جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا

محمد شارب ضیاء رحمانی

مغربی تہذیب کو ثقافت کا نام دے کر مہذب کہی جانے والی دنیا نے جس طرح بدتہذیبی کو اپنے دامن میں جکڑ لیاہے، اس کا انجام وہی ہونا تھا، جو ہورہا ہے۔ عورتوں کی آزادی اور صنفی مساوات کے پرفریب نعروں کی ہوا نکلتی جارہی ہے۔ برابری کے نام پربے پردہ کرکے کالجز کی مخلوط تعلیم کی وکالت کی گئی ، دوسری طرف مساوات کے نام پران کے گھرکے آرام کو غارت کرکے آفسوں اور کمپنیوں تک پہونچا دیا گیا، پھر ان کی عزت و آبرو سے کھلواڑ ہوتا رہا، عورتوں کی آزادی کے نعرے لگاکر آنکھیں سینکنے کی راہ تلاش کی گئی اور ان کے جسم کو متاعِ بازار بنایا گیا ( بڑی حد تک مسلمانوں کا متوسط اورنچلا طبقہ بچارہا )، ان بے حیائیوں کے نتائج ’’ می ٹومہم ‘‘ کے خلاصوں سے ظاہر ہورہے ہیں، روز نئے نئے انکشافات بتانے کے لیے کافی ہیں کہ صنفی آزادی کے نعرے لگانے والوں کی منشاء کیاتھی۔ حیرت ہے کہ ان انکشافات کے بعدبھی اسلامی تعلیم کوعورتوں کے لیے رکاوٹ اور مغربی کلچرکو ترقی کی کلید بتایا جارہا ہے۔ ’’ خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد جو چاہے آپ کاحسن کرشمہ ساز کرے ‘‘۔ لیو ان ریلیشن کو قانونی حیثیت حاصل ہے، رضامندی سے کسی سے بھی جنسی تسکین ( یہاں تک کہ ہم جنسی بھی ) شخصی آزادی ہے ؟ لیکن دوسری شادی کی شرائط کے ساتھ بیوی بناکر سارے حقوق دے دے تو ظلم ہے؟ باس اور افسروں کے زیرنگرانی کام کرنے والی عورتوں کوکس طرح جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے، پھر بالی ووڈ، میڈیا انڈسٹری کی بات ہی رہنے دیجیے۔ وہاں سے متعلق جو انکشافات سامنے آئے ہیں وہ توقع کے خلاف نہیں ہیں، ماتحتوں کا استحصال تو عام روایت ہے، جہاں جنس مخالف ہو تو جنسی استحصال کیوں نہ ہوتا ۔

 می ٹومہم سے جو باتیں نکل کر آرہی ہیں وہ اسی مخلوط کلچر کی دین ہیں جنہیں ثقافت کہا جاتا تھا۔ پھربھی لبرلوں کی کوشش ہے کہ اسلام کے نظام عفت و عصمت پر سوال اٹھاکر مسلم معاشرے کو بھی متاثر کیا جاسکے۔ کلاسز میں مرد و زن کا اختلاط، وہ بھی اس عمر میں جہاں ہوش و خرد پر جذبات حاوی ہوتے ہیں، جنسی تسکین کا سامان فراہم کرکے کس خیر کی امید کی جاسکتی تھی ،رہی سہی کسر اینڈرائیڈ موبائل نے پوری کردی ہے۔ مسلمان طبقے کے سامنے یہ حقائق رہنے چاہئیں کہ برابری، مساوات اور آزادی نسواں کی بھول بھلیوں میں رکھ کر ان کی عورتوں کے لیے کتنا مضر نسخہ پیش کیا گیا ہے۔ مسجدوں میں مسلم عورتوں کے جانے سے مصلحتاََ روکنے پر اعتراض اس لیے ہے کہ آشرموں کی خواتین کی طرح مسلم عورتیں پریشان کیوں نہیں ہیں؟

اسلام کے آسان نظام طلاق سے دشواری ہورہی ہے کہ مسلم خاندان ان کے خاندانوں کی طرح تباہ کیوں نہیں ہورہے ہیں، یہی مشکلات کھڑی کرنے کے لیے ایک طرف عورتوں کو اسلامی شریعت سے ورغلایا جارہا ہے تو دوسری طرف ان کے لیے گھریلو مسائل کھڑے کرکے خانگی نظام کو تباہ کرنے کی کوشش مسلم خواتین کی ہمدردی کے نام پر جاری ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ آسان نظام طلاق کے باوجود مسلمانوں میں شرح طلاق سب سے کم ہے اور جہاں طلاق کا دشوارگزار پراسیس ہے اور دوسری شادی جرم ہے وہاں چھوڑ دینے اور ایک سے زائد شادی کی شرح زیادہ ہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ موجودہ قانون غیرفطری ہے اور اسلام کا عائلی نظام، عقلی، فطری اور انسانی تقاضوں کی بنیادوں پر ہے۔ گویا کہ مسلم خاندان ،مسلم پرسنل لاء میں زیادہ محفوظ ہیں۔ کیوں کہ اسلام نے گھر کو جوڑنے اور بسانے کی بھرپور کوشش کی ہے، ذمہ داریوں کوتقسیم کرکے ایک دوسرے کے حقوق کے تئیں خوش گوار احساس دلایا ہے، رشتے کو پاکیزگی دی ہے، عصمت و پاک دامنی کا تصور مذہب اسلام کی خصوصیت ہے۔ اس نے تنازعات کی صورت میں حل بھی بتائے ہیں اور کوئی چارہ نہ رہنے پر دونوں کے لیے راہیں کھول دی ہیں کہ گھٹ گھٹ کر جینے کی بجائے آزادانہ نئی زندگی کی شروعات کرسکیں۔ یہی طلاق کا کانسیپٹ ہے۔ دوسرے لفظوں میں طلاق ضرورت ہے اور بوقتِ ضرورت بحالتِ مجبوری اس کا استعمال کرنا چاہیے۔

نکاح سماجی معاہدہ ہے، دوسری قوموں کی طرح جنم بھر کا بندھن نہیں ہے کہ ستی میں ساتھ جلادی جائیں۔ اسلامی تعلیمات کی روح ہے کہ رشتہ ایک بار ہوجانے سے زندگی بھر چلنا چاہیے۔ اس نے نباہ کرنے کی قدم قدم پر ہدایت دی ہے۔ عام طور پر تنازعات ان دائروں سے باہر نکلنے اورحقوق و فرائض سے عدم واقفیت یا عمل نہ کرنے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ اختلافات کے مواقع پربھی گھرکے بڑے بوڑھوں کے ذریعہ صلح کرلینے کی ترغیب دی گئی ہے۔ سارے دروازے بندکرکے گھُٹ گھُٹ کر جینے، بیوی کو لاچار چھوڑ کر بھاگ جانے اور زندگی بھر کے تنازعات و الجھن میں پڑے رہنے سے آزاد ی کے لیے راستے کھول دیے ہیں۔ مرد کو اجازت دی ہے کہ طلاق کے ذریعے اور عورت کو اجازت دی ہے کہ خلع کے ذریعے الگ ہوجائیں، چاہیں تو نئی زندگی دوسرے جیون ساتھی کے ساتھ شروع کرلیں۔ اس ضمن میں اس نے بہتر طریقہ یہ بیان کیا ہے کہ ایک طلاق دی جائے تاکہ عدت ( تقریباً چار ماہ ) کے دوران جو ایک مناسب مدت ہے، اپنے فیصلے پرنظرثانی اور ایک دوسرے کو منالینے اور خوش گوار زندگی کے عہد کا موقعہ باقی رہے۔

