ایم ودودساجد
بریلی سے دیوبند کا فاصلہ محض 299کلومیٹرہونے کے باوجود مغربی اترپردیش کے یہ دو شہرذہنی طورپرایک دوسرے سے لاکھوں کلومیٹر کے فاصلہ پرآباد ہیں۔یہ فاصلہ برسوں کا نہیں بلکہ دہائیوں کا ہے۔پچھلے دنوں مبینہ طورپرحکومت کی پشت پناہی سے دہلی میں منعقد ہونے والی ایک چار روزہ کانفرنس میں نام نہاد صوفیوں کے ایک ٹولے نے اس ذہنی فاصلہ کولاکھوں سے کروڑوں میل میں تبدیل کردیا تھا اور اس کے سمٹنے کے آثار تاریک ہوتے جارہے تھے۔کھلے طورپردیوبندکو دہشت گردی کا گڑھ تک قرار دیا گیا۔اس عاقبت نااندیش ٹولے نے اپنے سوا سب کو سخت گیر ہی نہیں بلکہ دہشت گرد تک کہہ ڈالا۔ وہابی (اہل حدیث)دیوبندی‘جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت کے نام لے لے کرحکومت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہ سب دہشت گردی کے منبع ومخزن ہیں اور ہم سے بڑاوطن پرست اورامن پسند کوئی نہیں۔
اس احمقانہ بلکہ انتہائی شرپسندانہ مہم کا نتیجہ سامنے آنے لگا اور دہلی سے ایک درجن کے قریب بے قصور اور سادہ لوح نمازی نوجوانوں کو دہشت گرد بتاکراٹھالیا گیا۔انہی میں ایک نوجوان دیوبند کا رہنے والا ہے۔اہالیان دیوبند اسے ایک شریف النفس اور تبلیغی ذہن کا نوجوان قرار دیتے ہیں۔13میں سے ان تین میں دیوبند کا یہ نوجوان بھی شامل ہے جنہیں عدالت نے 10روز کی پولس حراست میں دیدیا ۔ایسے میں بریلی اور دیوبند کے درمیان کروڑوں میل کا یہ فاصلہ اچانک سمٹ جائے تومجھ جیسے کمزور دل کے آنسوکیسے ٹھہرسکتے ہیں۔ایک وہاٹس ایپ گروپ’’تازہ ترین خبریں‘‘پرگزشتہ 8مئی کودن میں ایک بج کر37منٹ پربس اتنی سی خبر ملی کہ’’مولانا توقیر رضا کے دیوبند پہنچنے کی خبر ہے‘‘۔ میں نے اس پر فوراً لکھا کہ’’ایک عرصہ کے بعد ایسی عمدہ خبرملی‘اگر یہ خبر درست ہے توکرہ ارض پر سب سے زیادہ خوش ذی نفس میں ہوں‘‘۔اس کے بعدمولانا ارشد مدنی کے مشیرمولانا فضل الرحمن نے مجھے فون کرکے جو بتایا اس کو سن کر میری آنکھوں سے آنسو روا ہوگئے اور پھر میری آواز بھرا گئی۔اس سے زیادہ مجھ سے کچھ نہ کہا گیا کہ کاش میری نسل کے لوگ اپنی زندگی میں ہی مسلمانوں کا عملی اتحاد دیکھ سکیں۔اور مسلمان اس ملک میں آنے والی مختلف آفات ناگہانی سے محفوظ ہوجائیں۔
مولانا توقیر رضا خان ‘بریلوی مسلک کے امام‘ احمد رضا خان بریلوی کے خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں۔عقائد کے اعتبار سے دیوبند اور بریلی ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔میں نے عقیدہ کی بنیاد پر ان دوطبقات کے سوااور کسی کو سماجی اور سیاسی طورپراتنی دور نہیں پایا۔اس اعتبار سے مولانا توقیر رضا خان کا دیوبند پہنچنا یقینی طورپر ایک واقعہ تھا۔دہلی پولس کے اسپیشل سیل نے دیوبند کے جس نوجوان کو اٹھایا تھا توقیر رضا خان اس کے اہل خانہ سے اظہار ہمدردی کے لئے پہنچے تھے۔