شمس تبریز قاسمی
30 مارچ 2016 کی بات ہے ،شام کے تقریبا سات بج رہے تھے ،میں نظام الدین میں واقع ملت ٹائمز کی آفس سے نکلنے کی تیاری کررہاتھا اسی دوران وہاٹس ایپ پر یہ خبر گردش کرنے لگی کہ دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ حدیث ،نامور محدث اور مقبول عام استاذ حضرت علامہ حسن باندوی کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ہے ،یہ خبر پڑھ کر میری زبان سے بے ساختہ ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ کے جملے نکل پڑے ،کچھ دیر بعد میں بٹلہ ہاؤس میں واقع اپنی رہائش گاہ پہونچا اور یہاںآکر ہم نے اپنے صحافی دوست جناب سعید ہاشمی صاحب سے اس سلسلے میں با ت چیت کی ، تفصیلات حاصل کی اور پہلی فرصت میں ہم نے ملت ٹائمز (اردو انگلش نیوز پورٹل )میں علامہ حسن باندوی کے وفات کی خبر شائع کی ،کل ہوکرتجہیز وتکفین کے بعد سعید ہاشمی صاحب کی لکھی ہوئے خبر کچھ ترمیم اور مختصر سوانح عمری کے ساتھ ہم نے دوبارہ شائع کی ۔ ،آج یہ مضمون رقم طراز کرتے وقت جب ہم نے 31 مارچ میں شائع کی گئی خبرکو کھول پڑھنا چاہاتو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ علامہ باندوی کے انتقال کی خبر جس میں آپ کی مختصر بایو گرافی کا تذکرہ تھا اسے ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد لوگوں نے یہاں پڑھ رکھاہے جبکہ 1564 لوگوں نے اسے صرف فیس بک پر شیر کیا ہے ،ایک معمولی ویب سائٹ پر کسی شخصیت کے انتقال کی خبر کو اتنی بڑی تعداد میں پڑھاجانا اس شخصیت کی مقبولیت کی واضح دلیل ہے اور با لیقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ دنیا بھر میں بجلی کے آگ کی طرح یہ خبر پہونچ گئی اور ہر کسی نے اپنے رنج وغم کا اظہار کیا۔ اسی کو بتلانے کیلئے ہمیں یہ تمہید قائم کرنے پڑی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حضرت علامہ حسن باندوی رحمۃ اللہ علیہ دنیائے علم وعمل میں نمایاں اوصاف کے حامل اور یکتائے روزگار عالم دین تھے ،آپ اکابر کی یادگر اور نمونہ اسلاف تھے ،عجز و انکساری اور تواضع وخاکساری آپ کی ذات گرامی کا منفرد وصف تھا ،آپ کی شخصیت کئی خوبیوں کی حامل اور انتہائی علم پرور تھی تھی ، اختلافات سے کنارہ کشی ،شہرت وناموری سے دوری اوراپنے فرائض کی انجام دہی میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے ،دارالعلوم دیوبند اور پھر تقسیم کے بعد وقف دارالعلوم میں آپ نے علم کی جو گتھیاں سلجھائی ہیں تاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کرسکے گی ،درس وتدریس اور افہام وتفہیم کا خصوصی ملکہ طالبان علوم نبوت ہمیشہ یاد رکھیں گے، آپ کی زبان گوہر بار سے نکلنے علمی لطائف اور معانی ومطالب کے گوہر آبدار درس وتدریس کی تاریخ میں آب زریں سے لکھے جائیں گے ۔
دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم رہنے کے دوران وقف دارالعلوم دیوبند کے اکثر ساتھیوں سے علامہ حسن باندوی رحمۃ اللہ کے درس کی خصوصیت اور تعریف سننے کا موقع ملا،جب کسی سے پوچھتا کہ طلبہ کے درمیان وقف دارالعلوم میں کون سے اساتذہ مقبول ہیں تو اس میں علامہ حسن باندوی رحمۃ اللہ علیہ کا تذہ کرہ ضرور آتا،آپ کے شاگرد انتہائی اہتمام کے ساتھ یہ بتاتے علامہ کو افہام وتفہیم کا خصوصی ملکہ حاصل ہے ،علم کلام اور منطق وفلسفہ میں آپ ید طولی رکھتے ہیں ،انتہائی دشوار،پیچیدہ اور مشکل مسئلہ کو چٹکیوں میں حل کردیتے ہیں ،جب تک طلبہ کو تشفی نہیں ہوجاتی ہے آپ آگے نہیں بڑھتے ہیں ،حتی الامکان درس میں ہر طالب علم کو اپنے سبق سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ساتھ ہی وہ طلبہ یہ بھی بتاتے کہ انتہائی سادہ مزاج ہیں ،تصنع اور بناوٹ سے پاک ہیں ،تواضع وخاکساری کے پیکر ہیں ۔