بعض اوقات مرد اس اختیار کا غلط فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور بیوی کو اذیت میں مبتلاکرنے کے لیے ایک ایک طلاق دے کر رجوع کرسکتے ہیں۔ایسے مردوں سے نجات کے لیے تین طلاق عورت کے لیے رحمت ہے کہ وہ اس ظالم سے فوری ہی چھٹکارا پالے اور وہ دوبارہ رجوع نہ کرسکے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسلامی نظام طلاق کو اپناکر غیرمسلموں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کی جاتیں اور بیٹیوں کو بچایا جاتا، اس کا اعتراف ہے کہ بہت کم پڑھے لکھے سماج میں کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں، لیکن یہ مسلم پرسنل لاء کی خرابی نہیں ہے، اسلامی قانون ( مسلم پرسنل لاء ) تو آزادی اور آسانی پیدا کرنے کے لیے ہے۔ یہ سماجی برائی ہے اور یہ برائی دوسرے مذاہب کے طبقات میں بھی ہے، بلکہ زیادہ ہے۔ ان برائیوں کو سماج سدھار ابھیان کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔ ورنہ قانون تو قتل،عصمت دری اور گھپلوں کے انسداد کے لیے بھی ہیں، لیکن یہ زمین پر کتنے نافذ ہیں؟۔

بوقتِ ضرورت، سارے راستے بند ہونے پر اور شریعت کے تمام پراسیس سے گذرکر ایک طلاق دینی چاہیے۔ ایک مجلس کی تین طلاق ناپسندیدہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی نے اگرتین طلاق دی تو کیا ہوگا؟۔ ایک بات یادرکھنی چاہیے کہ کسی چیز کا ناپسندیدہ ہونا الگ ہے اور اس کا ہوجانا الگ ہے۔قتل جرم ہے، لیکن کوئی کرے تو واقع ہوجاتا ہے، طلاق ناپسندیدہ ہے لیکن کوئی دے تو واقع ہوجائے گی خواہ ایک طلاق دے یاتین، البتہ اس میں تھوڑی تفصیل یہ ہے کہ فقہ جعفریہ (شیعہ) اور اہل حدیث مسلک اور امام ابن تیمیہؒ کے نزدیک تین طلاق اگرکسی نے دی تو ایک شمار ہوگی، ان حضرات کے پاس بھی دلائل ہیں۔ جب کہ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمدبن حنبل، امام مالک، امام بخاری ، امام مسلم اور متقدمین سارے فقہاء ومحدثینؒ کے نزدیک تین طلاق دینے پرتین شمار ہوگی ( بالکل بے بنیاد بات ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق کے تین ہونے کی بات صرف حنفی مسلک میں ہے ) بلکہ ابن عباسؓ کے ساتھ ساتھ جمہور صحابہ و تابعین کے نزدیک بھی تین ہی ہوتی ہیں۔ متعددصحیح روایات سے ثابت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیں بھی تین طلاق کو تین مانا گیا ہے۔ رک کر ایک بات سمجھنا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ نے تین طلاق کو کالعدم قرار دیا ہے، یعنی کسی نے تین طلاق دی تو بالکل طلاق نہیں ہوگی۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے کسی طبقہ میں ایسا نہیں مانا گیا ہے بلکہ بعض کے نزدیک ایک اور بعض کے نزدیک تین ہوگی۔ یہ غلط فہمی بھی دور ہوجانی چاہیے کہ مسلم ممالک میں تین طلاق پر پابندی ہے۔ اولاً پابندی کا کیا مفہوم ہے، اب تک واضح نہیں کیا گیا ہے، اس کا ہرگز یہ مفہوم نہیں ہے کہ طلاق واقع ہی نہیں ہوگی اور اگرمسلم ممالک میں پابندی ہوبھی تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ طلاق بالکل واقع نہیں ہوگی۔جیساکہ پہلے عرض کیا گیا کہ کسی چیز کا مذموم ہونا یا پابندی شدہ ہونا الگ ہے اور ہوجانا الگ ہے۔ اب تک یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ وہ پچیس ممالک کون سے ہیں؟۔ اس ضمن میں سعودی عرب کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ صاف عرض کردوں کہ سعودی عرب کے علماء اور حکومت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین واقع ہوتی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ کچھ مسلمان ،جھوٹ پر مبنی میڈیا فوبیا میں مبتلا ہوکر غلط فہمی کے شکار ہوجاتے ہیں۔

خواتین کو اسلام میں دی گئی اصل آزادی اورعقلی و فطری شریعت ان لوگوں کو نہیں بھاتی جن کے پاس نہ کوئی مستقل نظریہ اور نہ پاکیزگی کا کوئی تصور ہے۔ وقت رہتے لبرل طبقے کے پرفریب نعروں سے ہوشیار رہ کر بچوں اور بچیوں کو اس کلچر سے بچانے کی ضرورت ہے۔ ادھر کے دنوں میں مسلم لڑکیوں کے غیرمسلم سے تعلقات جیسے واقعات اسی مہلک راستے سے آئے ہیں۔ گارجین کی ذمہ داری ہے کہ مخلوط تعلیم اور مخلوط سوسائیٹی سے بچاکر رکھیں ورنہ حالات اور سنگین ہوں گے، ان اسباب پر روک لگائیں جہاں سے فتنے شروع ہوتے ہیں۔

اسلام کی شان امتیاز ہے کہ وہ اصل مرض کے لیے نسخہ کیمیا تجویز کرتا ہے، وہ شاخوں کوسنواکر حسین نہیں دکھاتا، جڑپرمحنت کرتا ہے، وہ صرف زنا سے نہیں روکتا ، زناکے قریب جانے سے منع کرتا ہے، زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہے ، وہ برائی سے ہی نہیں روکتا، اس کے اسباب کا سدباب کرتا ہے۔ اسلام نے عورتوں کو لبرلوں کی طرح متاعِ ہوس اور زینتِ بازار نہیں بنایا بلکہ بیٹی کی شکل میں رحمت قرار دیا، ماں کی صورت میں جنت، بہن ہو تو عزت اور بیوی ہو تو راحت بتاکر عظیم خوش خبریاں سنائیں، ان کے حقوق متعین کیے اور سماج میں ان کو عزت و وقعت بخشی، ان کے کاندھوں پر کمانے کا بوجھ نہیں ڈالا، نزاکت طبعی و جسمانی کی بھرپور رعایت کرتے ہوئے ان کو بہت سی ذمہ داریوں سے آزادیاں دیں۔دوسرے لفظوں میں عورت اسلام میں ہی آزاد، عزت دار اورمحفوظ ہے۔ اسلام کی خوبی ہے کہ وہ پریکٹیکل مذہب ہے، فطرت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے جو اس کے خدائی دین ہونے کی اہم دلیل ہے، انسان کے پیدا کرنے والے کی طرف سے انسانیت کو دیا گیا عظیم ضابطۂ حیات ہے۔ انسانیت کی بدنصیبی ہے کہ اس سے روگردانی کرے۔ معاشرے کی صلاح و فلاح کے لیے اس دین فطرت سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ہوسکتا۔ یہی وہ نسخۂ کیمیا ہے جس سے معاشرہ کی اصلاح ہوگی۔ ضرورت ہے کہ طرف داران مغرب اور لبرل طبقے ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ جس مذہب کو نشانہ بناکر عورت مخالف بتایا جاتا ہے وہ فطرت و عقل سے ہم آہنگ ہے یا ان کا تباہ کن کلچر؟ بلکتی انسانیت کے سامنے اس کے مسائل کے حل شرع متین کی روشنی میں پیش کیے جائیں تو مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ دنیا کو ایک پناہ گاہ کی ضرورت ہے کیوں کہ بے حیائیوں کے طوفان کے سامنے شاخ نازک پر بنے آشیانے کسی قابل نہیں رہ گئے ہیں ؎

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا