معاذ مدثر قاسمی
ہرسال کی طرح اس سال بھی قدیم روایات کو قائم رکھتےہوے ہم اہل وطن پندرہ اگست کو 72 ویں یوم آزادی کاجشن منائیں گے ۔اس دن ہر طرف خوشیوں کا سماں ہوتا ہے، اپنے اسلاف کی یادیں تازہ کی جاتی ہیں ، ترنگے کو سلامی پیش کرتے وقت ہم اپنے پرکھوں کی ان قربانیوں کو یاد کر تے ہیں جن کے نتیجے میں آزادی حاصل ہوئی ہے اور اس خوش گوار موقعے پر ہم نہال ہو تے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ جشن آزادی مناتےوقت اسلاف کی قربانیوں کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں لیکن آج کے آزاد عظیم سیکولر ہندوستان میں جشن آزادی مناتے وقت لوگوں کے ذہنوں میں سوالوں کا ایک ہجوم ہوتا ہے کہ کس لیے ہم یہ جشن آزادی مناتے ہیں؟ کس سے ہم آزاد ہوئے؟ کس نے ہمیں آزد کرایا؟ آزادی کے کیا عوامل تھے؟ کیا اب بھی ہمیں مکمل آزادی حاصل ہے؟ کچھ سوالوں کے جوابات پاکر یقینا دلوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے کہ فرنگیوں کی برسوں کی غلامی سے ہمیں زادی ملی تھی، جہاں ہماری بولنے اور سوچنے تک کی آزدی سلب کر لی گئی تھی، اپنی ہی سر زمین پر ایک لمبے عرصے تک غیروں کی غلامی اور ذلت و رسوائی کا بوجھ لیے پھر رہے تھے، ایسے نازک موقعے پر ہمارے اسلاف نے برادران وطن کے ساتھ مل کر گوروں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تب جاکر آزاد ہندوستان ہم کو نصیب ہوا۔
آج ہندوستان کے جو حالات ہیں اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو مایوسی ہاتھ لگتی ہے، اور ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ جس آزادی کاخواب ہمارے اسلاف نے دیکھا تھا اور جس کی خاطر بے پناہ قربانیاں پیش کی تھی، بہتر سال گزرجانے کے بعد بھی وہ آزادی انکی نسلوں کو شاید نہ مل سکی۔ یہ صحیح ہے کہ فرنگیوں کے تسلط سے ہندوستان نے بہتر سال قبل آزادی حاصل کرلی تھی مگر نفرت اور فرقہ واریت کی بیج جو وہ بو کر چلے گئے تھے آج وہ ایک تناور درخت بن چکا ہے کل انھوں نے بانٹو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنائی تھی آج وہی پالیسی آزاد بھارت میں اختیار کی جارہی ہے۔
ہم یہ تو کہتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں، لیکن ملک میں بڑھتی فرقہ واریت، مذہبی منافرت، عدم برداشت، سوچی سمجھی سازش کے تحت ہجومی تشدد جیسے واقعات آزاد ہندوستان پر شاید شب خوں مارنے کے مترادف ہے۔ جس وقت آزازی کی جد و جہد جاری تھی شہید قوم بھگت سنگھ( جس نے ملک کی مکمل آزادی کی خاطر بائیس سال کی عمر میں 1931ء میں جام شہادت نوش کیا) نے اپنی کم عمری میں ایسی باتیں کہی تھی جو آج کے ہندوستان پر ہو بہو صادق آتی ہے، اس نے کہا تھا کہ “ان دھرموں نے ہندوستان کا بیڑا غرق کردیا ہے اور پتہ نہیں یہ مذہبی فسادات ہندوستان کا پیچھا کب چھوڑیں گے”،”ان فسادات کے پیچھے فرقہ پرست مذہبی رہنما اور اخباروں کا ہاتھ ہے ، اس قت ہندوستان کے رہنما ؤں نے ایسی لید کی ہے کہ چپ ہی بھلی ہے”
ان باتوں پر اگرغور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ آزاد ہندوستان میں آزادی سے قبل کے حالات دہرائے جارہے ہیں ، موجودہ دور حکومت میں فرقہ پرستی کا بول بالا ہے ، صحافت کی آزادی سلب کی جارہی ہے، جس کا واضح ثبوت مشہور صحافی پنیہ پرسون باجپئی کا استعفی اور ابھیشار شرما کی لمبی تعطیل جنہوں نے حکومت کو آئنہ دکھانے کی کوشش کی تو ان کی آواز دبادی گئی۔
ہر طبقے کے لوگوں نے بے پناہ قربانیاں پیش کرکے ایک سیکولر ملک کی بنیاد ڈالی تھی، پھر اس ملک کی شناخت عظیم جمہوری ملک کے طور پر ہوئی لیکن اگر جمہوری ملک میں میڈیا پر حکومت کا خوف طاری ہو، حکومت کی من چاہی بات کہی جائے، عوام کی بات حکومت تک پہنچانے سے میڈیا ہاؤس معذور ہو تو پھر تو یقینا یہ جمہوریت کی روح کے منافی ہے
جہاں گائے کے نام پے اقلیتوں پر جبر و تشدد قتل و غارت گری کا نہ تھمنے والا طویل سلسلہ ہو ، جہاں جنید ، پہلو خان ، اخلاق جیسے بے گناہوں کو موب لنچنگ کا شکار بنایا جاتا ہو اور مجرموں کو حکومتی طبقہ گلے میں ہار ڈالتا ہو وہاں آزادی کی صدا کھوکھلی معلوم ہوتی ہے، جہاں عورتوں کی عصمت محفوظ نہ ہو ، کبھی آصفہ جیسی معصوم بچی کی عصمت لوٹ کرقتل کردیا جائے اور مجرموں کی رہائی کےلیے جلوس نکا لا جائے ، مظفر پور اور دیوریا میں کم عمر بچیوں کے ساتھ سیکس ریکٹ کا ننگا ناچ رچاجائے اور حکومت محض تماشائی بنی بیٹھی رہے تو ایسی آزادی غلامی سے بد تر ہے۔
کیا اشفاق اللہ خان ، شاہ اسماعیل شہید ، اور ٹیپو سلطان شہید نے اس لئے اپنی جانوں کا قربانی پیش کی تھی کہ سماج میں نفرت کا ماحول پید ا کیاجائے، قوم کو دوبارہ ذہنی غلامی میں جکڑا جائے، آج کے ہندوستان میں اس قوم کی وطن پرستی پر سوالیہ نشان لگایا جاتا ہے جس کے سپوتوں نے وطن عزیز کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ وطن پرستی کا ثبوت دینے کے لیے وقتا فوقتا مدارس اسلامیہ کو پابند عہد بنایا جاتا ہے ، حکومت وقت ان مدارس کو ترنگا پہرانے کے ساتھ ساتھ اسکی ویڈیو گرافی کرنے کا فرمان بھی جاری کرتی ہے ، مختلف تاریخی جگہوں کے نام بدل کر مسلمانوں سے حددرجہ نفرت کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے جس سماج کے تئیں نفرت کا زہر گھولاجا رہاہے اسی سماج کے پرکھوں نے سب سے پہلے آزادی کا نعرہ بلند کیا تھا ، پھر کیوں آزاد ہند میں حکومتی طبقہ سے لیکر قومی میڈیا تک کے لوگ نفرت کو ہوا دے رہے ہیں ؟
آج کے ہندوستان میں جو لوگ وطن پرستی کا سرٹیفیکٹ تقسیم کررہے ہیں ان کی حقیقت یہ ہے کہ ان کے مرکز پر ترنگا کے بجائے انکا نظریاتی جھنڈا لہرایا جاتا ہے، ایک طرف کچھ محب وطن ترنگے کی ریلی نکالتے ہیں تو دوسری طرف کچھ لوگ بھگوا جھنڈے کے ساتھ فخریہ صدائیں بلند کرتے ہیں ،حد تو یہ ہیکہ راجستھان کی ادےپور کی عدالت کی چھت پر زبردستی چڑھ کر بھگوا جھنڈا لگا دیاجاتاہے ۔
ہم سیکولر ملک کے باشندے ہیں یہاں ہر سماج کے لوگوں کو آزادی کے ساتھ جینے کا دستوری حق ملنا چاہیے، گنگا جمنا جس کی شناخت ہے ، اتحاد ہماری طاقت ہے ، نفرت ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ، فرقہ پرستی ہمارے سیکولر ملک کے ڈھانچے کےلیے دیمک ہے۔ انڈیا گریٹ انڈیا فرسٹ کا خواب اسی وقت پور ا ہوسکتا ہے جب ملک میں مذہبی مساوات عام ہو ، عدم برداشت کی کوئی جگہ نہ ہو ، اپنے حقوق کےلئے آواز اٹھانے کی کھلی اجازت ہو ۔ ملک ترقی کے راستے پر اسی وقت دوڑ سکتاہے جب سب کا ساتھ سب کا وکاس کو حقیقی جامہ پہنا یا جائے، اور ہر ایک کو اپنے مذہب کے مطابق کھانے ، پینے ، جینے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کا دستوری حق دیا جائے۔