علامہ حسن باندوی کے تعلق سے سنے گئے ان تذکروں نے مجھے بھی ان کی زیارت کا مشتاق بنایا ، کئی مرتبہ کچھ دوستوں سے تذکرہ بھی کیا کہ علامہ سے ملاقات کرنی ہے لیکن باضابطہ ملاقات کا موقع میسر نہیں ہوسکا ،تاہم یہ ضرور معلوم ہوگیا کہ حضرت علامہ حسن باندوی صاحب دارالعلوم دیوبند کے مہمان خانہ کے پیچھے والے حصہ میں قیام پذیر ہیں اور مسجد طیب میں نماز پڑھتے ہیں ،میں نے اکثر مسجد طیب میں نماز پڑھتے وقت نظر دوارئی کہ علامہ مل جائیں اور ان سے شرف ملاقات حاصل کرلوں لیکن یہ موقع مل نہیں سکا ،ایک دن صبح کے تقریبا سات بجے مسجد طیب کی گلی سے ہم گزررہے تھے ہمارے ساتھ ایک اور صاحب تھے، اسی دوران ایک انتہائی ضعیف ،لاغر ،سادہ مزاج ،شخص مسجد طیب سے نکلتے ہوئے نظر آئے ، بدن پر کپکپی طاری تھے ،لڑکھڑاتے ہوئے چل رہے تھے ،ہمارے ساتھی نے کہاکہ یار علامہ حسن کس قدر کمزور ہوگئے ہیں،لیکن اس حال میں بھی تدریس کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ، یہ جملہ سن کر میں چونک گیا ۔۔۔۔میں نے فورا پوچھا کہ یہ وقف کے استاذ علامہ حسن باندوی ہیں کیا؟،اس نے کہا۔۔ہاں! یار تمہیں اتنا بھی پتہ نہیں ہے ۔۔میں نے کہاکہ حضرت کو میں نے اکثر یہاں نماز پڑھتے ہوئے دیکھاہے لیکن مجھے احساس ہی نہیں ہوسکا کہ یہی علامہ حسن باندوی ہے،ان کے طریقہ زندگی کو دیکھ کر میں سمجھ رہاتھا کہ یہ کوئی چلتا پھرتا آدمی ہے ۔ اس کے بعد جب بھی مسجد طیب کے راستے سے گزرنا ہوا ہم نے علامہ حسن باندوی رحمۃ اللہ علیہ کو تلاشنے کی سعی کی ،خوشی قسمتی سے جب بھی ملے ہم نے سلام کرنے کا اہتمام کیا ۔
علامہ حسن باندوی رحمۃ اللہ علیہ عالم اسلام کے مشہور بزرگ عارف باللہ حضرت قاری صدیق صاحب باندوی کے ہم وطن تھے ،بتایا جاتاہے کہ حضرت قاری صدیق صاحب ہی کی نگرانی میں علامہ باندوی کی تعلیم وتربیت ہوئی ۔ علامہ باندوی نے ابتدائی تعلیم مقامی مکتب میں حاصل کی،1951 میں دارالعلوم دیوبند آئے،یہاں طویل مدت تک اپنی علمی تشنگی بجھاتے رہے ،حضرت شیخ الاسلام مولاناسیدحسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے بخاری شریف پڑھنے کا شرف حاصل کیا،دارالعلوم کے زمانہ طالب علمی سے ہی حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند سے والہانہ محبت اور غایت درجہ کی محبت ہوگئی،آپ کی درسی خصوصیات ،علمی مہارت ،اطاعت و فرماں برداری اور صالح اوصاف کی بنا پر فراغت کے فورا بعد بحیثیت مدرس دارالعلوم میں تقرری ہوگئی اور یہاں کے موقر استاذ ہونے کے ساتھ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سفروحضر کے ساتھی اور رفیق بھی بن گئے ، 1982 میں جب دارالعلوم دیوبند کی تقسیم کا قضیہ نامرضیہ پیش آیا تو اس وقت مشکل وقت میں بھی آپ نے قاری صاحب کا ساتھ نہیں چھوڑا،ہر قدم قدم پر ساتھ نظر آئے اور دارالعلوم وقف کے قیام کے بعد یہاں بحیثیت استاذ اپنی خدمات شروع کردی ۔
علامہ حسن باندوی نقلیات کے ساتھ عقلیات اور علم کلام میں خصوصی مہارت رکھتے تھے،دارالعلوم میں آپ کے شرح عقائدکے درس کی طوطی بولتی تھی،آپ نے علم الصیغہ ہدایۃ النحو، ملاحسن، قطبی،میبذی،نورالانوار وغیرہ کے معرکۃ الآراء دروس سے ایک طویل عرصہ تک ہزاروں تشنگان علوم کو سیراب کیاہے،دارالعلوم وقف میں آپ کو ابوداؤد شریف جیسی موقر اوراہم ترین حدیث کی کتاب کا درس بھی دیا ہے ۔آپ کے زیر سایہ زانوئے تلمذ تہ کرنے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ دلائل وشواہداور طریقہ تطبیق آپ کے درس حدیث کو ممتازاوراکابرین حدیث کی یادگاربناتاتھا،اسماء الرجال اور تشریح حدیث انتہائی خوبصورتی کے ساتھ بیان فرماتے تھے۔
علامہ محمد حسن باندوی کی شخصیت سازی اور تعلیم و تربیت میں حضرت مولانا قاری صدیق صاحب باندوی رحمۃ اللہ علیہ کا خصوصی کردار ہے ،آپ ہی ان کے اصل گارجین ا ور مربی تھے،قاری صاحب ہی کی سرپرستی میں آپ نے قاعدہ بغدادی سے بخاری تک کا علمی سفرطے کیا اور طالب علمی سے رجال سازی کا عملی سفر پورا کیا،دارالعلوم دیوبند میں مفتی اعظم حضرت مفتی محمود الحسن صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے آپ نے اپنا اصلاحی تعلق قائم کیا ۔ان دونوں کے علاوہ آپ کی شخصیت پرحضرت حکیم الاسلام کاغلبہ تھا،اورقاری طیب صاحب ہی آپ کے لئے سب کچھ تھے،ملک و بیرون ملک کے کئی اسفار آپ نے قاری صاحب کے ساتھ کرنے کا آپ کو شرف حاصل رہاہے ۔
آپ نے درس نظامی کی کئی اہم کتابوں کی شرح بھی لکھی ہے جس میں میبذی،قطبی تصورات و تصدیقات،نورالانوار،علم الصیغہ،ہدایۃ النحو کی شروحات سر فہرست ہیں اور بڑی تعداد میں طلبہ مدارس ان سے استفادہ کرتے ہیں ،مولانا ہمیشہ سے لکھنے کے عادی رہے،جتنی بھی کتابوں کی تشریح کی ان سب کو مقبولیت عامہ حاصل ہوئی،آپ کی سب سے مقبول تصنیف شرح عقائد نسفی کی معرکۃ الآراء شرح المعروف باحسن الفوائد ہے جس طلبہ اور اساتذہ کے درمیان بے پناہ مقبولیت حاصل ہے ۔
علامہ حسن باندوی کی زندگی خوبیوں سے پر اور بے شمار اوصاف کی حامل ہے ،ام المدارس دارالعلوم دیوبند میں 25 سالوں کا عرصہ آپ نے گزار ا ہے تو تقسیم کے بعد وقف دارالعلوم دیوبند میں آپ نے 30 سالوں تک تدریسی خدمات انجام دی ہے ،نصف صدی سے زائد عرصہ تک کسی مرکزی ادارے وابستہ رہنے کا یہ اعزاز آپ کی مقبولیت کی منہ بولتی تصویر ہے اور یہی وہ چیزیں ہیں جو اور ں سے آپ کو بالکل ممتاز بنادیتی ہیں ۔
علم وعلم کا یہ عظیم قافلہ اور تواضع وانکساری کا سراپا مجسمہ گذشتہ 30 مارچ 2016 کو اپنے پیچھے ایک علمی دنیا آباد کرکے اس دارفانی سے رخصت ہوکر مزار قاسمی میں اکابر کے ساتھ آسودہ خاک ہوگیا ، آج دارالعلوم کے دردیوار سے یقینی طور پر یہ صدا آرہی ہوگی کہ
کون اس باغ سے اے باد صباجاتاہے
رنگ رخسارپھولوں کے اڑاجاتاہے
(نوٹ : یہ مضمون دارالعلوم وقف دیوبند کے زیر اہتمام علامہ حسن باندوی کی حیات وخدمات پر شائع ہونے والی ایک کتاب کیلئے ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی نے لکھاتھا،افادہ عام کیلئے اسے یہاں بھی شائع کیا جارہاہے۔ادارہ)
Home مضامین و مقالات سیر و سوانح علامہ حسن باندوی :ڈھونڈھو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب...