” ہم جنسی “ ایک تباہ کن عمل

 مولانا منظر بلال قاسمی

ہم جنسی ایک ایسا شرمناک اور تباہ کن عمل ہے جو انتہائی خطرناک نتائج کا سبب ہے، جس سے نسلِ انسانی کی بقا ء کو شدیدخطرہ لاحق ہے اور جس سے سماج اور معاشرہ کا تانا بانا بکھر کر رہ جائے گا یہی وجہ ہے کہ اسے تقریباً ہر مذہب نے ممنوع قرار دیا ہے اور مہذب معاشرے میں اُسے ایک قبیح عمل مانا گیا ہے اور آج بھی بیشتر ممالک میں اسے غیر قانونی مانا جاتا ہے اور ہمارا ملک بھارت جو اپنی تہذیب و تمدن کے لئے اپنی ایک شناخت رکھتا ہے اس نے بھی  اِس غیر فطری اور غیر انسانی عمل کو جرم کے درجہ میں رکھا تھا۔ مگر افسوس کہ ہمارے ملک کی عدالت کے فاضل ججوں نے اب اس قبیح عمل کی اجازت دے دی جس کے بارے میں سونچ کر ہی گِھن آتی ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے بعدیہ سونچ کر ہی شرم آتی ہے کہ آنے والے وقت میں ہمارے معاشرہ میں ایک مرد  دوسرے مرد کے ساتھ یا ایک عورت دوسری عورت کے ساتھ  جنسی خواہش کی تکمیل کا غیر فطری راستہ اختیار کریں گے اور اسے جرم نہیں گردانا جائےگا اور پھر رفتہ رفتہ اسے بُرائی بھی تصور نہیں کیا جائےگا۔یہ تصور ہی دل دہلا دیتا ہے کہ اب ایک لڑکا ببانگِ  دُہل یہ کہے گا کہ فلاں لڑکا میرا پارٹنر ہے  جس سے میں جنسی خواہش  پوری کرتا ہوں یا ایک لڑکی دوسری لڑکی کے متعلق یہی اعلان کرے گی اور گھر والے یا معاشرہ کے ذمہ دار کو یہ حق بھی نہیں ہوگا کہ وہ انہیں اس تباہی سے روکے کیونکہ عدالت کےفیصلہ نے ان کے اِس اختیار کو سلب کر لیا ہے۔ عدالت کے اس فیصلہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہم اپنی شناخت اور اپنی تہذیب سے کتنے دور اور مغرب کی تباہ کن بے راہ روی سے کتنے متاثر ہو چکے ہیں۔اب تک جو لوگ اِس شرمناک عمل کو چُھپکر کر رہے تھے اب سپریم کورٹ کے فیصلہ کو آزادی سے تعبیر کر رہے ہیں اور ہمارے ملک کی پراگندہ ذہنیت کی حامل میڈیا  اِسے ایک تاریخی فیصلہ اور شخصی آزادی کا پر وانہ کہہ کر گمراہ کر رہی ہے۔مگر ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہئیے کہ جب بھی انسانوں نے فطرت سے بغاوت کی ہے اسے تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اُسی شرمناک ہم جنسی کے جرم کی وجہ سےقوم ِلوط کی بربادی ہوئی جس پر مقدس قرآن کریم گواہ ہے،اسی لئے مذہب اسلام نے اسےحرام اور جرم قرار دیا ہے۔حیرت ہے  کہ  سب کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ جنسی بے راہ روی کی وجہ سے ہی مغرب اور یوروپ میں خاندانی نظام تباہ و بر باد ہو گیا،عورتوں کومحض جنسی تسکین کا ذریعہ  کے طور پر استعمال کیا گیا، بغیر شادی کے جنسی تعلقات کو فروغ دیا گیا،پھر اس کے بعد “لِو اِن رِیلیشن” کے نام پر بغیر شادی اور بغیر کسی ذمہ داری کے جب تک مرضی عورتوں کے ساتھ رہنے اور ایک مدت کے بعد اسے بے یارو مددگار چھوڑ دینے کے رِواج کو پھیلایا گیا جس سے عورتوں کے لئے نام نہاد آزادی کا نعرہ دینے والوں کو عورتوں کے استحصال کا ایک نیا ہتھیار مل گیا،چنانچہ اُن ممالک میں ایسی بے شمارعورتیں ہیں جو اِس کا شکار ہوکر اکیلے زندگی گزار رہی ہیں، اور ان کے بچوں کے پاس اپنے باپ کا نام نہیں ہے، اس کے باوجود بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بھی اِس تباہ کن جنسی بے راہ روی کی اجازت مل گئی جس کے خطرناک نتائج کا روز مرہ مشاہدہ ہوتا ہے۔اور اب تو حد ہی ہو گئی کہ قدرت کے نظام سے بغاوت اور فطرت کے خلاف نیز نسلِ انسانی کی بقاء کے لئے خطرہ کا سبب ہونے کے با وجود ہم جنس پرستی کی اجازت دینے میں ہم مغرب کے تباہ کن راہ پر چل پڑے ہیں۔ کیا ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اخلاقی اقدار کی پامالی ہو جائے؟ ہمارے ملک کی عورتوں کا مزید استحصال ہو؟ ہمارےنوجوانوں میں غیر فطری عمل کی بیماری پیدا ہو؟  ہماری لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد سے ہم پریشان ہیں تو کیا اب ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لڑکے بھی جنسی تشدد کا شکار ہونے لگے؟ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں غیر شادی شدہ لڑکیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائے؟ کیا ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہمارا خاندانی نظام درہم بر ہم ہو جائے؟ مجھے معلوم ہے کہ بلا تفریق مذہب و ملت ہمارے ملک و معاشرے کے اکثر افراد ان سوالات کا جواب  نفی میں دیں گے۔ملک کی عدالت کے احترا م کے باوجود ہمیں یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ “ہم جنسی” کی اجازت والا یہ فیصلہ انتہائی افسوسناک ہے اور شرمناک ہے جس پر نظرِ ثانی ہونی چاہئیے۔اور اس سلسلہ میں سرکار کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ  اس فیصلہ کے خلاف پارلیمنٹ میں قانون سازی کرکے  اس ملک کو تباہی  سے بچائے، اسی طرح اپوزیشن  بالخصوص کانگریس کو  چاہئے تھا کہ وہ اس فیصلہ کے خلاف  سرکار پر قانون بنانے کا دباو ڈالتے مگر افسوس کہ  دونوں ہی گروہ  اپنے سیاسی مفاد کی خاطر  شرمناک طریقہ سے اس  فیصلہ کی حمایت میں لگے ہیں ۔ اسلئے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ نام نہاد شخصی آزادی کے نام پر مُٹھی بھر کچھ لوگوں کی شرمناک وکالت سے مر عوب ہوئے بغیر ہم جنسی جیسے قبیح عمل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ورنہ یاد رکھئے ہماری نسل کو تباہ ہونے اور ہمارے معاشرے کو بر باد ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا اور پھر ہم بھی مغرب کے موجودہ حالات و مسائل کا سامنا کرتے نظر آئیں گے، کیوں کہ مغرب تو یہی چاہتا ہے کہ  جس طرح وہ تباہی کا سامنا کر رہے ہیں ہم بھی ان کے شریک ہو جائیں، اب یہ ہماری صواب دید پر ہے کہ ہم تباہی والا راستہ اختیار کرکے اس دلدل میں پھنس جاتے ہیں یا پھر  اس  سے بچ کر سلامتی کی راہ چنتے ہیں۔

 

 

 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں