ڈاکٹر محمد سلمان خاں ندوی
تحریک آزادی جس کے حصول کے لئے بلا تفریق مذہب و ملت سبھی نے قربانیاں پیش کیں اور انگریزی استعمار سے نجات حاصل کرنے کے لئے بڑی جد و جہد کی اسکے بعدآزادی کی نعمت حاصل ہوئی، اسکے لیے ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کانذرانہ پیش کیا،جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں تختہٴ دار پرچڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرات وحوصلہ اورکمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قیدو بندکی صعوبتیں جھیلیں اور حصولِ آزادی کی خاطرمیدا ن جنگ میں نکل پڑے، آخر غیرملکی (انگریز) ملک سے نکل جانے پرمجبورہوئے۔
غیرملکی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کوقائم رکھنے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلیں، تدبیریں کیں، رشوتیں دیں، لالچ دیئے، پھوٹ ڈالواورحکومت کروکااصول بڑے پیمانے پر اختیار کیا،فرقہ وارانہ اختلافات پیداکیے، حقائق کوتوڑمروڑکرپیش کیا، آپس میں غلط فہمیاں پھیلائیں، تاریخ کومسخ کیا،انگریزوں نے ہندوستان کے معصوم باشندوں پرظلم وستم کے پہاڑ توڑے اورناحق لوگوں کوتختہٴ دارپرلٹکایا، ہندوستانیوں پرناحق گولیاں چلائیں، چلتی ریلوں پر سے اٹھاکرباہر پھینکا؛ مگر ان کے ظلم وستم کوروکنے اورطوقِ غلامی کوگردن سے نکالنے کے لیے بہادر مجاہدین آزادی نے ان کا مقابلہ کیااورملک کوآزادکرکے ہی اطمینان کاسانس لیا۔
آزادی کے بعد اقلیتوں کی زبوں حالی
15 اگست 1947 کے دن کا سورج طلوع ہوا جب وہ اہل وطن پہ ایک نئی زندگی، اور نئے عہد کی نوید جانفزا لیکے آیا، پورا ملک خوشی اور سرشاری سے جھوم رہا تھا، نئی امیدوں اور نئے آرزوؤں کا اجالا ہوچکا تھا، بوڑھوں کے بھی جذبے جواں ہوچکے تھے، نئی امنگوں کا تانا بانا بنا جاچکا تھا، روشن مستقبل کی خواہشیں دلوں میں انگڑائیاں لے رہیں تھی، ہر چہرہ خوش، ہر مکھڑا سجا سنورا تھا، لیکن کسے خبر تھی کہ آنے والے ایام خوش آئند بھی ثابت ہوں گے، ہمیں آزادی تو ضرور ملی، مگر صرف جسمانی آزادی، فکری، اور عملی آزادی تو ہمیں نصیب ہی نہیں ہوئی، ہمیں تعلیمی میدان میں پیچھے کردیا گیا، سیاست میں ہمیں بے وقعت کردیا گیا، ہم پہ خوف و ہراس کو مسلط کردیا گیا، ، ہمیں فسادات کی آگ میں جھونک دیا، ماؤں اور بہنوں کی عصمتوں کو ملک کے متعدد شہروں گجرات، احمدآباد، اور پھر مظفر نگر میں لوٹا گیا، ہمیں گھر سے بے گھر کردیا گیا، ہمیں دیش دروہی اور نہ جانے کتنے القاب سے ملقب کیا گیا، ہمارے نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا، اور پھر ان کی زندگی کے قیمتی ایام ضائع کردئیے گئے، ہماری سوچوں پہ پہرے بٹھادئیے گئے، ہماری زبانوں پہ تالے لگا دئیے گئے، ہمیں مصلحتوں کے سمندر میں غرق کردیا گیا، ڈر ڈر کے جینے پر آمادہ کیا گیا، ہمیں کبھی پاکستان بھگانے کی بات کی گئی، کبھی گئو رکشا کے نام پر ہماری ہتیا کردی گئی، ہمارے مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ بتایا گیا، ہماری یونیورسٹیوں پہ ریڈ مارے گئے…کیسی آزادی اور کس چیز کی آزادی….کس چیز کی خوشی، یہ تو آزادی کا نہایت ہی بھیانک چہرہ ہے، یہ تو وہ آزادی نہیں ہے جس کے خواب دیکھے گئے تھے، جس کے دیپ جلائے گئے تھے، یہ تو وہ تعبیر حیات نہیں ہے جس کے نقوش تیار کئے گئے، یہ تو وہ برابری اور مساوات نہیں ہے جس کی قانون میں بات کی گئی تھی،ہمیں وہ آزادی چاہیئے جو سب کے لئے برابر ہو، جو انسان کو مذہب کی بنیاد پہ نہیں اس کے صلاحیتوں کی بنیاد پہ تولے، جس میں دور دور تک بھید بھاؤ کا شائبہ نہ ہو، سب کو یکساں حقوق حاصل ہوں، پڑھنے کی آزادی ہو، سوچنے کی آزادی، لکھنے اور بولنے کی آزادی، جہاں ہر پل، ہر وقت احساس ہو کہ ہاں ہم آزاد ہیں، ایسی آزادی کہ جب لکھنے بیٹھیں تو یہ نہ سوچنے پہ مجبور ہونا پڑے کہ کہیں اس تحریر پہ ہماری گرفت تو نہیں کی جائیگی، کہیں اسے دیش مخالف تحریر تو نہیں بتایا جائیگا، ہمیں اس قسم کی آزادی چاہیئے جہاں اکثریتیں اقلیتوں پہ ظلم نہ کرسکیں.
آئین وقانون پر خطرات کے بادل
آج ملک پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں جب سے ملک میں ایک مخصوص نظریہ فکر کو اقتدار ملا ہے ملک کے آئین و قانون کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے،ہندوستان کی آزادی کو اس سے بڑھ کر اور کیا خطرہ ہوگا کہ خود آئین کا حلف لینے والا ایک مرکزی وزیر (اننت ہیگڈے) یہ بیان دے کہ ’’ہم اقتدار میں اس لیے آئے ہیں کہ اس آئین کو بدل دیں۔‘‘ آئین میں ترمیم کی بات بھی ہوتی ہے اور آئین میں ترمیم کی بھی جاتی ہے۔ لیکن سنگھ کے پرانے پرچارک ہیگڈے جب یہ کہیں کہ ’’ہم آئین کو بدلنے آئے ہیں‘‘ تو یہ خطرناک بات ہے۔ ابھی جلد ہی یہ خبر بھی آئی کہ آئین ھند کی کاپیاں کھلم کھلا جلائی گئیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ہندوستانی آئین تسلیم نہیں ۔ سنگھ اور بی جے پی ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے برخلاف اس ملک میں ’ایک راشٹر، ایک زبان اور ایک کلچر‘ پر مبنی ایک رنگی تہذیب قائم کرنا چاہتے ہیں جو بہ الفاظ دیگر ہندو راشٹر ہے جو سنگھ کا ایجنڈا ہے جس کو وہ بی جے پی کے ذریعہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ ہندوستانی آئین کے حدود میں ممکن نہیں ہے۔ اس لیے وہ اس آئین کو بنیادی طور پر ختم کرکے ایک نیا آئین لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ جب آئین ہی نہیں رہے گا تو پھر ملک کی جمہوریت کیسے بچے گی۔ اس یوم آزادی پر یہ سب سے بڑا سوال ہے جو ہندوستانی عوام اور سیاسی نظام کو درپیش ہے۔ اگر اس سوال کا جواب جلد تلاش نہیں ہوا تو پھر یقیناً جمہوریت ایک سنگین خطرے سے دوچار ہو جائے گی جس کے آثار اب صاف نظر آرہے ہیں۔
ہندوستان کے اندر جس طرح کی آزادی آج کل رقصاں ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، اقلیتوں پر حملہ کرنے کی آزادی ، ظلم کرکے قانون سے بچنے کی آزادی، معصوموں کے جیل کے سلاخوں میں دھکیل کر ان کی زندگی برباد کرنے بعد آرام سے رہنے کی آزادی، بے قصور لوگوں کو جھوٹے معاملات میں پھنسا کر ان کا میڈیا ٹرائل کرنے کی آزادی، چینلوں پہ بیٹھ کر سرعام دوسروں کے مذہب کے خلاف ہفوات بکنے کی آزادی، بھیڑ کو قانون ہاتھ میں لینے پر اکسانے کی آزادی، تعلیم کو بھگوا کرن کرنے کی آزادی، نصاب تعلیم سے مسلمانوں کے ذکر کو حذف کرنے کی آزادی، یہ آزادی یہاں بسنے والی ایک بڑی اقلیت مسلمانوں اور پسماندہ ذاتوں کے لئے بڑے خطرہ کی گھڑی ہے اس کے مقابلہ کے لئے بڑی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ، اور تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف جہتوں میں باشعور رہ کر جینے کی ضرورت ہے۔ ہماری آواز ہو ،
بھکمری سے آزادی
جہالت سے آزادی
بے روزگاری سے آزادی
سامنت واد سے آزادی
منو واد سے آزادی
برہمن واد سے آزاردی
ذاتی واد سے آزادی
سنگھ واد سے آزادی
پونجی واد سے آزادی
حقیقی آزادی اور اس کی برکات سے ملک کا ایک بڑا طبقہ محروم ہے۔بقول عامر عثمانی۔
کوہ کنی ہم سب نے کی تھی ہیرے بھی ہم سب نے چنے تھے
میرے ساتھی ان ہیروں سے عدل کے شیشے کاٹ رہے ہیں
رنگیں خوابوں کا اک دفتر ہم سب نے تصنیف کیا تھا
میرے ساتھی اس دفتر کو دیمک بن کر چاٹ رہے ہیں