وہاں انہوں نے علماء دیوبند سے بھی ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔چونکہ مولانا ارشد مدنی اس وقت دیوبند میں نہیں تھے اس لئے مولانا توقیر رضا خان صاحب کو دارالعلوم کے مہمان خانہ میں جانے کا مشورہ دیا گیا جسے انہوں نے قبول کرلیا۔دارالعلوم کے مہمان خانہ میں ان کا استقبال مدرسہ کے مہتمم مولانا ابوالقاسم نعمانی اور دفتر اہتمام کے رکن اور ترجمان اشرف عثمانی نے کیا۔دارالعلوم دیوبندایک ایسا ادارہ ہے کہ جہاں علم کے متلاشی اور اہل علم دونوں آتے رہتے ہیں۔یہ کوئی واقعہ نہیں بنتا۔لیکن توقیر رضا خان صاحب کا وہاں جانا ایک واقعہ بن گیا۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں مسالک کے علما اور ان کے پیروکاروں کے درمیان کس حد تک فاصلے قائم تھے۔اہالیان دیوبند اور ان کے متعلقین نے مولانا توقیر رضا خان کی آمد پر جس والہانہ انداز میں اظہار خوشی کیا اس سے علماء دیوبندکی وسعت قلبی کا ثبوت ملتا ہے۔لیکن یہاں خود مولانا توقیر رضا خان صاحب کی وسعت قلبی کا اعتراف نہ کرنا بھی تنگ نظری ہوگا۔اس لئے کہ ملنے اور نہ ملنے کی شدت علماء بریلی اور ان کے پیروکاروں میں ہی پائی جاتی رہی ہے۔اب ان کی طرف سے ایسی کسی پہل کا ہونا بجائے خود ایک واقعہ تھا۔مسلک دیوبندسے وابستہ ہزاروں لوگوں نے اس پہل کا خیر مقدم کیا اور میرے فیس بک پوسٹ کو تقریباً ایک ہزار دوستوں نے آگے بڑھایا۔ لیکن یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ مسلک بریلی سے متعلق بہت سے افراد نے مولانا توقیر رضا خان صاحب کے اس قدم پر خوب لعن طعن کی۔اختلاف کا حق اور اظہار اختلاف اپنی جگہ لیکن اختلاف کے اظہار کا جو طریقہ اختیار کیا گیا اس سے بڑی تکلیف پہنچی۔فیس بک کے تبصرہ کا کالم گالیوں سے بھر گیا۔خود علماء دیوبند کو بھی مطعون کیا گیا۔
ادھر خود مولانا توقیر رضا خان صاحب کو اپنی خانقاہ بریلی اور اپنے مکان تک پہنچنے میں دشواری پیش آئی۔بعض ذرائع کے مطابق ان کے اپنے اہل خانہ نے ہی ان کے خلاف علم بغاوت بلندکردیا۔سڑکوں پر ان کے خلاف مظاہرے کئے گئے۔اس صورت میں بھی دیوبند ہی ان کے کام آیا اور اشرف عثمانی نے بریلی کی ایک ممتاز شخصیت کو فون پر وہ سب کچھ بتایا جو دیوبند کے مہمان خانہ میں مولانا توقیر رضا خان صاحب نے کہا تھا۔انہوں نے کہا کہ میں دیوبند انسانی مسئلہ اور مسلم اتحاد کے اشوکو لے کر آیا ہوں مگرمیں اپنے مسلک پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔میں بہ حیثیت مسلمان اتحادچاہتا ہوں‘۔ظاہر ہے کہ علماء دیوبند نے ان کو دعوت تو نہیں دی تھی لیکن ان کے اچانک پہنچنے پر ان کا تہہ دل سے استقبال کیا۔اور کوئی مسلکی اختلاف کی بات بھی نہیں کی۔ایک عینی شاہد نے بتایا کہ مولانا توقیر رضا خان مسلم مسائل اوراتحاد کے سلسلہ میں بات کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔انہوں نے کہاکہ اگرہم مسلکی تنازعہ میں الجھے رہے تو یہ دنیا ہمیں کھاجائے گی۔معلوم ہوا کہ اشرف عثمانی کی اس گفتگو کوریکارڈ کرکے بریلی کے چوراہوں پر سنایا گیا اور تب جاکران کے خلاف ماحول میں کچھ نرمی آئی۔
میں اب سے 30-35برس پہلے کاایک واقعہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔سہارنپور کی ایک ممتاز شخصیت اور جامعہ غوثیہ کے مہتمم حکیم محمد احمد صاحب کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔میرے والد صاحب مرحوم ہرچند کہ مسلک دیوبند پر کاربند تھے لیکن حکیم محمد احمد صاحب ان کواپنی رہائش گاہ پرمنعقد ہونے والے مختلف علمی پروگراموں میں مدعو کیا کرتے تھے۔ایک روز یہ ہوا کہ میں والد صاحب کے بغیر ہی ان کی محفل میں چلاگیا۔میں ہرچندکہ کم عمر تھا لیکن ان کے حلقہ بگوش مجھے پختہ سمجھتے تھے۔ایک روز کسی مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے سورہ مریم میں واردحضرت عیسی علیہ السلام کا قصہ نقل کیا اور اس دوران انہی کی زبانی قال انی عبداللہ کاترجمہ کرتے ہوئے میں نے کہاکہ’’عیسی علیہ السلام نے کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔‘‘اس پر حکیم صاحب مرحوم کے حلقہ بگوش سخت غضبناک ہوگئے اور مجھ سے بندہ کی بجائے کچھ اور ترجمہ کرنے کو کہا۔میں نے پوچھا کہ آخر بندہ پر آپ کو کیا اعتراض ہے؟تو ان کا جواب سن کر میں ساکت وجامد رہ گیا۔انہوں نے کہا کہ بندہ میں جو الفاظ ہیں وہ دراصل دیوبندمیں بھی ہیں۔اس لئے اس کا کوئی اور ترجمہ کرو۔میرا اصرارسن کر وہ مشکوک ہوگئے اور حکیم صاحب سے پوچھا کہ اس لڑکے کا مسلک کیا ہے؟حکیم صاحب نے جواب دیا کہ ’’اس کے لئے ابھی سارے راستے کھلے ہوئے ہیں۔‘‘میں نے اپنے والد صاحب سے اس کا ذکر کیا تو وہ مسکرائے اور کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ میں مسلک دیوبند سے منحرف ہوگیا ہوں‘میں اپنے اسلاف کے مسلک پر سختی کے ساتھ قائم ہوں لیکن وہ وقت آرہاہے کہ جب ہندوستا ن کے مسلمان مختلف مسالک کے پیروکاروں کے درمیان نفرت کے متحمل نہیں ہوسکیں گے۔اس لئے میں اس نفرت کو کم کرنے کی خاطر ان سے ملتا ہوں۔‘‘
مجھے مولانا توقیر رضا خان کے اس قدم پر کوئی شک نہیں ہے۔وہ اتحاد چاہتے ہیں اور ایک انتہائی تکلیف دہ صورتحال سے لڑنے کے خلاف اتحاد چاہتے ہیں۔توقیر رضا خان کے مخالفین سیاسی محرکات کے سبب ان کی مخالفت کر رہے ہیں۔توقیر رضا ‘مسلم نوجوانوں کی دھڑا دھڑ گرفتاریوں پر متفکر ہیں جبکہ ان کے مخالفین کھل کر دوسروں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔ایسے میں تمام مسلمانوں اور خاص طورپردیوبندی‘تبلیغی‘جماعت اسلامی اوردوسرے تمام مسالک کے علما کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے مسالک پر سختی کے ساتھ کاربند رہتے ہوئے مسلمانوں کے مجموعی اتحاد کی خاطراہالیان بریلی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں۔نظریات میں جو شدت ہے اس پر نہ صرف یہ کہ اب گفتگو نہ کی جائے بلکہ اس شدت کو ختم کیا جائے۔اگر علماء نے وقت کی اس ضرورت کے تقاضے کو محسوس کرکے قدم آگے نہ بڑھائے توایسا موزوں اور سنہرا وقت شاید پھر کبھی نہ آئیگا۔ (ملت ٹائمز)
(مضمون نگار سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں)