ضیاء الرحمن اصلاحی
دوام امن کا اعلان بن جاتی ہے آزادی
سر گیتی کا تاج فخر کہلاتی ہے آزادی
مٹا کر تفرقے سب رنگ و نسل و قوم و ملت کے
خوشی کے شہر میں پھر رقص فرماتی ہے آزادی
جِلا دیتی ہے زنگ آلود شمشیر تصور کو
تو بخت خفتہ کو بیدار کر جاتی ہے آزادی
سبق دیتی ہے ہم کو جذبِ ایثار و جرأت کا
جنوں بن کر خرد کے دل کو دہلاتی ہے آزادی
حریفان محبت کو وعید آخری دے کر
نگاہ خشمگیں سے پھر غضب ڈھاتی ہے آزادی
تمہیں صد حیف اپنی تلخ کامی کا گلہ کیا ہے
جو بدباطن ہیں ان کو راس کب آتی ہے آزادی
یہ وہ منجدھار ہے جس سے دل دریا لرزتا ہے
مجاہد سے دلہن کی طرح شرماتی ہے آزادی
یہ گلشن کے لیے باد صبا بن بن کے چلتی ہے
تو صحراؤں میں باد تند بن جاتی ہے آزادی
گلوں کا رنگ کلیوں کی چٹک شاخوں کی برنائی
امین صبح خنداں بھی تو کہلاتی ہے آزادی
غم ماضی کے بادل کو اڑا دیتی ہے لمحوں میں
ہر اک اندیشِ فردا نگل جاتی ہے آزادی
یہ شاعر کے تخیل کا پر پرواز ہوتی ہے
صریر خامِ بے باک بن جاتی ہے آزادی
جنون شوق میں مر مٹنے والے جاں نثاروں کو
زلال چشمِ حیواں سے نہلاتی ہے آزادی
اٹھاکر زندگی کی پستیوں سے بام رفعت پر
فقط اک جست میں انساں کو پہنچاتی ہے آزادی
ضیا کہنے کو یہ ہندوستاں آزاد ہے لیکن
اس آزادی پہ اشک خون برساتی ہے آزادی
موبائل نمبر 00971551189290،
ای میل: khanyasrib@gmail.com