تیری یہ جمہوریت، نا رے بابا نا

فیروز عالم ندوی

ہم مسکینوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ جمہوریت ملکی نظام کو چلانے کا سب سے اچھا ذریعہ ہے، سب سے زیادہ مامون وسیلہ ہے، اس کے ذریعہ ہم اچھے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں جو ہمارے لیے اچھی قراردادیں لاتے ہیں۔ ہمیں یہ سکھایا گیا کہ مغربی ممالک نے اس نظام کو بڑے ہی عمدہ طریقے سے تطبیق دیا ہے، ان کی مشنریز  اس نظام کی ایک بہترین مثال اور اسوہ ہیں۔ اس طرح ہمارا یہ عقیدہ بن گیا کہ اہلیان مغرب مختلف النوع آزادیوں، انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق، بچوں کے حقوق ، بوڑھوں کے حقوق اور یہاں تک کہ جانوروں کے حقوق کی بھی رعایت کرتے ہیں۔ دوسری اور تیسری دنیا میں ہونے والی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرتے ہیں، ان کے متعلق اعداد و شمار جاری کرتے ہیں اور اس کے لیے حکومتوں کو مجبور کرتے ہیں۔
لیکن یہ کیا! قاہرہ کی سڑکوں پر جمہوریت کے لیے پرامن احتجاج کرنے والے نوجوانوں کی لاشیں بچھا دی جاتی ہیں، ان کے خون سے شہر کی گلیاں رنگین ہو جاتی ہیں اور ان انسانیت کے ٹھیکیداروں کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلتا ہے، بلکہ وہ دبے زبان اس تانا شاہ کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ “بہار عرب” کا خواب چکنا چور ہو جاتا ہے۔ دن و رات جمہوریت کے نغمے گانے والے اور اس کی راگ الاپنے والے گرگٹ کی طرح اپنا رنگ بدلتے ہیں، ان کی نگاہیں اپنے قومی مفادات، ملکی ترجیحات اور مخصوص مقاصد پر مرکوز ہوتی ہیں۔ انہیں جمہوریت سے نہ کوئی واسطہ نظر آتا ہے اور نہ ہی اس کے حامیوں پر ہونے والے مظالم پر ہوئی افسوس ہوتا ہے۔
ارے یہ کیا! ترکی میں فوج کی ایک ٹکڑی جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کرتی ہے، انقرہ اور استنبول کی سڑکوں پر عوام الناس اس بغاوت کو روکنے کے لیے سڑکوں پر آجاتے ہیں، خود کو ان کے سامنے بچھا دیتے ہیں اور جمہوریت کو بچانے کے لیے خوشی خوشی اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کر دیتے ہیں۔ لیکن واہ رے مغرب کی جمہوریت پسندی! انہیں ان سیکڑوں جانو کی زیاں کا کوئی قلق نہیں ہے، وہ تو بغاوت کی ناکامی پر ماتم کناں نظر آتے ہیں۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر وہ اپنی جمہوریت نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے اس بغاوت میں ملوث افراد کو پناہ دیتے ہیں اور ان کی حمایت کے لئے تال ٹھونک کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ 
ہمارے بعض رہنما یورپ والوں کو خوش کرنے کے لیے “جمہوریت” کا نعرۂ مستانہ لگاتے ہیں حالانکہ جمہوریت ان کے پاس سے بھی نہیں گزری ہوتی۔ ان کی زندگی شاہانہ ہوتی ہے اور اس “شاہانہ” زندگی کو بر قرار رکھنے کے لیے جمہوریت کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ ان کی جمہوریت ہاتھی کے دانت جیسی ہوتی ہے، کھانے کی اور دکھانے کی اور۔ پھر جو لوگ ووٹ دے کر ان کی “شاہانہ” زندگی کے تحفط کا سامان کرتے ہیں، خود ان کے پاؤں میں جوتے نہیں ہوتے، ان سے حیوانوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، ان کی عزت کی کوئی حیثیت ہوتی ہے اور نہ ان کی موت کی کوئی اہمیت۔ لیکن ٹاک شوز میں یوں باتیں کرتے ہیں گویا یہی جمہوریت کا حقیقی علمبردار ہیں، اس کے بغیر جمہوریت کا پہیہ جام ہو جائے گا یا جمہوریت پٹڑی سے اتر جائےگی۔ 
وہ بھی ایک دن تھا۔ فرعون، ہامان، قارون اور دوسرے وی و ی آئی پیز کے علاوہ مصر کے لوگ اس تاریخی تماشے کو دیکھنے آئے تھے ۔سپیرے اپنی اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کے ساتھ آئے۔ فرعون اور ان کے وزرا کو یقین تھا کہ ان کے سپیروں کے مقابلے میں دو “غلام ” بھائیوں کی باتیں دیوانوں کی باتیں ہوں گی اور ہوا بھی یہی۔ جب ان کی رسیاں اور لاٹھیاں “سانپوں” کی صور ت میں حرکت کرنے لگے تو موسی ؑ کے دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ کیا ہے؟ تو خالق کی طرف سے “لا تخف” کی تسلی آئی۔ اس تاریخی مثال کے ذریعے حکمرانوں کے” تماشوں” کی وضاحت کی گئی ہے۔ میڈیا والے آج کے “سپیرے” ہیں، ان کی اپنی اپنی “لاٹھیاں” اور “رسیاں” ہوتی ہیں، پھر ان “رسیوں” اور “لاٹھیوں” سے جو صورتیں اور آوازیں پیدا ہوتی ہیں وہ “جادو” کا اثر رکھتی ہیں۔ اس لیے عصر حاضر کے فراعین اس جادوگری کے عوض اشتہارات کی صورت میں انعام و اکرام بخشتے رہتے ہیں اور میڈیا کی دکان چمکتی رہتی ہے۔
پوری عالم انسانیت جمہوریت اور حقوق انسانی کی بلا کسی امتیاز اور تفریق کے مستحق ہے۔ انسانی اقدار پر کسی کی اجارہ داری بالکل ناقابل قبول ہے۔ اس کے تئیں مغرب کا جو رویہ ہے وہ انتہائی خود غرضانہ ہے، اجارہ داری پر منحصر ہے۔ ہمیں ایک ایسی جمہوریت کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے جو مبنی بر انسانیت ہو نہ کہ مغربیت سے مستعار۔
(مضمون نگار ماہنامہ پیام سدرہ چنئی کے معاون ایڈیٹر ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں