات کا شکرگزار ہے اور ان کو لائق صد تعظیم وتکریم سمجھتا ہے۔ ان عظیم نسبتوں اور خاندانی خدمات کے علاوہ، خود خطیب الاسلام کی ذات میں اللہ تعالی نے بہت سے کمالات واوصاف ودیعت کر رکھے تھے۔آپ میں صلاحیت وصالحیت ،خشیت وللہیت ، تقوی وپرہیز گاری ، صبر وتحمل، علم وفضل اور فہمِ فکر وفلسفۂ قاسمی بدرجہ اتم موجود تھی۔ بلا شبہ آپ “فکرِ دیوبند” کے ترجمان تھے۔ آج آپ کے رخصت ہوجانے پر، ہر کوئی اظہارِ افسوس کررہا ہے۔
موت اس کی کرےجس کا زمانہ افسوس – یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
آپ کی خصوصیات وامتیازات اور اوصاف وکمالات کی وجہہ سے لوگ آپ سے دل وجان سے محبت کرتے تھے؛ بل کہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اللہ نے آپ کی قبولیت ومحبت لوگوں کے دلوں میں اس طرح ڈالدی تھی کہ سب آپ کے دیوانے تھے اور جب بھی آپ کا نام آتا؛ تو زبانیں ذکر خیر اور تعریف وتوصیف میں مشغول ہوجاتیں۔ جناب نبی صادق ومصدوق –صلی اللہ علیہ وسلم– کا فرمان ہے: “إِذَا أَحَبَّ اللهُ العَبْدَ نَادَى جِبْرِيلَ: إِنَّ اللهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحْبِبْهُ، فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ: إِنَّ اللهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحِبُّوهُ، فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ القَبُولُ فِي الأَرْضِ” (صحیح البخاري عن أبي هريرة رضی اللہ عنہ: 3209) ترجمہ: جب اللہ تعالی کسی بندے سے محبت کرتے ہیں؛ تو اللہ تعالی جبریل –علیہ السلام– کو بلاتے ہیں (اور کہتے ہیں): اللہ تعالی فلاں سے محبت کرتے ہیں؛ لہذا آپ بھی اس سے محبت کریں! چناں چہ جبریل –علیہ السلام– اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔پھر جبریل –علیہ السلام– آسمان والوں کے درمیان اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی فلاں سے محبت کرتے ہیں؛ لہذا آپ بھی اس سے محبت کریں! چناں چہ آسمان والے بھی ان سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر زمین میں اس کے لیے قبولیت ڈالی جاتی ہے (روئے زمین والے بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔)۔
“علم” ایک بڑی قابل فضیلت چیز ہے۔ اس کی واضح اور بین دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی شانہ نے قرآن کریم میں، “اہل ایمان” اور “اہل علم” کے درجات بلند کرنے کا ذکر کیا ہے۔ فرمان باری تعالی ہے: ﴿يَرْفَعِ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا العِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ﴾. (مجادلہ: 11) ترجمہ: “اللہ تعالی تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے جنھیں “علم” عطا ہوا ہےدرجے بلند کرے گااور اللہ کو تمھارے اعمال کی پوری خبر ہے”۔ اللہ تعالی نےخطیب الاسلام کو علوم نبوّت کے وافر حصے سے نواز کر، بلند مقام ومرتبہ عطا فرما رکھا تھا، جس کا مشاہدہ لوگوں نے اپنی کھلی آنکھوں کیا۔ اب آپ اس دنیا میں نہیں رہے، امید ہے کہ آخرت میں بھی دونوں جہان کے خالق ومالک آپ کو عظیم مراتب سے سرفراز فرماکر، جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائیں گے۔
ما الفضلُ إِلا لأَهْلِ العِلمِ إِنّهُم ٭ عَلَی الهُدی لِمنِ اسْتَهْدی أَدِلّاءُ
ترجمہ: فضیلت تو اہل علم ہی کے لیے؛ کیوں کہ وہ ہدایت پر ہیں (اور) ان کی رہنمائی کرتے جوہدایت کے طلب گار ہیں۔
مختلف حدیثوں میں “رفع علم” (علم کے اٹھنے) کو علامات قیامت میں شمار کرایا گیا ہے۔ نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– کے خادم خاص –رضی اللہ عنہ– نقل کرتے ہیں کہ آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے فرمایا: “إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ: أَنْ يُرْفَعَ العِلْمُ وَيَثْبُتَ الجَهْلُ، وَيُشْرَبَ الخَمْرُ، وَيَظْهَرَ الزِّنَا” (صحیح البخاري عن أنس رضی اللہ عنہ: 80) ترجمہ: “قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھا لیاجائے گا اور جہالت جم جائے گی، شراب پی جائے گی اور زنا عام ہوجائے گا”۔
اگرحضرت خطیب الاسلامؒ کی زندگی پر غور کریں؛تو اندازہ ہوگا کہ ان کا سینہ در حقیقت علوم ومعارف کا گنجینہ تھا۔ آپ عصر حاضر میں ان چند گنے چنے اہل علم میں سے تھے کہ بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان جیسے اہل علم وفضل کا ہمارے درمیان رہنا رحمت کا باعث تھا اور ان جیسے کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا ،قربِ قیامت کی علامات میں سے ہے جسے حدیث میں “رفع علم” اور “قبض العلم” سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت خطیب الاسلامؒ کو اللہ تعالی نے علم جیسی عظیم نعمت سے نوازا تھا۔ پھر اللہ تعالی نے ان کو علم سے نوازنے کے ساتھ ساتھ ان علوم کی نشر واشاعت کی بھی بھرپور صلاحیت سے نوازا تھا؛ چناں چہ آپ نے ان علوم سے امت محمدیّہ کے نونہالان کوخوب مستفید کیا۔ آپ نے ان علوم کی نشر واشاعت کے لیے درس وتدریس، دعوت وتبلیغ، تقریر وخطابت، وعظ ونصیحت اور تحریر وتصنیف کے راستے اختیار کیے۔
فراغت کے معًا بعد، ایشیاء کی عظیم اِسلامی درس گاہ: دار العلوم، دیوبند میں، سن 1948 عیسوی میں مدرّس ومعلم کی حیثیت سے آپ کا تقرر عمل میں آیا۔ آپ کو پڑھنے پڑھانے سے اتنی دل چسپی تھی کہ جن حضرات نے آپ سے پڑھا اور استفادہ کیا ہے، ان کا بیان ہے کہ جوں ہی گھنٹہ بجتا، آپ درس گاہ میں پہنچ جاتے۔ دورانِ درس اِدھر اُدھر کی باتوں سے کلی طور پر اجتناب کرتے۔ آپ کی اصل توجہہ درس اور افہام درس پر ہوتی۔ جوں ہی اگلا گھنٹہ بجتا، آپ درس گاہ سے نکل جاتے۔ آپ ٹھوس صلاحیت کے مالک، ایک قابل اور باصلاحیت مدرّس تھے۔ آپ کے درس کے دوران ایسا لگتا تھا کہ گویا علوم ومعارف کے چشمے بہہ رہے ہیں۔ آپ کو صرف ونحو، فقہ، اصول فقہ، تفسیر، اصول تفسیر، حدیث، اصول حدیث ، بلاغت اور عقائد وکلام جیسے فنون کی تدریس کی ذمے داری سپرد کی گئی جسے آپ نے بحسن وخوبی انجام دیا۔ ایک مدت تک حدیث کی مشہور کتابیں: مشکاۃ المصابیح، سنن ابی داؤد اورصحیح بخاری وغیرہ کا درس بھی دیا۔ اخیر میں ملی واجتماعی مصروفیات کی وجہہ سے صرف صحیح بخاری کے کچھ اجزاء کی تدریس آپ سے متعلق تھی۔
تصنیف وتالیف کے حوالے آپ کے گہربار قلم سے چند قیمتی کتابیں وجود میں آئیں۔ وہ کتابیں: “قرآن کریم کے اردو تراجم کا جائزہ”،”رسالۃ المصطفی”،”تاجدار ارض حرم کا پیغام”،”مرد غازی”،”مجاہدین آزادی”،”ایک عظیم تاریخی کارنامہ”،”سفرنامہ برما” اور “مبادئ التربیۃ الاسلامیۃ (عربی) وغیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ، مختلف مواقع سے لکھے گئے مضامین ومقالات بھی ہیں جو مختلف جرائد ورسائل میں شائع ہوئے۔
عصری درس گاہوں کے اکثر طلبہ علومِ اسلامیّہ سے نابلد ہوتے ہیں۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ اکثر عصری ادارے میں، علومِ اسلامیّہ کی تدریس شاملِ نصاب نہیں ہے۔ چناں چہ عصری درس گاہوں کے طلبہ کو علومِ اسلامیّہ سے روشناس کرانے کی فکر میں، حضرت نے سن 1966 عیسوی میں ایک مراسلاتی طریقہ تعلیم کا ادارہ بہ نام: “جامعہ دینیات” قائم کیا۔ عصری اداروں سے وابستہ سیکڑوں طلبہ نے اس ادارہ سے وابستہ ہوکر، اسلامی علوم سے واقفیت حاصل کی۔ یہ ادارہ تاہنوز اپنی خدمات پیش کررہا ہے اور طلبہ استفادہ کررہے ہیں۔
علوم دینیہ کی نشرواشاعت کے حوالے سے “جامعہ دینیات” کے پیلٹ فارم سے خطیب الاسلام کی خدمت قابل ستائش ہے۔ اسی طرح آپ کے علوم ومعارف سے دونوں دارلعلوموں میں ہزاروں طلبہ اور علماء نے استفادہ کیا اور نفع اٹھایا۔ آپ کی تحریری خدمات میں آپ کے قلم سے نکلی ہوئی کتابیں ہیں۔ آپ کی یہ عظیم خدمات یقینا آپ کےلیے صدقہ جاریہ ہوں گی اور آپ کو اس کا ثواب ملتا رہے گا۔ نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– کا فرمان ہے: “إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ”. (صحیح مسلم عن أبي هريرة رضی اللہ عنہ: 1631) ترجمہ: جب آدمی مرجاتا ہے؛ تو اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں، سوائے تین ( اعمال کہ ان کا ثواب منقطع نہیں ہوتا ) : (1) صدقہ جاریہ (لوگوں کے پانی پینے کے لیےپانی کا انتظام کردیا کوئی زمین وغیرہ للہ وقت کردیا ہو)، (2) یا ایسا علم جس سے نفع اٹھا یا جائے(دینی علوم کی تعلیم وتدریس میں مشغول ہو)اور (3) یا نیک اور صالح اولاد (چھوڑ کر وفات پایا ) جو اس کےلیے دعاء کرتی ہے۔
حضرت خطیب الاسلامؒ شروع سے ہی ایک معتبر خطیب ومقرر کی حیثیت سے اندرون اور بیرون ہند میں متعارف تھے۔ آپ اتنے سیدھے سادھے اور بھولے بھالے تھے کہ جہاں سے بھی دعوتی واصلاحی پروگراموں کے لیے دعوت آتی، آپ دعوت قبول فرما لیتے۔ آپ جہاں اور جس پروگرام میں تشریف لے جاتے، آپ کی حیثیت میر ِمجلس کی ہوتی؛ مگر اس کے باوجود بھی دعوت دینے والوں کو شروط وقیود کے جال میں پھنسانے کو ہرگز پسند نہیں کرتے تھے۔ اگر آپ کے پاس وقت ہوتا؛ تو خوش دلی سے دعوت قبول فرمالیتے اوردعوت دینے والے جیسا بھی انتظام کردیں، آپ اس کے خلاف زبانِ شکایت نہیں کھولتے۔ آپ نے دعوتی واصلاحی پروگرام کی مناسبت سے درجنوں ممالک اور اندرون ہند سیکڑوں شہروں اور دیہاتوں کا سفر کیا۔ آپ شروع زمانے سے ہی منفرد اسلوب ولہجہ کے خطیب ومقرر تھے جیسا کہ آپ کے عظیم والدحضرت حکیم الاسلام جلیل القدروفرید العصر خطیب ومقرر تھے۔ آپ کسی بھی اصلاحی ودعوتی پروگراموں میں تشریف لے جانے سے انکار نہیں کرتے، گویا آپ کے سامنے ہمیشہ نبی آخر الزماں –صلی اللہ علیہ وسلم – کا فرمان ہوتا تھا کہ «بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً» (صحیح البخاری عن عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ: 3461) ترجمہ: میری طرف سے پہنچاؤ، گرچہ ایک آیت ہی ہو۔
وقِیمةُ المرءِ مَا قَد كَانَ یُحسِنُهُ ٭ وَلِلرِّجَالِ عَلَى الْأَفْعَالِ أَسماءُ
ترجمہ: انسان کی اہمیت اس کی خوبی اور بھلائی میں ہے جو اس نے کیا ہے؛ کیوں کہ مردوں کے لیے صرف ان کے کام ہی (ان کے باصلاحیت ہونے)ثبوت ہے۔
حضرت خطیب الاسلامؒ تواضع وخاک ساری، عاجزی وانکساری کے حوالے سےبھی قابل تقیلد تھے۔ آپ انانیت وخودپسندی، خود غرضی وخود نمائی سے کوسوں دور تھے۔بڑے چھوٹے سب کو آپ پیار ومحبت اور ادب واحترام سےخطاب فرماتے تھے۔ اسی کا نتیجہ تھا اللہ تعالی نے آپ کو وہ مقام ومرتبہ دیا تھا کہ ہند وبیرون ہند سے اہل علم وفضل علماء آپ کی زیارت اور کبھی علم حدیث کی سند واجازت کے لیے دیوبند میں “طیّب منزل” پر تشریف لاتے۔کبھی بڑے بڑے داعیان ومبلغین آپ کے سامنے اپنی کارگزاری سنا کر، دعا کی درخواست کرتے اور آپ کی دعا سے اپنے دامن کو بھر کرجاتے۔ بہت سی سماجی شخصیات، سیاسی لیڈران اوراہل دولت وثروت آپ سے شرفِ ملاقات کے لیے دیوبند تشریف لاتے اور “طیّب منزل” پر پہنچ کر، آپ کی زیارت کا شرف حاصل کرتے اور دعا کی درخواست کرتے۔ پیارے نبی –صلی اللہ علیہ وسلم– نے ایک چھوٹے سے جملے میں کتنی بڑی حقیقت کو رکھ دیا، آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– کا فرمان ہے: «مَن تَواضَعَ للهِ رَفَعَهُ اللهُ». (شعب الإيمان، حدیث: 7790) ترجمہ: جس نے اللہ واسطے تواضع اختیار کی، اللہ تعالی اس کو بلنددرجہ عطا کریں گے۔
آپ کی مجلس میں اکثر علماء اورطالبانِ علوم بنویہ شرکت کرتے اور آپ کے زریں اقوال اورنصیحت سے مستفید ہوتے۔ آپ کی مجلس میں شریک کسی فرد کو اجازت نہیں تھی کہ وہ کسی کی کردار کشی اور عیب جوئی کرے۔ آپ کی مجلس غیبت وچغلی سے پاک وصاف اور منزہ ہوتی تھی، اس کا اعتراف ہر اس شخص کو ہوگا جس نے آپ کی مجلس میں شرکت کی ہے۔ اس طرح آپ خود بھی غیبت کرنے کی اخلاقی پستی سےدور رہتے اور اپنی مجلس کے شرکت کنندگان کو بھی غیبت کی قباحت وشناعت سے محفوظ کردیتے۔ ایک حدیث ہے: “يَا مَعْشَرَ مَنْ آمَنَ بِلِسَانِهِ، وَلَمْ يَدْخُلِ الْإِيمَانُ قَلْبَهُ، لَا تَغْتَابُوا الْمُسْلِمِينَ، وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ، فَإِنَّهُ مَنِ اتَّبَعَ عَوْرَاتِهِمْ يَتَّبِعُ اللهُ عَوْرَتَهُ، وَمَنْ يَتَّبِعِ اللهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ فِي بَيْتِهِ.” (سنن أبی داود، حدیث: 4880) ترجمہ: اےان لوگوں کی جماعت جن کے زبان پر تو ایمان ہے، مگر ایمان ( ابھی) ان کے دل میں داخل نہیں ہوا! مسلمانوں کی غیبت اور عیب کے پیچھے مت پڑو؛ کیوں کہ جو شخص ان کےعیب کے پیچھے پڑیگا ، اللہ اس کے عیب کے پیچھے پڑیں گے، اور اللہ جس کے عیب کے پیچھے پڑیں گے، اسے اس کے گھر میں ہی رسوا کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ خطیب الاسلام عہدے اور مناصب کے جھمیلے سے دور بھاگتے تھے۔ مگرضرورت کے وقت کچھ عہدے اور مناصب کو آپ نے عزت بخشی۔ آپ ہندوستانی مسلمانوں کی دینی واسلامی شعائراور عائلی مسائل کی محافظ تنظیم: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کی مجلس عاملہ کے موقر رکن اور نائب صدر محترم، مسلم مجلس مشاورت کے سابق صدر،ممتاز دینی ادارہ جامعہ مظاہر علوم (وقف) کی مجلس شوری کے سرپرست، عالمی شہرت یافتہ دینی درس گاہ: دار العلوم ندوۃ العلماء کی مجلس شوری وانتظامیہ کے رکن، اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا کے سرپرست، علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے کورٹ کے سابق رکن اور ان اداروں کے علاوہ مختلف دینی وملی ، تعلیمی وفلاحی ادارے کےسرپرست ونگراں۔ اسی طرح آپ دار العلوم وقف، دیوبند کے مھتمم، پھر صدر مھتمم رہے اور آج دار العلوم وقف کی جو ترقی اور روشن خدمات ہیں، اس کا سہرا بلا واسطہ یا بالواسطہ آپ کے ہی سر جاتا ہے۔
آپ کی تدریسی وتعلیمی، علمی ددینی اور دعوتی واصلاحی خدمات مسلم ہے۔ آپ ایک ممتاز عالم دین تھے؛ چناں چہ مصری حکومت نے آپ کو”نوط الامتیاز/نشان امتیاز” ایوارڈ سےنوازا۔ آپ سیکڑوں علماء وفضلاء کی موجودگی میں، ساؤتھ افریقہ کی سرزمین پر،”امام محمد قاسم النانوتوي ایوارڈ” سے نوازے گئے۔ آپ حضرت شاہ ولی اللہ ایوارڈ سے بھی نوازے گئے۔
حضرت خطیبؒ الاسلام کی تعلیم از ناظرہ وحفظ القرآن الکریم تا تکمیل فضیلت (دورہ حدیث شریف) دار العلوم، دیوبندمیں ہوئی۔ آپ نے سن 1948م=1376ھ میں دار العلوم سے تکمیل فضیلت کی۔ آپ نے علوم حدیث کے آفتاب وماہتاب محدثین سے درس حدیث اخذ کیا۔ ان میں حضرت مولانا سید فخرالحسن صاحبؒ، حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی صاحبؒ (1886-1967ء)، حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی صاحبؒ (1882-1952ء)، (آپ کے والد ماجد) حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی صاحبؒ (1897-1983ء) اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی صاحبؒ (1879-1957ء) ہیں۔ آپ کو حضرت شیخ الحدیث محمد زکریا صاحب کاندھلوی ثم مدنیؒ (1897-1982ء) اور شیخ عبد اللہ بن احمد الناخبیؒ سے بھی اجازت حدیث حاصل تھی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ حضرت تھانوی کے آخری شاگرد تھے۔ آپ نے درس نظامی کی مشہور بنیادی کتاب: “میزان الصّرف” حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ (1863-1943ء) سے پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔
العِلْمُ زَيْن فَكُنْ لِلْعِلْمِ مُكْتَسِبَا ٭ وَكُنْ لَهُ طَالِبًا ما عِشْتَ مُقْتَبِسَا
ترجمہ: علم خوبی اور حسن وجمال ہے؛ چناں چہ علم ضرور حاصل کریں ٭ آپ طالب علم ہوجائیں، جب تک آپ زندہ ہیں علم حاصل کرتے رہیں ۔
حضرت خطیب الاسلامؒ کی ولات، بہ روز: جمعہ، 8/جنوری 1926م =22/جمادی الاخری 1344ھ کو ہوئی۔ آپ تقریبا 94/سال کی عمر میں، بہ روز: سنیچر، 14/اپریل 2018م = 26/رجب 1439ھ کو اپنی جان مستعار، جاں آفریں کو سپرد کردی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دار العلوم، دیوبند کا مشہور احاطہ: احاطۂ مولسری ـــــ جو ایک مدت تک آپ کے اخلاص وللہیت، علم وعمل اور تعلیمی وتدریسی زندگی کا خاموش گواہ رہا ہے ـــــ میں رات کے دس بجے، آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ آپ کے صاحب زادے اوردار العلوم وقف دیوبند کے موقر رئیس حضرت مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی –دامت برکاتہم– نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ہزارہا ہزار فرزندان توحید نے نماز جنازہ میں شرکت کی اور نم آنکھوں سے “مزارِ قاسمی” میں، آپ کے والدِ بزرگوار: قاری محمد طیب قاسمی صاحبؒ اور جدّ امجد، امام محمد قاسم نانوتویؒ کی قبروں کے درمیان آپ کو سپرد خاک کردیا۔
وَإِذَا ذكَرْتُكَ مَيتًا سَفَحَتْ ٭ عَيْنِيْ الدُّمُوْعَ فَفَاضَ وَانْسَكَبَا
ترجمہ: جب بھی میں آپ کی وفات کا ذکر کرتا ہوں، میری آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور میں بکثرت روتا ہوں۔
٭ ہیڈ: اسلامک ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in